علامہ محمد اقبال﷬

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

علامہ محمد اقبال﷬

اللہ تعالیٰ نے جب اہلیان برصغیر پر اپنا خاص کرم کا معاملہ کیا تو ان میں جذبہ ایمانی کے ساتھ ساتھ جذبہ آزادی بھی پیدا فرمایا، ہندوستان میں غوری، خلجی، تغلق، سعید، لودھی، مغلیہ، سوری اور دوبارہ مغلیہ خاندان کی سلطنت جو تقریباً 1193 سن عیسوی سے شروع ہو کر 1837ء تک پھیلی ہوئی ہے۔ تاریخ برصغیر کے مؤرخ کے سامنے محمد غوری، قطب الدین ایبک، شمس الدین التمش، غیاث الدین بلبن،جلال الدین فیروز خلجی، غیاث الدین تغلق، معیز الدین مبارک شاہ، ابراہیم لودھی، ظہیر الدین محمد بابر، محمد ہمایوں، شیر شاہ سوری، اورنگزیب، عالمگیر، احمد شاہ ابدالی اور بہادر شاہ ظفرایسے نام ہیں جنہیں وہ قطعاً فراموش نہیں کر سکتا۔
اہلیان برصغیر مختلف آزمائشی مراحل سےگزرتے رہے، حاکم رہنے والی مسلم قوم جب خدا کی نافرمانیوں میں غلطاں ہوئی اور آزادی کی قدر وقیمت سے غافل ہوئی تو حکمت الہیہ کا تقاضہ یہ ہوا کہ ان کو ایک آزمائش سے دوچار کیا جائے، چنانچہ برطانیہ کے فرنگی ؛اہلیان برصغیر کی شامت اعمال کی صورت ظاہر ہونا شروع ہوئے۔
1837ء کو مغلیہ خاندان کے آخری فرمانروا بہادر شاہ ظفر کی سلطنت کا اختتام ہوا تو چند سالوں کے اندر اندر برصغیر میں برطانوی اثر و رسوخ کافی حد تک پھیل چکا تھا۔ برطانوی سامراج نے اہلیان برصغیر کو ہر طرح سے لوٹنے اور اپنا غلام بنانے کے منصوبے بنائے۔ اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے آزادی برصغیر کے حریت پسند رہنماؤں کو پابند سلاسل سے لے کر سولی تک چڑھایا، ہر ظلم و ستم ان پر روا رکھا۔ تاریخ کے صفحات آج بھی چیخ چیخ کر لارڈ کینگ سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن تک برطانوی سامراج کی داستانِ ظلم سنا رہے ہیں۔ معاشی طور پر ہندوستان ”سونے کی چڑیا “ کہلاتا تھا۔ اگر اس وقت آزادی کے متوالے انقلاب انگیز تحریک نہ اٹھاتے تو برصغیر کے باسیوں کی مزید 20 نسلیں غلامی کی زنجیر میں بندھی رہتیں۔ فرنگی سامراج کو دیس نکالا دینے کےلیے ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ بن کرخود بھی چمکتا رہا اوراہلیان برصغیر میں روح آزادی کو بھی روشن کرتا رہا۔
برصغیر کی مدبراور زیرک قیادتوں کے اذہان پر برطانوی سامراج کے انخلاء کے بعد متحدہ برصغیر کا جو نقشہ ابھر رہا تھا اس میں دو پہلو نظر آ رہے تھے۔ ایک یہ کہ متحدہ برصغیر کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے بچا تے ہوئے متحد ہی رہنا چاہیے، بین الاقوامی سطح پر رقبے اور افرادی قوت کے اعتبار سے بڑی اور مضبوط حکومت بنائی جائے تاکہ طاقت کے نشے میں بدمست طاغوتی طاقتوں کے سامنے برصغیر ناقابل تسخیر ہی رہے اور وطن کی ترقی و دفاع کے لیے ہندو اور مسلم دونوں ایک ساتھ رہیں۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ اہل اسلام اپنا الگ ملک حاصل کریں تاکہ آزادی کا حقیقی مقصد حاصل ہو سکے ۔ اغیار کی تہذیب، کلچر سے چھٹکارا ملے۔ مسلم قوم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے اس قدر مضبوط ہو جائے کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے مسخر کرنے کی جرأت نہ کرے۔ ایک ایسی خود مختار، آزاد مسلم ریاست ہو، جہاں اسلامی نظام ہو اور ترقی کی راہیں ہموار کر کے بین الاقوامی دنیا میں ایک مثال پیش کی جائے۔
دونوں آراء نیک نیتی پر مبنی تھیں، چنانچہ اس نازک موڑ پر دو راہیں جداگانہ طور پر پھوٹ پڑیں۔ بعض نے پہلی رائے کو درست جانا اور اپنایا جبکہ بعض نے دوسری رائےکو نتیجہ خیز قرار دیا اور اختیار کیا۔ اختلاف رائے کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو کوئی بھی ”مجرم“ نظر نہیں آتا، کیونکہ جب اختلاف کی بنیاد دلیل پر ہو، نیک نیتی پر مبنی ہو اور اختلاف کرنے والے ”صاحبِ رائے“ ہوں تو وہ اختلاف مذموم نہیں ہوا کرتا۔
پہلی رائے کا نتیجہ کہ آج بھی ہندوستان میں مسلمان باقی اور محفوظ ہیں، انہیں سیاسی و مذہبی قیادت کا بلند مقام بھی حاصل ہے جبکہ دوسری رائے میں آج پاکستان جیسا آزاد، خود مختار جمہوری اسلامی ملک موجود ہے، جو مسلمانان عالم کے لیے کسی باعث عزت و افتخار اور ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی دوسری رائے کو درست سمجھ کر، نیک نیتی کے ساتھ اور دلیل کی بنیاد پر اپنانے والوں میں ایک بہت بڑا نام علامہ محمد اقبال مرحوم کا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے اقبال نے اپنے اشعار، تقریر و تحریر کے ذریعے اتنا عظیم کام کیا ہے کہ جو بہت کم ہی کسی کے حصے میں آیا ہے۔
ولادت و ابتدائی تعلیم:
آپ 9 نومبر 1877 ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم محلہ شوالہ کی مسجد سے حاصل کی، پھر کوچہ میر حسام الدین کے ایک مکتب میں پڑھنا شروع کیا، بعد ازاں اسکاچ مشن اسکول میں داخلہ لیا۔ آپ کا بچپن فطری اصولوں کے مطابق فطرت کو سمجھنے میں گزرا۔ ابھی عمر بمشکل 16 سال ہو گی کہ علامہ اقبال مرحوم نے میٹرک پاس کی اور ڈویژن بھر میں فرسٹ آئے، تمغہ انعام میں حاصل کیا۔ اس کے بعد کی تعلیم بھی اسکاچ مشن اسکول میں حاصل کی۔ داغ شاعر سےکچھ عرصہ شاعری میں رہنمائی حاصل کی۔ 1895 ء میں لاہور آ گئے اور گورنمنٹ کالج میں بی۔ اے کلاس میں داخلہ لیا، 1898ء میں بی۔ اے پاس کیا اور ایم۔ اے فلسفہ میں داخلہ لیا۔ مارچ 1899ء میں ایم۔ اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
محفل مشاعرہ میں شرکت:
نومبر 1899ء کی ایک شام علامہ اقبال کے چند کلاس فیلوز نے آپ کوحکیم امین الدین کے مکان پر لے آئے، جہاں محفل مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا تھا، اقبال جب اپنی غزل کے اس شعر پر پہنچے
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
بڑے بڑے شعراء آپ کو داد دینے لگے۔ یہیں سے آپ نے شاعری میں اڑان بھری اور اس کے بعد اقبال کی مقبولیت کا دائرہ وسعت اختیار کرتا گیا۔
تصنیفی میدان میں:
ایم۔ اے پاس کرنے کے بعد اقبال 13 مئی 1899ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عریبک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہوئے اور چار سال تک یہیں رہے۔ اسی دوران انگریزی میں ایک مقالہ لکھا اور ’’علم الاقتصاد‘‘کے نام سے اردو زبان میں ایک مختصر سی کتاب بھی تصنیف کی جو 1904ء میں شائع ہوئی۔
انگلستان روانگی:
اس کے بعد 25 دسمبر 1905 کو انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لیا، ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنز اِن میں داخلہ لے لیا۔
جرمنی روانگی:
کچھ عرصہ بعد آپ جرمنی چلے گئے، جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔4نومبر 1907ء کو میونخ یونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔
وطن واپسی:
جولائی 1908ء کونتیجہ نکلا، کامیاب قرار دیےگئے۔ اس کے بعد آپ انگلستان میں مزید نہیں رُکے، وطن واپس آگئے۔ جولائی 1908ء میں وطن کے لیے روانہ ہوئے۔ بمبئی سے 25 جولائی 1908ء کی رات دہلی پہنچے، اگست1908 میں لاہور آگئے۔
وکالت اور تعلیم:
ایک ماہ بعد چیف کورٹ پنجاب میں وکالت شروع کردی، حکومت پنجاب کی اصرار پر 10 مئی 1910ء سے گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھانا شروع کردیا لیکن ساتھ وکالت بھی جاری رکھی۔ 31دسمبر 1910ء کو گورنمنٹ کالج سے مستعفی ہو گئے، 1919ءسے 1932ء تک علامہ مرحوم تعلیمی شعبہ جات سے متعلق رہے۔
سیاست سے وابستگی:
اس کے بعد سیاست سے وابستہ ہوئے اور ہندوستان کو انگریز کے تسلط سے آزاد کرانے کی انتھک محنت شروع کی۔ مختلف سیاسی تنظیموں سے وابستگی کی لیکن آپ کے دل کی مراد بار آور نہ ہو سکی۔
2 جنوری1929ء کو اقبال دہلی سے جنوبی ہند کے دورے پر روانہ ہوئے۔ وہاں الہٰیات اسلامیہ کی نئی تشکیل کےموضوع پر مدراس،میسور، بنگلور اورحیدرآباد دکن میں خطبات دیے۔ جنوری کے آخر میں لاہور واپس پہنچ گئے۔
قبلہ اول اور اقبال:
فلسطین میں اہل اسلام پر یہودیوں بڑھتے ہوئے پُرتشدّد غلبے اور خاص طور پر مسجدِ اقصیٰ پر ان کے ناپاک قبضے کے خلاف مسلمانوں کے احتجاجی جلسے ہوئے۔ان جلسوں میں علامہ نے بھر پور شرکت کی اور قبلہ اول کے تقدس کے لیے پیش پیش رہے۔چنانچہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی 7 ستمبر 1929ء کا وہ احتجاجی جلسہ بھی ہے جو علامہ اقبال کی صدارت میں ہوا۔ علامہ اقبال نے اپنے خطبے میں فرمایا: ’’یہ بات قطعاً غلط ہے کہ مسلمانوں کا ضمیر حبّ ِ وطن سے خالی ہے، البتہ یہ صحیح ہے کہ حبّ ِ وطن کے علاوہ مسلمانوں کے دل میں دینیت و محبّت اسلام کا جذبہ بھی برابر موجود رہتا ہے اور یہ وہی جذبہ ہے جو ملّت کے پریشان اور منتشر افراد کو اکٹھا کر دیتا ہے اور کر کے چھوڑے گا اور ہمیشہ کرتا رہے گا۔
1914ءمیں انگریز مدبرّوں نے اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے یہودیوں کو آلۂ کار بنایا، صہیونی تحریک کو فروغ دیا اور اپنی غرض کی تکمیل کے لیے جو ذرائع استعمال کیے ان میں ایک کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ یہودی مسجدِ اقصیٰ کے ایک حصّے کے مالکانہ تصرّف کا دعوٰی کر رہے ہیں۔ انہوں نے آتشِ فساد مشتعل کر رکھی ہے۔ مسلمان، ان کی عورتیں اور بچّے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جارہے ہیں... اب حکومتِ برطانیہ نے فلسطین میں تحقیقاتِ حالات کے لیے ایک کمیشن بھیجنا منظور کیا ہے مگر میں اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتماد نہیں۔“
تاریخ ساز خطبہ الہ آباد:
29دسمبر الٰہ آباد کے شہر میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا۔ قائداعظم پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے ہوئے تھے۔ آپ کے ارشاد کے مطابق اس اجلاس کی صدارت علامہ مرحوم کو کرنی تھی۔ یہاں انہوں نے وہ تاریخ ساز خطبہ صدارت دیا جو ”خطبہ الٰہ آباد“ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس خطبے میں پہلی مرتبہ ہندوستان کے اندر ایک آزاد مسلم ریاست کا ٹھوس اور غیر مبہم خاکہ پیش کیا گیا۔اس کے بعد بھی کئی بار گول میز کانفرنسز ہوئیں، اقبال کو مدعو کیا گیا، آپ گئے بھی، لیکن ان کے ایجنڈے سے مطمئن نہیں ہوئے۔
جذبہ آزادی کا درس:
اقبال اپنی شاعری کے ذریعے اہلیان برصغیر میں آزای کا جذبہ پیدا کرتے رہے۔ ان کی شاعری میں جہاں معنویت، حقیقیت، تاریخیت، اسلامیت اور انسانیت ملتی ہے وہیں پر جذبہ آزادی، اہل اسلام کی عروج کے اسباب و عوامل، غلامی سے نجات پانے کے اصول اور خودی کا درس بھی ملتا ہے۔
قائد اعظم سے خط وکتابت:
برّصغیر میں مسلم سیاسی جماعتیں سخت انتشار اور افتراق میں مبتلا تھیں۔قائد اعظم مایوس کن صورتحال سے دلبرداشتہ ہو کر لندن جا چکے تھے، جبکہ اقبال ؛آزادی پاکستان کے خواب کی تعبیر کو پورا ہوتے دیکھ رہے تھےاس لیے قائداعظم کو واپسی کے کئی خطوط لکھے۔آپ کےاصرار پر قائد اعظم ہندوستان واپس آئے اور 4 مارچ 1934ء کو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔
علامہ اقبال کے افکار:
قائد اعظم کی طرح علامہ محمد اقبال کے ذہن میں پاکستان کا جو نقشہ تھا اس میں اسلام کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ 29 دسمبر1930ء کو الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں خطبۂ صدارت پیش کرتے ہوئے فرمایا:”برصغیر ہندوستان میں بھانت بھانت کے لوگ اور مختلف مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں چنانچہ مسلمان اپنے لیے مسلم انڈیا کے قیام کے مطالبے میں پورے پورے حق بجانب ہیں۔ “
( Speeches and Statements Of Iqbal. Page 12)
28مئی 1937ء کو علامہ اقبال نے قائد اعظم کو تفصیلی خط لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ” ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے قانون اور اسلامی شریعت میں اس مسئلے کا حل خود موجود ہے مگر شریعت کے نفاذ اور ترقی کے لیے ہندوستان میں ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے قیام کی ضرورت ہے۔ “
(letters of Iqbal to Jinnah)
مقام افسوس:
واقفانِ تاریخِ برصغیر کے ہاں یہ امر کبھی مخفی نہیں رہا کہ پاکستان کی آزادی کے لیے مذہبی و سیاسی قیادتیں ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے دست و بازو، معاون اور معین بنی ہیں، ان کے درمیان کوئی ایسی خلیج نہیں تھی جس میں نفرت کا پودا اُگ سکتا، مقام افسوس ہے کہ آج آزادی پاکستان میں علامہ اقبال مرحوم اور مذہبی قیادتوں کے مابین تصادم پیش کیا جاتا ہے۔
یک جان دو قالب:
تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ اقبال اور علماء ”یک جان دوقالب“ کے مصداق تھے،بالخصوص علماء دیوبند۔ کہ اسی مکتبہ فکر کے علماء کرام ہمیشہ بانیان پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ اس کا اعتراف جہاں قائد اعظم کو تھا اسی طرح خود اقبال مرحوم کو بھی ہے، آپ نے مختلف مواقع پر اس کا کھل کا اظہار کیا۔ چند شہادتیں ملاحظہ ہوں:
علمائے دیوبند سے دلی عقیدت:

دیوبند ایک ضرورت تھی،اس سے مقصود تھا ایک روایت کا تسلسل وہ روایت جس سے ہماری تعلیم کا رشتہ ماضی سے قائم ہے۔
)اقبال کے حضور(

ایک بار کسی نے علامہ مرحوم سے پوچھا کہ دیوبندی کیا کوئی فرقہ ہے؟ کہا: نہیں۔ ہر معقولیت پسند دیندار کا نام ”دیوبندی “ہے۔
)علماءدیوبند کا مسلک (

مولوی اشرف علی تھانوی سے پوچھئے وہ اس (مثنوی روم رحمہ اللہ) کی تفسیر کس طرح کرتے ہیں میں اس (مثنوی کی تفسیر کے ) بارے میں انہی کا مقلد ہوں۔
)مقالات اقبال (

میں ان (مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ ) کے احترام میں کسی اور مسلمان سے پیچھے نہیں ہوں۔
)انوار اقبال(

مولوی سید انور شاہ صاحب )کشمیری (سے جو دنیائے اسلام کے جید ترین محدث وقت میں سے ہیں میری خط و کتابت ہوئی۔
)انوار اقبال(
علامہ اقبال مرحوم کا وہ خط بھی ان کی باہمی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے جو انہوں نے علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی کے نام لکھا تھا۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ
مخدوم و مکرم حضرت قبلہ مولانا!
السلامُ علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہ!
مجھے ماسٹر عبد اﷲ صاحب سے ابھی معلوم ہوا کہ آپ انجمن خدام الدین کے جلسے میں تشریف لائے ہیں اور ایک دو روز قیام فرمائیں گے۔ میں اسے اپنی بڑی سعادت تصّور کروں گا اگر آپ کل شام اپنے دیرینہ مخلص کے ہاں کھانا کھائیں۔ جناب کی وساطت سے حضرت مولوی حبیب الرحمٰن صاحب قبلہ عثمانی حضرت مولوی بشیر احمد صاحب اور جناب مفتی عزیز الرحمٰن صاحب کی خدمت میں یہ ہی التماس ہے۔ مجھے امید ہے کہ جناب اس عریضے کو شرفِ قبولیت بخشیں گے۔ آپ کو قیام گاہ سے لانے کے لیے سواری یہاں سے بھیج دی جائے گی۔
)اقبال نامہ حصہ دوم (
اقبال کی فکر عام کرنے کی ضرورت:
آج ضرورت ہے اقبال کی فکر، سوچ، مذہبی حمیت، فلسفہ آزادی کو اپنانے اور وطن عزیز کوافکار اقبال کی روشنی میں ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی۔ اقبال اپنی نوجوان نسل کو جن اوصاف کا حامل دیکھنا چاہتے تھے وہی اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے کوشش کی جائے۔