میرا پاکستان

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
میرا پاکستان
آزادی کا تصور:
پاکستان؛ تحریک آزادی کی بدولت نعمت آزادی سے مالا مال ہوا۔ پاکستانی قوم کے لیے آزادی کا تصور مغرب کے تصور آزادی سے یکسر جداگانہ ہے۔ اہل مغرب کے آزادی کے تصورات میں تنوع بھی پایا جاتا ہے اور باہم اختلاف بھی۔ لبرلائزیشن میں ہر فرد کو دینی، روایتی، سماجی، قبائلی، نسلی، گروہی، علاقائی، خاندانی، لسانی، قومی اور اخلاقی الغرض ہر قسمی” آزاد روی“ کا پورا پورا حق ہے، وہ ہر نوعیت کی آزادی کو ہر سطح پر ممکن بنا کر اس میں وسعت کی قائل ہے۔
یعنی انسان اپنے خالق حقیقی کی عبدیت، برحق نمائندہ خدا)رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کی اطاعت سے بھی آزاد ہو سکتا ہے۔ اور وہ معاشرے میں ”جو کچھ“ بھی کرتا پھرے اس بارے میں مکمل” آزاد“ ہے۔ اس کو خالق کی عبدیت، رسول کی اطاعت اور منشورِ انسانیت و دستورِ حیات )قرآن کریم (کا اسیر نہیں کیا جا سکتا۔
بظاہر اس تصور کی دلربائی کا حسن انسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ بطور خلاصہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس تصور میں آزادی کا مفہوم فقط اتنا ہی ہے کہ ہر انسان محض اپنے عقل کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ وہ ادیان میں سے دین اسلام کو اپنے لیے غلامی سے تعبیر کرتا ہے۔ جبکہ یہ سوچ ہماری اسلامی اقدار کے بھی منافی ہے اور ہماری ریاستی روایات اور آئینی قوانین کے بھی بالکل برعکس ہے۔ اسلام غلامی کی زنجیروں میں قید نہیں کرتا بلکہ غلامی سے نجات دلا کر انسان کی مکمل زندگی کو ایسا کارآمد بناتا ہے جس کا فائدہ مرنے کے بعدبھی ہمیشہ کی زندگی میں ملتا رہتا ہے۔
بد قسمتی سے آج اسی فکر کو پروان چڑھایا جا رہا ہے حتی کہ ہمارے اس آئینی، نظریاتی، فلاحی، جمہوری اور اسلامی مملکت کے حکمران طبقے میں بھی یہ منفی سوچ سرایت کر رہی ہے۔ جو ہم سب کے لیے مشترکہ لمحہ فکریہ ہے۔
یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم تصورِآزادی کے مفہوم کو بھولتے یا ازخود نظر انداز کرتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جس ملک میں ہم آزادی سے سانس لے رہے ہیں اس کے حصول کا مقصد ”غلبۂ دین“ تھا، نہ کہ اہل اسلام کو دین سے ”آزاد“ کرنا۔
شرعی نقطۂ نظر سے :
اس معاملے کو اگر شرعی نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے تو بھی یہی نظر آتا ہے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر یثرب )مدینہ منورہ ( تشریف لائے تو یہاں مختلف قبائل، اقوام اور مذاہب کے پیروکار موجود تھے۔ آپ نے یہاں آکر ریاستی امور کی پہلی باضابطہ ”آئینی دستاویز “مرتب کرائی۔ جسے” میثاقِ مدینہ“ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ 53 دفعات پر مشتمل ایسا جامع دستور حیات ہے جس میں ریاست کی معیشت کو مستحکم کرنا، باہمی خانہ جنگی کا خاتمہ اور خارجہ پالیسی کو مضبوط تر بنانے کے لیے عسکری خود مختاری کو بنیادی قرار دیا گیا تاکہ دشمن اس کی سالمیت کو گزند پہنچانے سے باز رہے۔
اسی” میثاقِ مدینہ“ میں اللہ احکم الحاکمین کی حاکمیت اعلی اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حاکمیت اعلی کو اساسی اہمیت و حیثیت حاصل ہے۔ اس جامع ترین حکمت عملی ……جو در حقیقت وحی الہٰی کی عملی صورت ہے……سے ہی امن کا نفاذ ممکن ہوا۔ اقوام عالم نے اس کی بدولت وہ سنہرا دور دیکھا ہے کہ امن و انصاف عوام کی دہلیز تک پہنچا، عوام کو انصاف کی دہلیز کے چکر نہیں کاٹنے پڑے۔ ہم اس ملک کے رہائشی ہیں جس کو آزادی دلانے کے لیے ہمارے اکابر نے منظم ”تحریک آزا دئ پاکستان “چلائی۔جس کی بدولت ہمیں آزادی حاصل بھی ہوئی لیکن بدقسمتی کہ ہم آج تحریکِ آزادی کی ”روحِ آزادی“ کو فراموش کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں! ”تحریک آزادئ پاکستان“ کا مقصد غلبۂ دین اور نفاذ اسلام ہی تھا” لبرل تصور آزادی“ نہیں۔
آزادی کا پس منظر:
آزادی کی جس کونپل نے غلامی کی سنگلاخ زمین کا سینہ چیرا، اس کی آبیاری ہمارے اسلاف و اکابرین کے خون اور پسینے سے ہوئی ہے۔ ہمارے بزرگوں کی بے مثال قربانیاں تھیں جنہوں نے اسلام اور اہل اسلام کو بچانے کی خاطر جہاں میدان کارزار میں اپنی جانوں کا نذانہ پیش کیا وہاں عقائد اسلامیہ کے تحفظ کے لیے دینی جامعات کی داغ بیل ڈالی۔ چنانچہ حکیم آفتاب حسن قریشی لکھتے ہیں:
”1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے باوجود جہاد کا سلسلہ جاری رہا انگریزوں نے انبالہ اور پٹنہ میں مجاہدین پر مقدمات چلا کر انہیں قید وبند کی سزائیں دیں۔اس کے علاوہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منظم تحریک چلائی اور مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے عیسائی مشنریوں کی پشت پناہی کی۔اس وقت یہ علماء ہی تھے جو اسلام کے تحفظ اور احیا کے لیے میدان عمل میں اترے۔
انہوں نے مختلف جگہوں پر دینی مدارس قائم کیے اور نوجوانوں کو دین کی تعلیم دینے لگے۔ ان مدارس میں سے دارالعلوم دیوبند اور مدرسہ دار العلوم سہارنپور خاص طور پر مشہور ہیں۔“
)مطالعہ پاکستان بی۔ اے(لازمی)علامہ اقبال یونیورسٹی پاکستان صفحہ 305 (
تقسیم برصغیر کی المناک داستان:
مملکتِ خداداد ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ خالص نعمتِ خداوندی ہے۔ اللہ کریم نے ہمیں یہ آزاد مسلم ریاست ایسے حالات میں عطا فرمائی جب اسلام دشمن قوتیں اہل اسلام بالخصوص برصغیر کےمسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے گھناؤنے منصوبوں پر عمل پیرا تھیں۔تقسیم برصغیر کی المناک داستان جان گسل حالات میں پیش آئی۔ ہندو، سکھ اور انگریز سب مل کر ایڑی چوٹی کا زور اس بات پر لگا رہے تھے کہ مسلمان الگ آزاد مسلم ریاست حاصل نہ کر سکیں۔
ظلم کی داستان :
ظالم سامراج نے وہ کون ساظلم تھا جو برصغیر کے مسلمانوں پر روا؛ نہ رکھا۔ ان پر لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا،ان کے محلوں، قصبوں، شہروں اور دیہاتوں کو لوٹا گیا۔ گھروں کو جلایا گیا، مساجد و مکاتب کو آگ لگائی گئی، ہزاروں بے گناہ بچیوں کی عزت کو تار تارکیا گیا۔
لٹے پٹے قافلوں نےاپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے،آزادی کے متوالوں نے سولیوں پر چڑھ کر اپناحق چھینا، کئی کڑیل جوان ارض پاک کےحصول کےلیے کارزارکی پیاسی زمین کو اپنےخون سے سیراب کرتے رہے۔
شہداء نے بہتے دریاؤں کو اپنے لہو کا خراج دیا۔ گنگاوجمنا اور راوی نے بے کسوں کے خون کی سرخ چادراوڑھی، کئی سہاگ سسکیوں میں گم ہو گئے۔ہزاروں بے گناہ شیر خوار بچے موت کی وادی میں رقصاں ہوئے۔ پاک گلشن کو سینچنے کے لیے جذبۂ آزادی سے سرشارلہو کی گرمائش کو حالات کے ستم ٹھنڈا نہ کر سکے۔ برصغیر کا مسلمان سمجھتا تھا کہ زندہ قوموں کے لیے غلامی سوہانِ روح ہے۔
اس کےلیے وہ ہر طرح کی ذہنی کوفت، قلبی اذیت، بے چینی، بےقراری اور درد و کرب کو ہنس کر برداشت کرتے رہے۔ برصغیر میں لگنے والی آگ بہار سے لے کر مشرقی پنجاب تک کو جھلسارہی تھی۔ پلاسی کے میدان سے لے کرپانی پت تک اور وہاں سے کرنال تک کی سرزمین لہو لہو تھی۔