تقسیم ہند کا منصوبہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تقسیم ہند کا منصوبہ
تجارت کی غرض سے برصغیر میں برطانوی سامراج نے اپنے قدم جمائے اور دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر کے سیاہ و سفید کے ”مالک “بن بیٹھے۔اقتصادی طور سے برصغیر کو ”سونے کی چڑیا“ کہا جاتا تھا۔ اس لیےاس کو لوٹنے کے لیے منظم منصوبہ بندی کی گئی، یہاں کے رہنے والوں پر ظلم و تشدد کیا گیا اور ”لڑاؤ اور حکومت کرو“ کے اصول کو اپنا کر انہیں باہمی طور پر لڑا دیا گیا۔
جب برصغیر کے باسیوں کی تین نسلیں ظلم سہہ چکیں تو انہیں ہوش آیا اگر حالات ایسے ہی رہے تو قیامت کی صبح تک ہم محکوم، مجبور اور مظلوم بن کر زندگی گزاریں گے اس لیے برصغیر کو برطانوی سامراج سے نجات دلائی جائے۔ اس کے لیے بہت زیادہ کوششیں کی گئیں۔ منتشر قوت کو جمع کرنے کے لیے تحریکات وجود میں آئیں۔ ایک طویل محنت کے بعد برطانوی سامراج نکلنے پر مجبور ہو گیا، لیکن وہ فرار ہونے کے لیے باعزت طریقہ ڈھونڈ رہے تھے۔ انہی حالات میں انہوں نے ہندوستانیوں کو حکومتی اختیار کی منتقلی کی صورت اپنائی۔
ہندوستانیوں کو اختیارات کی منتقلی سے متعلق برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی کے بیان کے بعد جب ہندوستان میں برطانوی سامراجیت کا سورج غروب ہونے کو تھا۔ ہندوستانی مسئلے کا منطقی حل قریب نظر آ رہا تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائےبنا کر بھیجا گیا۔ وہ 22مارچ1947ء کو ہندوستان پہنچ گئے۔ 24 مارچ 1947ء کو ہندوستان کے انتیسویں اور آخری گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ حلف اٹھانے کے فوراً بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کے تمام بااثر اور اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں کے سلسلے کا آغاز کیا۔
قائداعظم نے وائسرائے پر اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ سندھ، بلوچستان، صوبہ سرحد، پنجاب، بنگال اور آسام کے صوبوں پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار پاکستان چاہتے ہیں۔ دوسری طرف کانگریسی لیڈروں نے وائسرائے ہند کو یہ عندیہ دیا کہ وہ ہندوستان کی تقسیم اس صورت میں قبول کر لیں گے جس کے تحت بنگال اور پنجاب کے صوبے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوں گے اور ساتھ ہی ساتھ قیام پاکستان سے پہلے سندھ، بلوچستان، صوبہ سرحد مغربی پنجاب اور مشرقی بنگال کے عوام کی مرضی بھی معلوم کی جائے گی۔ان ابتدائی ملاقاتوں کے بعد وائسرائے اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ متحدہ ہندوستان کی خواہش ایک ایسا خواب ہے جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
اس فیصلہ کن مرحلے پر وائسرائے کی ہندوستانی راہنماؤں سے بات چیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لندن سے شائع ہونے والے اخبار سنڈے ابزرور (Sunday Observer)نے لکھا:
” ان ملاقاتوں سے یقیناً وائسرائے اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے کہ تقسیم ہی انتشار کو ختم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔‘‘
آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کا موقف جاننے کے بعد وائسرائے نے اپنی طرف سے ایک منصوبے کا بلیو پرنٹ تیار کر لیا۔ ہندوستان میں Dominion Statusکی حامل دو ریاستوں کا قیام اس منصوبے کا سب سے اہم ترین مقصد تھا۔ برطانوی کابینہ کے ساتھ مزید صلاح مشورہ کرنے اور اپنے منصوبے کی حتمی منظوری حاصل کرنے کی غرض سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن 18 مئی 1947ء کو لندن کے لیے روانہ ہوئے۔ دس دن تک برطانوی کابینہ کے اجلاسوں میں ماؤنٹ بیٹن پلان کے ہر پہلو کا مکمل جائزہ لیا گیا۔ 28 مئی 1947ء کوہندوستانی مسئلے پر وائسرائے ہند کے پلان کو آخری شکل دی گئی۔ برطانوی حکومت نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو مزید اختیارات سے’’مسلح‘‘کرکے ہندوستان کےلیےروانہ کیا۔30 مئی 1947ء کو ہندوستان پہنچے۔
بروز پیر صبح 10 بجے 2 جون 1947ء کو وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کے درمیان ایک تاریخ ساز اور نہایت ہی اہم اجلاس کا آغاز ہوا۔
اس اجلاس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور اس کی ٹیم، قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کی ٹیم اور پنڈت جواہر لال نہرو اور اس کی ٹیم نے شرکت کی۔ جبکہ سکھوں کی طرف سے بلدیو سنگھ اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ان رہنماؤں کے سامنے اپنا منصوبہ پیش کیا۔
اگلے روز 3جون 1947ء کو آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں نے اصولی طور پر اس منصوبے کو منظورکر لیا۔ اسی روز شام کو آل انڈیا ریڈیو پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہر میجسٹی گورنمنٹ کی طرف سے اپنے منصوبے کا اعلان کیا۔ یہ وہ مبارک دن تھا جس روز سورج قیام پاکستان کی نوید لے کر طلوع ہوا تھا۔ یہ وہ مبارک دن تھا جس روز ہندوؤں اور انگریزوں نے مسلمانوں کے مطالبے کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔
9 جون1947ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا اجلاس منعقد ہوا اور کافی غوروخوص کے بعد3 جون کو منصوبہ “As a basis for compromise”کے طور پر منظور کر لیا گیا۔ اور یہ بہ امر مجبوری کیا کیونکہ یہ بات دستاویزات سے ثابت ہو چکی ہے کہ اگر مسلم لیگ ایسا نہ کرتی تو انگریز حکومت کانگریس کے حوالے کرکے یہاں سے اپنا بوریا بستر سمیٹ لیتی۔ اور مسلمان ہندؤؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے جاتے۔ اس کے فوراً بعد آل انڈیا کانگریس نے بھی مذکورہ منصوبے کی منظوری کا اعلان کیا۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان کی آزادی کا اعلان ہوا۔