انیسواں سبق

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
انیسواں سبق
[1]: شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم
﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا ۡ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰةِ ٻ وَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ ڗكَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۭ وَعَدَ اللهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا﴾
(الفتح:29) ترجمہ: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں بڑے سخت ہیں، آپس میں رحم دل ہیں، تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع کر رہے ہیں اور کبھی سجدہ کر رہے ہیں ( غرض) اللہ تعالیٰ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں، ان ( کی پہچان) کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر موجود ہیں۔ یہ ہیں ان کے اوصاف جو تورات میں موجود ہیں اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے پہلے اپنی کونپل نکالی ہو، پھر اس کو مضبوط کیا ہو، پھر وہ موٹی ہوئی ہو،پھر اپنے تنے پر یوں کھڑی ہوئی کہ کاشتکار اس سے خوش ہوتےہیں تاکہ اللہ ان ( کی ترقی) کی وجہ سے کافروں کا دل جلائے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اللہ تعالیٰ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمالیا ہے۔
[2]: صحابہ رضی اللہ عنہم ستاروں کی مانند
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: "اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ فَبِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتْمُ اہْتَدَیْتُمْ."
(مشکوٰۃ المصابیح:ص 554 باب مناقب الصحابۃ)
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ (رضی اللہ عنہم ) ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے۔
[3]: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق عقیدہ
”صحابی“ اس شخص کو کہتے ہیں جس کو حالت ایمان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہوئی ہو اور اسی حالت پر اس کا خاتمہ ہواہو۔ صحابہ کرام معیار حق وصداقت ہیں یعنی وہی عقائد اور اعمال مقبول ہوں گے جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے عقائد اور اعمال کے مطابق ہو ں گے۔ صحابہ کرام ہر قسم کی تنقید سے بالا تر ہیں۔ قبر اور آخرت کے ہر قسم کے عذاب سے محفوظ ہیں۔
وہ معصوم نہیں البتہ محفوظ ضرور ہیں یعنی ان کی ہر قسم کی خطا بخش دی گئی ہے اور وہ یقینی طور پر جنتی ہیں۔ انبیاء معصوم عن الخطاء ہیں اور صحابہ محفوظ عن الخطاء ہیں۔ معصوم عن الخطاء کامطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے نبی سے گناہ ہونے نہیں دیتا اور محفوظ عن الخطاء کامطلب یہ ہے کہ صحابی سے گناہ ہو تو جاتا ہے لیکن اللہ تعالی ان کے نامہ اعمال میں باقی رہنے نہیں دیتا۔
[4]: مرد وعورت کی نماز میں فرق
بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں، انتہائی غلط اور جہالت کی بات ہے۔ نماز کے متعلق مرد و عورت کے جو احکام ایک دوسرے سے مختلف ہیں، یہ ہیں:
[1]: مرد نمازشروع کرتے وقت اپنے ہاتھ کانوں کے برابر اٹھائے جب کہ عورت ہاتھوں کوسینے کے برابر اٹھائے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی: ج9ص144رقم17497)
[2]: مرد نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج3 ص321 ص322، مسند زید بن علی: ص219)
جبکہ عورت اپنے سینہ پر ہاتھ باندھے۔
(مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق: ص153، السعایۃ ج 2ص156)
[3]: مرد رکوع میں اپنی انگلیوں کو کشادہ کرتے ہوئے گھٹنوں کو پکڑے گا، اپنی کہنیوں کو پہلو سے جدا رکھے گا، پشت کو سیدھا رکھے گا اور سر کو نہ اونچا کرے گا نہ نیچا۔
(سنن ابی داؤد: ج1ص125، 126، المعجم الاوسط للطبرانی ج 4ص281، صحیح مسلم: ج1 ص194)
جبکہ عورت رکوع میں مرد کی بنسبت کم جھکے گی، اپنے ہاتھ بغیر کشادہ کیے ہوئے گھٹنوں پر رکھے گی اور کہنیوں کو پہلو سے ملا کر رکھے گی۔
(مصنف عبدالرزاق ج3ص50رقم5983، فتاویٰ عالمگیری: ج1ص74)
[4]: مرد سجدہ میں اپنا پیٹ رانوں سے دور رکھیں گے، اپنی کہنیوں کو زمین سے بلند رکھتے ہوئے پہلو سے جدا رکھیں گے اور سرین کو اونچا کریں گے۔
(بخاری: باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم، باب لایفترش ذراعیہ فی السجود، ابی داؤد: ج1ص130)
جبکہ سجدہ کی حالت میں عورت کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ان سب اعضاء کو ملا کراور سمٹا کر رکھے۔
(مراسیل ابی داؤد: ص103، الکامل لابن عدی ج 2ص501 السنن الکبریٰ للبیہقی: ج 2ص222)
[5]: قعدہ میں مرد اپنا پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھے۔
(صحیح البخاری: ج1ص114،صحیح مسلم: ج1ص194 ص195)
جبکہ عورت بائیں کولہے پر بیٹھے اور دونوں پاؤں دائیں طرف نکال دے اور دائیں پنڈلی کو بائیں پنڈلی پررکھے۔
(مسند ابی حنیفۃ روایۃ الحصكفی: رقم الحديث 114، السنن الکبریٰ للبیہقی: ج2ص223)
[6]: مرد کا سر اگر نماز میں ننگا ہو تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن اس کے لیے پگڑی اور ٹوپی افضل ہے۔ (صحیح البخاری: ج1ص56، وغیرہ)
جبکہ عورت کی نماز بغیر دوپٹہ کے نہیں ہوتی۔
(سنن ابی داؤد: ج1 ص94، سنن الترمذی: ج1 ص56، سنن ابن ماجۃ: ص48)
[7]: مردوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ فرض نماز باجماعت ادا کریں۔ اس کے ترک پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وعیدیں بیان فرمائی ہیں۔
(سنن ابی داؤد: ج1 ص80 تا 82، سنن النسائی: ج1 ص134 تا 136)
جبکہ عورت کے لیے اپنے گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔
(سنن ابی داؤد: ج1 ص84، الترغیب والترھیب للمنذری ج1 ص225)
[8]: عورت؛ مردوں کی امامت نہیں کراسکتی جبکہ مرد عورتوں کی امامت کرا سکتا ہے۔
(محلی ابن حزم: ج3 ص135، 136)
[9]: عورتوں کی جماعت مکروہ ہے۔
(مسند احمد،طبرانی بحوالہ اعلاء السنن: ج4ص214)
لیکن اگر وہ جماعت کروانا ہی چاہیں [مثلاً رمضان میں حافظہ عورت تراویح پڑھائے] تو ان کی امام صف کے درمیان میں کھڑی ہو گی۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج3ص131، مصنف عبدالرزاق: ج3ص131)
جبکہ مردوں کا امام سب سے اگلی صف میں اکیلا کھڑا ہوگا۔
(سنن الترمذی: ج1 ص54، صحیح مسلم: ج2 ص417)
[10]: مردوں کے لیے اذان اور اقامت سنت موکدہ ہے جبکہ عورتوں کے لیے نہ اذان مسنون ہے اور نہ اقامت۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج1 ص408)
نوٹ:
مرد و عورت کی نماز میں فرق کے تفصیلی دلائل کے لیے بندہ کی مرتب کردہ فائل ”مرد و عورت کی نماز میں فرق“ ملاحظہ فرمائیں۔ (محمد الیاس گھمن)
[5]: دودھ پینے کی دعا
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَ زِدْنَا مِنْہُ.
(سنن ابی داؤد: ج2 ص168کتاب الاشربۃ باب ما یقول اذا شرب اللبن)
ترجمہ: اے اللہ! ہمارے لیے اس میں برکت ڈالیے اور ہم کو مزید دیجیے۔

بیسواں سبق
[1]:صحابیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
﴿اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوْا ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللهَ مَعَنَا ۚ فَاَنْزَلَ اللهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ﴾
(التوبۃ: 40)
ترجمہ: اگر تم ان کی ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ) مدد نہیں کروگے تو (ان کا کچھ نقصان نہیں، اس لیے کہ) اللہ نے ان کی مدد اس وقت بھی کی ہے جب ان کو کافروں نے ایسے وقت ( مکہ مکرمہ سے) نکالا تھا جب وہ دو آدمیوں میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی کو یہ کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ چنانچہ اللہ نے ان پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل فرمایا۔
فائدہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وہ واحد صحابی ہیں جن کے لیے قرآن نے لفظ ”صاحب“ (یعنی صحابی) استعمال فرمایا ہے۔ اس لیے جو صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی صحابیت کاانکار کرے وہ کافر ہے۔
[2]: سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین کو تھامنے کا حکم
عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: صَلّٰى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيْغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوْبُ فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ! كَاَنَّ هٰذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟ فَقَالَ: "أُوصِيْكُمْ بِتَقْوَى اللهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِىْ فَسَيَرٰى اخْتِلَافًا كَثِيْرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِىْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَآءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوْا بِهَا وَعَضُّوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُوْرِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ".
(سنن ابی داؤد:ج2 ص290 کتاب السنۃ. باب فی لزوم السنۃ)
ترجمہ: حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں نہایت موثر انداز میں نصیحت فرمائی جس سے ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دلوں میں خوف پیدا ہوگیا۔ ایک شخص نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! معلوم ہوتا ہے کہ یہ الوداعی نصیحت ہے، اس لیے آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشار فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور تم کو (مسلمان ) امیر کی اطاعت کا حکم دیتا ہوں اور اس کی باتوں کو سن کر بجا لانے کی وصیت کر تا ہوں اگرچہ وہ امیر حبشی غلام ہو۔تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گاوہ بہت سارے اختلاف دیکھے گا۔ ایسے وقت میں تم میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا اور اس پر مضبوطی سےقائم رہنا اور دین میں نئی نئی باتیں( یعنی نئے عقیدے اور نئے عمل ) پیدا کرنے سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
[3]: خلافت ِراشدہ و مقام صحابہ رضی اللہ عنہم
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے خلیفہ اول بلا فصل حضرت ابوبکر صدیق، دوسرے حضرت عمرفاروق، تیسرے حضرت عثمان غنی اور چوتھے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم ہیں۔ ان چاروں کو ”خلفائے راشدین“ اوران کے زمانہ خلافت کو خلافت راشدہ کادور کہتے ہیں۔آیت استخلاف میں جس خلافت کا وعدہ ہے وہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے شروع ہو کر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پر ختم ہوگئی۔ لہذا دور خلافت راشدہ سے مراد خلفائے اربعہ(چار خلفاء رضی اللہ عنہم) کادور ہے۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت ؛ خلافت عادلہ ہے۔
مقام صحابہ رضی اللہ عنہم:
انبیاء علیہم السلام کے بعد انسانوں میں اعلیٰ ترین درجہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہے اور قرآن کریم میں اہل ایمان کی جس قدر صفات کمال کاذکر آیا ہے ان کا اولین اور اعلی ترین مصداق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ پھر صحابہ کرا م میں بھی مراتب کی ترتیب درج ذیل ہے :
1: خلفائے راشدین علی ترتیب الخلافۃ
2: عشرہ مبشرہ
3: اصحاب بدر
4: اصحاب بیعت رضوان
5: شرکاء فتح مکہ
6: وہ صحابہ رضی اللہ عنہم جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے۔
معیار حق وصداقت:
پوری امت کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معیار حق وصداقت ہیں یعنی جو عقائد اور مسائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عقائد اور مسائل کے مطابق ہوں وہ حق ہیں اور جو ان کے مطابق نہ ہوں وہ باطل اور گمراہی ہیں۔
[4]: سجدہ سہو کب واجب ہوتا ہے؟
1: کسی رکن یا فرض کودہرانا
2: کسی فرض یا رکن کو اس کے وقت سے پہلے یا بعد میں کرنا
3: کسی واجب کو دو بار کرنا
4: کسی واجب کو تبدیل کرنا
5: کسی واجب کو چھوڑ دینا
[5]: چھینک کے وقت کی دعا
جسے چھینک آئے وہ یہ کلمات پڑھے:
أَلْحَمْدُ لِلہِ. (تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں)
سننے والا جواب میں یہ کہے:
یَرْحَمُکَ اللّہُ.( اللہ آپ پر رحم فرمائے)
چھینکنے والا پھر یہ کہے:
یَھْدِ یْکُمُ اللٰہُ وَ یُصْلِحُ بَالَکُمْ.
(اللہ آپ کو ہدایت دے اور آپ کی حالت کو درست کرے)
(سنن ابی داؤد :ج2 ص338 کتاب الادب․ باب کیف تشمیت العاطس)