سینتیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سینتیسواں سبق
[1]: کامیابی کا معیار
﴿وَالْعَصْرِ ؁ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ ؁ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ڒ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ؁﴾
(سورۃ العصر)
ترجمہ: زمانے کی قسم، بے شک وہی انسان کامیاب ہے جس کا عقیدہ درست ہو،عمل سنت کے مطابق ہو،اس حق بات (صحیح عقیدہ اور سنت عمل) کی تبلیغ واشاعت بھی کرتا ہو اور (اگر اس تبلیغ واشاعت پر مصائب وپریشانیاں آئیں تو ان پر) صبر کی تلقین بھی کرتا ہو۔
[2]: فضیلت تعلیم قرآن
عَنْ عُثْمَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهٗ".
(صحیح البخاری: ج2 ص752 کتاب فضائل القرآن. باب خیركم من تعلم القرآن وعلمہ)
ترجمہ: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم میں سے سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن مجید سیکھے اور سکھائے۔
[3]: علامت قیامت ؛ آگ نکلنےکا بیان
قیامت کی آخری نشانی یہ ہے کہ وسط عدن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو گھیر کر ملک شام کی طرف ہانک کر لائے گی جہاں مرنے کے بعد حشرہوگا(یعنی قیامت میں جو نئی زمین بنائی جائے گی اس کا وہ حصہ جو موجودہ زمین کے ملک شام کے مقابل ہوگا)یہ آگ لوگوں سے دن رات میں کسی وقت جدا نہ ہوگی اور جب صبح ہوگی اور آفتاب بلندہو جائے گاتو یہ آگ لوگوں کو ہانک لے جائے گی۔ جب لوگ ملک شام میں پہنچ جائیں گے تو یہ آگ غائب ہو جائے گی۔
سنن ابی داؤد میں حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی دس علامتیں بیان فرمائیں، ان میں سے آخری علامت یہ ہے:
"وَآخِرُ ذٰلِكَ تَخْرُجُ نَارٌ مِنَ الْيَمَنِ مِنْ قَعْرِ عَدَنَ تَسُوْقُ النَّاسَ إِلَى الْمَحْشَرِ".
(سنن ابی داؤد:ج 2 ص243 کتاب الملاحم․ باب امارات الساعۃ)
اور آخری علامت یہ ہو گی کہ وسط عدن سے ملک یمن میں ایک آگ ظاہر ہو گی جو لوگوں کو میدانِ حشر (یعنی سر زمین شام) کی طرف ہانک کر لے جائے گی۔
اس کے بعد کچھ عرصہ دنیاوی اعتبار سے نہایت عیش وآرام سے گزرے گا۔کفر اور بت پرستی پھیل جائے گی اورزمین پرکوئی خدا کانام لینے والا باقی نہ ہو گا۔اس وقت قیامت قائم ہو گی اورحضرت اسرافیل کوصور پھونکنے کاحکم ہوگا۔
تنبیہ: اکثر احادیث میں خروج نار کو قیامت کی آخری نشانی بتایا گیاہے لیکن صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ اول نشانی قیامت کی وہ آگ ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف نکالے گی۔ ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ گزشتہ علامتوں کے اعتبارسے یہ آخری نشانی ہے لیکن اس اعتبار سے کہ اس علامت کے ظہور کے بعد اب دنیا کی کوئی چیز باقی نہ رہے گی بلکہ اس کے بعد متصل نفخ صور واقع ہو گا اس کو اول نشانی کہا گیا۔
[4]: گفتگو سے متعلق سنن وآداب
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾
(البقرۃ:83)
ترجمہ: لوگوں سے اچھے طریقے سے بات کیا کرو۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسو ل (صلی اللہ علیہ وسلم) سے محبت کرے یا اللہ تعالیٰ اوراس کا رسو ل (صلی اللہ علیہ وسلم) اس سے محبت کریں تو اسے چا ہیے کہ جب با ت کر ے تو سچ بولے، جب اس کے پاس کوئی امانت رکھے توا س کو (واپس مانگنے پر اسے) اداکرے اور اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
(شعب الایمان:ج2 ص201حدیث نمبر1533)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے بہتر شخص کون ساہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا دل مخموم ہواور زبان سچ بولتی ہو۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ سچی زبان والا تو ہمیں معلوم ہے لیکن یہ مخموم دل والے سے کیا مراد ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخموم دل والے سے مراد ایسا پرہیز گار اور پاک صاف شخص ہے جس کے دل میں نہ گناہ ہو، نہ بغاوت، نہ کسی سے کینہ اور نہ کسی کے ساتھ حسد۔
(سنن ابن ماجۃ:ص311کتاب الزہد․ باب الورع والتقویٰ)
حضرت سفیان بن عبداللہ الثقفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے بارے میں آپ کو کس چیز کا زیادہ ڈر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ز بان مبارک پکڑکر فرمایا:’’اس کا۔‘‘ (یعنی انسان کو اپنی گفتگو میں بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔)
(سنن الترمذی:ج2 ص 66 ابواب البر والصلۃ․ باب ما جاء فی حفظ اللسان)
بات کرنے کے آداب:
1: ضرورت کے وقت بات کرنا۔
2: ہمیشہ سچ بولنا۔
3: مختصر بات کرنا۔
4: دوسروں کی زیادہ سننا۔
5: پست آوازمیں بولنا، زیادہ بلند آواز سے نہ بولنا۔
6: بات نرمی سے کرنا۔
7: عورت کو کسی غیر محرم سے بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو نرم لہجہ اختیار نہ کرنا۔
8: بات کرنے سے پہلے اس کا انجام سوچنا۔
9: سوال غور سے سن کر سوچ سمجھ کرجواب دینا یعنی جواب دینے میں جلد بازی نہ کرنا۔
10: فضول سوالا ت سے پرہیز کرنا۔
11: بری باتیں نہ کرنا۔
12: گفتگو میں اپنی بڑائی نہ جتانا۔
13: بات بات پر قسم نہ کھانا۔
14: جھوٹ نہ بولنا۔
15: جھوٹا وعدہ نہ کرنا۔
16: دوسروں کی برائی بیان نہ کرنا چغلی نہ کھانا، شکا یتیں نہ کرنا، دوسروں کی نقلیں نہ اتارنا۔
17: خوشامد اور چاپلوسی کی باتیں نہ کرنا۔
18: کسی کے سامنے اس کی تعریف نہ کرنا۔
19: کسی کوگالی نہ دینا۔
20: بات بات پر نہ لڑنا۔
21: کسی جاہل سے پالا پڑجائے تو خاموشی سے وہاں سے رخصت ہو نا۔
22: کسی کو ذلت کے نام سے نہ پکارنا،کسی کا مذاق نہ اڑانا۔
23: بات کرتے ہوئے کسی کے لیے ملعون، فاسق اوربے ایمان کے الفاظ استعمال نہ کرنا۔
24: غصے کی حالت میں خاموشی اختیار کرنے کی کوشش کرنا کہ بسااوقات ایسی حالت میں زبان بے قابوہوجاتی ہے۔
25: غصہ آنے پر ”أَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ“ پڑھنا اور اپنی ہیئت کوبدلنا یعنی اگر کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں اور بیٹھےہوئے ہیں تو لیٹ جائیں اور اگر اس سے بھی با ت نہ بنے تو وضو کرلیں۔
26: گفتگو کرتے ہوئے کسی طرف اشارہ نہ کرناکہ اس سے دوسروں کو بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔
[5]: حسنِ خاتمہ کے لیے دعا
أَللّٰهُمَّ أَحْيِنَا مُسْلِمِيْنَ وَأَمِتْنَا مُسْلِمِيْنَ وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِيْنَ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا مُبَدِّلِيْنِ․
(تفسیر ابن کثیر:ج3ص339 تحت تفسیر سورۃ الشعراء رقم الآیۃ 83)
ترجمہ: اے اللہ! ہم کو فرماں برداری کی حالت میں زندہ رکھ اور فرماں برداری کی حالت میں موت دے اور ہمارا انجام نیک لوگوں کے ساتھ فرما اس حال میں کہ نہ ہم رسوا ہوں اور نہ اپنے اعتقاد کوبدلنے والے ہوں۔