تھانوی جناح خط و کتابت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تھانوی جناح خط و کتابت
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے جن جامع صفات سے بکمال نوازا تھا ان میں ایک سیاسی بصیرت بھی تھی، جس کا اعتراف قائداعظم کو بھی تھا، وہ آپ سے ان امور میں مشاورت رکھتے تھے۔ حضرت تھانوی اور قائد اعظم کے باہمی خط وکتابت کے چند نمونے پیش کیے جا رہے ہیں جن سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا کس قدر احترام کرتے تھے ۔
بنام قائد اعظم:
15 ستمبر 1938ء کو حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے گفتگو کے دوران فرمایا: جس زمانہ میں مسلم لیگ اور کانگریس میں مفاہمت کی گفتگو ہو رہی تھی میں نے ایک خط مسلم لیگ کے صدر جناح صاحب کو اس مضمون کا لکھا کہ ”مفاہمت میں چونکہ مسلمانوں کے امور دینیہ کی حفاظت نہایت اہم اور ضروری ہے، آپ شرعی مسائل میں اپنی رائے کو داخل نہ کریں بلکہ محققین سے پوچھ لیا کیجیے۔ “ اس پر انہوں نے نہایت شرافت سے جواب دیا اور اطمینان دلایا کہ ”آپ کی ہدایت کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ “
)افادات اشرفیہ در مسائل سیاسیہ، از مفتی محمد شفیع۔ ص 96(
بنام حضرت تھانوی:
قائد اعظم کی طرف سے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کو ایک خط لکھا گیا، جس میں آپ لکھتے ہیں کہ ”مجھ کو مظہر الدین نیز نواب زادہ لیاقت علی خان صاحب سے گفتگو کرنے کا موقع ملا اور میں یہ معلوم کر کے بہت خوش ہوا ہوں کہ آپ کو آل انڈیا مسلم لیگ کے مقصد اور پروگرام سے پوری ہمدردی ہے، مجھ کو آپ کا خط ملا لیکن موجودہ متعدد مشاغل اور عدم حاضری بمبئی کے سبب آپ کو اس سے قبل جواب نہ دے سکا، چند نکات جو میرے سامنے پیش کیے گئے ہیں، میں نے ان کو بغور تحریر کر لیا ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ان سے متعلق آپ سے ضرور مشورہ کروں گا، جب وقت آئے گا۔ “
)مجالس حکیم الامت، از مفتی محمد شفیع۔ ص 287(
بنام قائد اعظم:
مکرمی و محترمی دام مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
الطاف نامہ نے مسرور و ممنون اور غایت درجہ مطمئن فرمایا، دل سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دین اسلام کی قوت کا ذریعہ بنا دیں، میں بکثرت دعا میں مشغول رہتا ہوں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ واقعی جیسا کہ آپ نے تحریر فرمایا ہےآپ کے بہت سے مشاغل ہیں اور بہت اہم ہیں اور میں ایک منٹ کے لیے بھی گوارا نہیں کرتا کہ ان میں کسی درجے کا بھی حرج ہو، اس بناء پر بلاتکلف عرض کرتا ہوں کہ میری معروضات کے جواب دینے کا اہتمام نہ فرمایا جائے، میں انتظار نہ کروں گا صرف اس کی اجازت دینا کافی ہوگا کہ کسی وقت کوئی مفید بات میرے ذہن میں آوے تو اس کو عرض کر دیا کروں اور وہ آپ کے پیش نظر رہے البتہ اگر میرے لائق کوئی خدمت یا مشورہ کی غرض سے کوئی استفسار ابتداء میں ذہن عالی میں آوے تو الطاف نامہ آنے کو فخر سمجھوں گا۔
)نیشنل آرکائیو اسلام آباد پاکستان، قائد اعظم پیپر زفائل نمبر 1906 ص 294(