سینتیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سینتیسواں سبق
[1]: عورتوں کوگھروں میں رہنے کاحکم
﴿يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ؁ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى وَأَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَأَطِعْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهُ ۭ﴾
(الاحزاب:32، 33)
ترجمہ: اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو نزاکت سے بات مت کیا کرو کہ دل کے مرض میں مبتلا شخص لالچ میں پڑ جائے اور بات وہ کہو جو بھلائی والی ہو اورتم اپنے گھر میں رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھرو، نماز قائم کرتی رہو، زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتی رہو۔
چند ہدایات:
[1]: کسی غیرمحرم سے پس پردہ بات کرنے کی ضرورت پیش آ جائے تو گفتگو کے انداز میں نزاکت اور لہجہ میں جاذبیت کے طریقہ پر بات نہ کریں۔ عورت کی آواز اور لہجہ میں چونکہ طبعی اور فطری طور پر دل کشی ہوتی ہے اس لیے غیر مردوں سے بات کرنے میں بتکلف ایسا لب ولہجہ اختیار کریں جس میں خشونت اور روکھا پن ظاہر ہو تاکہ کسی بدباطن کا قلبی میلان نہ ہونے پائے۔
[2]: عورتوں کے لیے شب وروز گزارنے کی اصل جگہ ان کے اپنے گھر ہی ہیں۔شرعا ًجن ضرورتوں کے لیے گھر سے نکلنا جائزہے ان کے لیے پردہ کے اہتمام کے ساتھ بوقت ضرورت عورت گھر سے باہر جا سکتی ہے۔ آیت کے سیاق وسباق سے واضح طور پر معلوم ہورہا ہے کہ بلا ضرورت پردہ کے ساتھ بھی باہر نکلنا اچھا نہیں ہے بلکہ جہاں تک ہوسکے نامحرم کی نظروں سے لباس بھی پوشیدہ رکھنا چاہیے۔
[3]: زمانہ قدیم کی جاہلیت
(الْجَاهِلِيَّةِ الْأُوْلٰى)
سے مراد وہ جاہلیت ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سےقبل دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس زمانہ کی عورتیں بے حیائی اور بے شرمی کے ساتھ بلا جھجک بازاروں، میلوں،گلی کوچوں میں بے پردہ ہوکر پھراکرتی تھی۔ جب باہر نکلتیں تو بن ٹھن کر نکلتیں۔ اپنے پرائے کا امتیاز تھا نہ غیرمحرموں سے بچنے کی فکر۔ یہ تھا جاہلیتِ اولیٰ کارواج اور سماج جوآج بھی اسلام کا دعویٰ کرنے والی عورتوں میں جگہ لے رہا ہے اورنئے مجتہدین پردہ شکنی کی دعوت دے کراسی جاہلیتِ اولیٰ کوترقی دینا چاہتے ہیں جس کے مٹانے کے لیے قرآن کریم نازل ہواتھا۔
ایک سوال:
بعض لوگ یہاں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آیات بالا میں خطاب امہات المومنین رضی اللہ عنہن کو ہے تو پھر آپ دوسری مسلمان عورتوں پر اس قانون کو کیوں لاگو کرتے ہیں؟
اس کا جواب:
پہلی بات....قرآن کا مزاج اور اسلوب یہ ہے:
إِنَّ الْعِبْرَةَ لِلْعُمُوْمِ لَا لِلسَّبَبِ.
(الجامع لاحکام القرآن: ج7 ص189 تحت سورۃ الاعراف)
کہ قرآن کا خطاب خاص اور حکم عام ہواکرتاہے۔ مذکورہ بالا آیات میں خطاب اگرچہ خاص یعنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو ہے لیکن ان آیات کا حکم عام ہے اور تمام عورتوں کے لیے ہے۔
دوسری بات.... یہ نکتہ انتہائی قابل غور یہ ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن تمام مومنین کی مائیں ہیں جیسا کہ ارشاد باری ہے:
﴿وَاَزْوَاجُہُ اُمَّہَاتُھُمْ﴾
کہ نبی کی بیویاں ایمان والوں کی مائیں ہیں۔ جب ازواج مطہرات کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے گھروں ہی میں رہا کریں او رجاہلیت اولیٰ کے دستور کے مطابق باہر نہ نکلا کریں تو امت کی دوسری عورتوں کے لیے بے پردہ ہو کر باہر نکلنا کیونکر درست ہوگا؟
تیسری بات.... شرف اور احترام کے باعث امت کی نظریں جن مقدس خواتین پر نہیں پڑسکتی تھیں یعنی امہات المؤمنین، جب ان کو بھی گھروں میں رہنے کاحکم دیاگیاہے توجن عورتوں کی طرف قصدا ًنظریں اٹھائی جاتی ہوں اور خود یہ عورتیں بھی مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں جیسا کہ آج کل یہ وبا بہت زیادہ ہے تو ان کو جاہلیت اولیٰ کے طریقے پر باہر نکلنے کی کیسے اجازت ہوگی؟! یہ بات عقل و دانش سے بالا تر ہے کہ خاندانِ نبوت کی چند خواتین کو مستثنیٰ کر کے امت کی کروڑہا عورتوں کو قدیم زمانہ کی جاہلیت کی طرح باہر چلنے پھرنے کی اجازت دی گئی ہو!!
چوتھی بات.... مذکورہ بالا آیاتِ میں جو احکام دیے گئے ہیں یہ فساد کے ذرائع کو روکنے کے لیے ہیں اور یہ بات بالکل ظاہرہے کہ دوسری عام عورتیں ان ذرائع سے روکے جانے کی زیادہ محتاج ہیں۔ اس لیے عام عورتوں کو ان احکام سے مستثنی کرنا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔
[2]: جنتی عورت کی صفات
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمَرْأَةُ إِذَا صَلَّتْ خَمْسَهَا وَصَامَتْ شَهْرَهَا وَأَحْصَنَتْ فَرْجَهَا وَأَطَاعَتْ بَعْلَهَا فَلْتَدْخُلْ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شَاءَتْ".
(مشکوٰۃ المصابیح:ص269 باب عشرۃ النساء)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت جب اپنی پانچ نمازیں پڑھے، اپنے رمضان کے روزے رکھے، اپنی عزت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہوجائے۔
[3]: بقیہ علامات قیامت کا بیان
ٹھنڈی ہواکا چلنا:
دآبۃ الارض کے نکلنے کے کچھ عرصے بعد ایک ٹھنڈی ہوا چلے گی جس سے تمام اہل ایمان اور اہل خیر مر جائیں گے یہاں تک کہ اگر کوئی مؤمن کسی غار یا پہاڑ میں چھپا ہواہوگا تو وہاں بھی یہ ہوا پہنچے گی اور وہ شخص اس ہوا سے مر جائے گا۔ نیک لوگ سب مرجائیں گے تو نیکی اور بدی میں فرق کرنے والا بھی کوئی باقی نہ رہے گا۔
(صحیح مسلم:ج2 ص 403 كِتَاب الْفِتَنِ. بَاب ذِكْرِ الدَّجَّالِ وَصِفَتِهِ وَمَا مَعَهُ)
حبشیوں کا غلبہ اور خانہ کعبہ کو ڈھانا:
بعدازاں حبشہ کے کافروں کا غلبہ ہو گا اور زمین پر ان کی سلطنت ہو گی۔ ظلم اور فساد عام ہوگا۔ بے شرمی اور بے حیا ئی کھلم کھلا ہو گی۔ چوپایوں کی طرح لوگ سڑکوں پر جماع کریں گے۔ حبشی لوگ خانہ کعبہ کو ایک ایک اینٹ کر کے توڑ دیں گے اورکعبۃ اللہ کا سارا خزانہ لوٹ لیں گے۔
حدیث مبارک میں ہے:
"لَا يَسْتَخْرِجُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ إِلَّا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ"․
(سنن ابی داؤد:ج2 ص 243 کتاب الملاحم․ باب النہی عن تہییج الحبشۃ)
ترجمہ: خانہ کعبہ کے جمع ہونے والے خزانے کو چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی شخص ہی نکالے گا۔
[3]: پردہ کے مسائل واحکام
اجنبیوں کے علاوہ کن کن رشتہ داروں سے پردہ ضروری ہے؟
سوال: یہ تومعلوم ہوگیا کہ تمام اجنبی غیر محرم مردوں سے پردہ ضروری ہے۔ یہ بتا دیجئے کہ رشتہ داروں میں سے کن کن سے پردہ ضروری ہے؟
جواب: درج ذیل سولہ(16) رشتہ دارایسے ہیں، جس سے پردہ فرض ہے مگر عام طور پر دین دار خواتین بھی ان سے پردہ کرنے میں کوتاہی کرتی ہیں۔ وہ رشتہ دار یہ ہیں: چچازاد، پھوپھی زاد،ماموں زاد،خالہ زاد،دیور، جیٹھ،بہنوئی، نندوئی، پھوپھا، خالو، شوہر کا چچا، شوہر کا ماموں، شوہر کا پھوپھا، شوہر کا خالو، شوہر کابھتیجا اور شوہر کا بھانجا۔
سوال: جوغیرمحرم گھر ہی میں رہتے ہیں مثلاً دیور، جیٹھ وغیرہ ان سے کیسے پردہ کیا جائے؟
جواب: ایسے حالا ت میں شرعی پردہ کا طریقہ یہ ہے:
1: خواتین ذرا ہوشیار رہیں، بے پردگی کے مواقع سے حتی الامکان بچیں، لباس میں احتیاط رکھیں بالخصوص سر پر د وپٹہ رکھنے کااہتمام کریں۔
2: مردآمدورفت کے وقت ذرا کھنکار کر خواتین کو پردہ کی طرف متوجہ کر دیا کریں۔ بعض خواتین شکایت کرتی ہیں کہ ان کے غیرمحرم رشتہ دار سمجھانے کے باوجود گھر میں کھنکار کرآنے کی احتیاط نہیں کرتے، اچانک سامنے آجاتے ہیں۔ آمدورفت کا سلسلہ ہروقت چلتا ہے ان سے پردہ کرنے میں ہمیں بہت مشکلات پیش آتی ہے۔ ایسے حالات میں خواتین جتنی احتیاط ہوسکے کریں۔ جتنی زیادہ مشقت برداشت کریں گی اتنا ہی اجر زیادہ ہوگا۔
3: غیر محرم مرد کی آمد پر خواتین اپنا رخ دوسری جانب کرلیں۔
4: اگر رخ دوسری جانب نہ کرسکیں تو سر سے دوپٹہ سرکا کر چہرہ پر لٹکالیں۔
5: شدیدضرورت کے بغیر غیر محرم سے بات نہ کریں۔
6: کسی غیرمحرم کی موجودگی میں خواتین آپس میں یا اپنے محارم کے ساتھ بے حجابانہ بے تکلفی کی باتوں اورہنسی مذاق سے پرہیز کریں۔
7: ان احتیاطوں کے باوجود اگر کبھی اچانک کسی غیرمحرم پر نظر پڑ جائے تو معاف ہے بلکہ اسی طرح بار باربھی نظر پڑتی رہے، ہزار بار اچانک بے اختیار سامنا ہوجائے تو بھی سب معاف ہے، کوئی گناہ نہیں۔ رب کریم کا بہت بڑا کرم ہے مگر اس کی مہربانی اور معافی کو سن کر نڈر اوربے خوف نہ ہوجائیں، جس حد تک احتیاط ہوسکتی ہے اس میں ہرگز کوتاہی نہ کریں۔ ورنہ خوب سمجھ لیں کہ جس طرح وہ رب کریم شکر گزار اورفرمانبردار بندوں پرمہربان ہے اسی طرح ناقدروں،ناشکروں اورنافرمانوں پر اس کا عذاب بھی بہت سخت ہے۔
سوال: منہ بولے بیٹے یا بھائی کا کیاحکم ہے؟ بعض خواتین کسی کو منہ بولا بیٹا یابھائی بنا لیتی ہیں۔ کیاا س سے پردہ ساقط ہوجاتاہے؟
جواب: نہیں! اس سے ہرگز پردہ ساقط نہیں ہوتا۔منہ بولے بیٹے یا بھائی کا حکم بالکل ویسا ہی ہے جیسے اجنبی مرد کا۔
سوال: بعض خواتین کہتی ہیں کہ ہم نے تو اپنے دیوروں کو بچپن سے پالاہے، ہم تو ان کی ماں جیسی ہیں، اب ان سے کیا پردہ؟ اسی طرح بعض مرد کہتے ہیں کہ فلاں لڑکی تو میری بیٹی کی طرح ہے یا بعض خواتین کہتی ہیں فلاں شخص توہمارے ابا کی عمرکا ہے، اس سے بھلا کیا پردہ؟توکیا ایسا کہنا درست ہے؟
جواب: نہیں! ہرگز نہیں۔ ایسی باتوں سے پردہ معاف نہیں ہوتا۔
[5]: زیادہ اجر والی دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ان کلمات کو دن میں سو مرتبہ پڑھے گا اس کو دس غلام آزاد کرنے کے برابرثواب ملے گا، سو نیکیاں حاصل ہوں گی اور سو گناہ معاف ہوں گے اور سارا دن رات شیطان سے اس کی حفاظت ہو گی۔
وہ دعا یہ ہے:
لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ لَهٗ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ․
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(صحیح مسلم:ج 2 ص 242 كتاب الذكر والدعاء ․باب فضل التھلیل والتسبیح والدعاء)