مؤذنین پیغمبر اور مروجہ صلوٰۃ و سلام

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

مؤذنین پیغمبر اور مروجہ صلوٰۃ و سلام

آپ علیہ السلام کے موذنین سے مروجہ صلوٰۃ وسلام عندالاذان ثابت نہیں۔
1: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَذَانَ كَمَا تُؤَذِّنُونَ الْآنَ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ.
شرح معانی الآثار ج1ص 98، باب الاذان کیف ھو
ترجمہ : حضرت ابو محذورہ فرماتے ہیں آپ علیہ السلام نے مجھے اذان دینا سکھائی جس طرح تم ابھی دیتے ہواللہ اکبر اللہ اکبر الخ۔
اس اذان میں اذان سے پہلے اور بعدمیں صلوٰۃ وسلام کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔
2: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا أَصْبَحْنَا أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالرُّؤْيَا فَقَالَ إِنَّ هَذِهِ لَرُؤْيَا حَقٍّ فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَإِنَّهُ أَنْدَى وَأَمَدُّ صَوْتًا مِنْكَ فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا قِيلَ لَكَ.
جامع الترمذی ج1 ص48 باب ماجاء فی بدء الاذان
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن زید نے خواب دیکھااور آپ علیہ السلام کے سامنے اس کو بیان کیا تو آپ نے فرمایا یہ خواب حق ہےاور اس اذان کی تعلیم حضرت بلال کو دو کیونکہ اس کی آواز تم سے زیادہ بلند ہے۔
ان دو حضرات کی اذان میں نہ ہی پہلے اور نہ ہی بعد میں صلوٰۃ وسلام کا ذکر ہے۔
3: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا سَمِعْتُمْ النِّدَاءَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ.
صحیح مسلم ج1 ص 166باب صفۃ الاذان
ترجمہ: آپ علیہ السلام نے فرمایاجب تم اذان سنو تو اس طرح کہو جو موذن کہتا ہے۔
ایک اور روایت میں ہے جب مؤذن
”حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ“
اور
” حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ “
کہے تو تم اس کے جواب میں ”
لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ“
کہو۔
صحیح مسلم ج 1ص167 باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعہ
ان تمام روایات میں اذان کا تذکرہ موجود ہے لیکن اس کے ساتھ مروجہ صلوٰۃ وسلام عندالاذان کا تذکرہ موجود نہیں ہے اور محدثین کرام نے باب الاذان کا باب قائم فرمایا لیکن کسی ایک محدث نے اذان سے پہلے یا اذان کے بعد
”اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ“
پڑھنے کا مسئلہ بیان نہیں فرمایا۔
صیغہ خطاب سے مروجہ صلوٰۃ وسلام کا حکم :
ہمارے تمام اکابرین الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کو بطور درود وسلام پڑھنے کے جواز کے قائل ہیں کیونکہ یہ درود وسلام کا مختصر طریقہ ہے ۔
البتہ حرف خطاب اور حرف یا ءسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو حاضر وناظر جان کر اس نیت سے پڑھنا کہ آنحضرت میرا صلوٰۃ و سلام نزدیک اور دور ہر جگہ سے براہِ راست سنتے ہیں، جائز نہیں۔ چنانچہ قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ بہت مختصر ہے مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر وناظر نہ سمجھا جائے ورنہ اسلام کیا ہوگا کفر ہوگا بلکہ یوں سمجھے یہ پیغام فرشتے پہنچاتے ہیں۔
فیوض قاسمیہ ص48
مفکر اسلام مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
درود شریف پڑھنا ایک بڑی عبادت اور تقرب خداوندی کا بہترین ذریعہ ہے لیکن اس طریق سے جس طرح سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں اور خیر القرون میں پڑھا جاتاتھا اور یہ ایک عین حقیقت ہے کہ اذان سے قبل یا اذان کے بعد بلند آواز سے درود شریف پڑھنے کا رواج نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں تھا نہ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں تھا نہ خیر القرون میں کوئی شخص اس بدعت سے واقف تھا اور نہ ائمہ اربعہ میں سے کسی بزرگ نے یہ کاروائی کی اور نہ اس کا فتوی دیا بہر حال مروجہ طریقہ بدعت ہے۔
فتاوی مفتی محمود ص 855ج 1
خلاصہ کلام :
اذان سے پہلے یا اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام مروجہ طریقہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم، خلفاء راشدین، دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور قرونِ اولیٰ سے ثابت نہیں۔
اہل بدعت آپ علیہ السلام اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین اور اتباع تابعین، ائمہ دین اور سلف صالحین کے صحیح طریقہ چھوڑ کر نئی نئی بدعات و رسومات نکالتے ہیں۔
اللہ پاک ہمیں سنت کو تھامنے اور بدعات، خرافات اور رسومات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین