حج کا تیسرا دن 10 ذوالحجہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

">حج کا تیسرا دن 10 ذوالحجہ

•.... 10 ذوالحجہ کو صبح صاد ق کے بعد اندھیرے ہی میں اذان دیں، فجر کی سنتیں پڑھیں پھر فجر کے فرض؛ جماعت کے ساتھ اد اکریں۔ نماز کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہوکر تسبیحاتِ فاطمی،
لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ
اور چوتھا کلمہ پڑھیں، تلبیہ کثرت سے پڑھیں اور دعاکےلیے دونوں ہاتھ پھیلائیں۔ اپنی ذات کے لیے، اہل وعیال کے لیے، والدین، دوست واحباب، امت مسلمہ اور اپنے ملک کے لیے خوب دعائیں کریں۔ روشنی خوب پھیلنے تک یہی عمل جاری رکھیں۔ یہ وقوفِ مزدلفہ ہے۔
مسائل:
1: وقوفِ مزدلفہ واجب ہے اور اس کا وقت صبح صادق سے لے کر طلوعِ آفتاب تک ہے۔ البتہ صبح کی روشنی خوب پھیلنے تک وقوف کرنا سنت مؤکدہ ہے۔
2: بغیر عذر وقوفِ عرفہ ترک کرنے سے دم واجب ہوگا۔
•.... جب سورج نکلنے والا ہو تو مذکورہ اذکار اور کثرتِ تلبیہ کے ساتھ منیٰ کی جانب روانہ ہوں اور وہاں موجود اپنی رہائش گاہ پہنچیں۔
•.... منیٰ میں آپ نے تین دن رہنا ہے یعنی 10 ذوالحجہ، 11 ذوالحجہ اور 12 ذوالحجہ۔ نیز طوافِ زیارت کے لیے انہی تین دنوں میں سے کسی ایک دن مکہ جانا ہو گا۔
•.... منی پہنچ کر یہ تین کام ترتیب سے کریں:
پہلاکام: جمرہ عقبہ کی رمی
جمرات پر جائیں اور صرف جمرہ عقبہ کی رمی کریں یعنی اس پر سات کنکریاں ماریں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جمرہ سے کم از کم پانچ ہاتھ کے فاصلے سے ہر کنکری
”بِسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ“
کہہ کر جمرہ کےستون کی جڑ میں ماریں۔ کنکری کا جمرہ کی جڑ میں یا اس کے نزدیک کے احاطہ میں گرنا ضروری ہے۔ کنکری مارنے کے ساتھ یہ دعاپڑھنا بہتر ہے:
رَغْمًا لِلشَّيْطٰنِ وَحِزْبِهٖ، أَللّٰهُمَّ اجْعَلْہُ حَجّاً مَبْرُوْرًا وَسَعْياً مَشْكُوْرًا وَذَنْباً مَغْفُوْرًا.
مسائل:
1: آج کی رمی کا مسنون وقت طلوعِ شمس سے زوالِ آفتاب تک ہے، پھر غروبِ آفتاب تک بلاکراہت جائز ہےاور غروبِ آفتاب سے لےکر صبح صادق تک جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے البتہ خواتین اور ضعیفوں کےلیے مکروہ نہیں ہے۔
2: جمرہ عقبہ کو کنکری مارتے ہی تلبیہ پڑھنا ختم کر دیں۔
3: آج کی رمی کےبعد وہاں ٹھہر کر دعا کرنا مسنون نہیں۔ رمی کرکے واپس چلے جائیں۔
دوسرا کام :قربانی کرنا
رمی کے بعد دوسراکام”قربانی“ ہے۔ حجِ قران اور حجِ تمتع کی صورت میں قربانی واجب ہے اور حجِ افراد والوں کے لیے واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔
مسائل:
1: قربانی کے تین دن ہیں یعنی 10، 11، 12 ذوالحجہ البتہ پہلے دن کرنا افضل اور دوسرے یا تیسرے دن کرنا جائز ہے۔
2: حجِ قران اور حجِ تمتع کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ جب تک قربانی نہ کر لیں اس وقت تک احرام نہ کھولیں۔ اگر قربانی دوسرے دن یاتیسرے دن کی تو اس وقت تک احرام نہ کھولیں بلکہ اس وقت تک احرام میں رہنا لازم ہے۔
3: قربانی خود کرنا بہتر ہے لیکن اگر کسی بااعتماد آدمی، بااعتماد بینک یاکسی اور باعتماد ادارہ کے ذریعے بھی کروائیں تو جائز ہے۔ اگر کسی بینک یا ادارہ سے کروائیں تو وہ ادارہ جو وقت قربانی کا بتائے اس سے پہلے حلق یا قصر کروا کراحرام کھولنا جائز نہیں۔
4: حج کی قربانی کے جانور میں وہی شرائط ضروری ہیں جو عید الاضحیٰ کی قربانی کے جانور میں ضروری ہوتی ہیں۔
5: جو لوگ صاحب وسعت ہوں اور حج کے ایام میں مقیم ہوں تو ان پر عید الاضحیٰ کی قربانی بھی واجب ہے۔
6: حجِ تمتع اور حجِ قران کی قربانی کا حدودِ حرم میں ذبح کرنا ضروری ہے اور عید الاضحیٰ کی قربانی حدود ِحرم یا اس کے علاوہ کسی اور جگہ بھی کرائیں تو جائز ہے۔ اپنے ملک میں بھی کرا سکتے ہیں۔
تیسراکام:حلق یا قصر کرنا
قربانی کے بعد تیسراکام حلق یا قصر کروانا ہے۔ (اس کی تفصیل عمرہ کے طریقہ میں ملاحظہ فرما لیں۔)
مسائل:
1: حج کا حلق یا قصر منیٰ میں کرانا سنت ہے اور حدودِ حرم میں ہرجگہ جائز ہے۔ ہاں اگر حدودِ حرم سے باہر جا کر حلق یا قصر کرایا تو دم لازم ہو گا۔
2: مذکورہ تینوں کام (جمرہ عقبہ کی رمی، قربانی، حلق یا قصر )میں ترتیب واجب ہے۔ اگر کسی نے ان کاموں میں ترتیب ملحوظ نہ رکھی مثلاًرمی سےپہلے قربانی کرلی، قربانی سے پہلے حلق یا قصر کرا لیا یا رمی سے پہلےحلق کرا لیا تو ان تمام صورتوں میں دم لازم آئےگا۔
3: یہ تین کام کرنے سے حاجی احرام سے نکل جائےگا۔ اب اس پر احرام کی پابندی لازم نہیں البتہ بیوی سے صحبت کرنا اور بوس وکنار کرنا طواف زیارت کرنے تک حلال نہ ہوگا۔
حج کا اہم رکن طواف زیارت:
طوافِ زیارت کرنا فرض اور حج کا رکن ہے۔ رمی، قربانی اور قصر یاحلق کے بعد 10 ذوالحجہ کو ہی طوافِ زیارت کرناسنت ہے اور 11 اور 12 کو کرنابھی جائز ہے۔ اس لیے احرام کھول کر عام کپڑوں میں طواف زیارت کےلیے مکہ مکرمہ جائیں اورطواف زیارت کرلیں۔ جب طواف کرچکیں تو واپس منیٰ آجائیں اور رات کا قیام منیٰ میں کریں۔
مسائل:
1: 10 ذوالحجہ کے 4 افعال (رمی، قربانی، حلق یاقصر اور طوافِ زیارت) میں سے پہلے تین افعال میں ترتیب واجب ہے لیکن طوافِ زیارت اور تین مذکورہ افعال کے درمیان ترتیب واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔
2: طوافِ زیارت کا وہی طریقہ ہے جو عمرہ کے طریقے میں گزرا۔ طوافِ زیارت کے بعد حج کی سعی کریں۔ اگر حج کی سعی پہلے کرلی ہے (مثلاًمفرد یا قارن نے طوف قدوم کے بعد کرلی ہو یا متمتع نے 8 ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھا اور منیٰ میں جانے کے بجائے بیت اللہ گیا اور وہاں نفلی طواف کیا اور اس کے بعد سعی کرلی ) تو اب طوافِ زیارت کے بعد سعی کرنے کی حاجت نہیں صرف طواف کرنا کافی ہے۔
3: طوافِ زیارت کے بعد تمام ممنوعات حلال ہوجاتےہیں حتی کے بیوی کےساتھ بوس وکنار اور ہمبستری بھی حلال ہو جاتی ہے۔
4: اگر کسی نے 12 ذوالحجہ کے غروب کے بعد طواف زیارت کیا، اس سے پہلے نہ کیا تو اس پر دم لازم ہوجائے گا۔
5: عورت کےلیے ایام کی حالت میں طوافِ زیارت کرنا حرام ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ اب طواف بالکل نہ کرے بلکہ جب پاک ہو کر غسل کر لے تو اس وقت طوافِ زیارت اور سعی کرے۔ اس مجبوری کی وجہ سے 12 ذوالحجہ کے ایام بھی گزر جائیں تب بھی کوئی حرج نہیں۔ اس تاخیر کی وجہ سے اس پر کوئی دم واجب نہیں ہو گا۔