قائد ِاعظم محمد علی جناح

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قائد ِاعظم محمد علی جناح﷬
دنیا بھر کے نامور لیڈروں، تحریکوں کے بانیوں اورقائدین کی نظرمیں قائد اعظم کی ایمانی فراست، جذبہ حریت اور مسلسل محنت کا اعتراف کھلے لفظوں میں تاریخ کی پیشانی پر سنہرے الفاظ میں درج ہے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ جوتحریک پاکستان کے سرگرم لیڈراورآل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے عظیم رکن تھے، قائد اعظم محمد علی جناح کے دست وبازو بن کر الگ،آزاد مسلم ریاست کی جدوجہد میں شریک عمل تھے۔ وہ قائدِ اعظم کی جلوت و خلوت اور ان کی ایمانی و سیاسی کوششوں کو قریب سے دیکھ چکے تھے، قائد اعظم کے متعلق فرماتے ہیں:
”بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان لیڈر پیدا نہیں کیا جس کے غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے نے دس کروڑ شکست خوردہ مسلمانوں کو کامرانیوں میں بدل دیا ہو۔“
ولادت:
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876ءکو روشنیوں کے شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ بہن بھائیوں میں سے سب سے بڑے تھے۔
خاندان:
آپ کے والد گجرات کے مالدار تاجر تھے جو کاٹھیاوار سے کراچی منتقل ہو گئے تھے۔
تعلیم:
قائد اعظم نے باقاعدہ تعلیم کراچی مشن ہائی سکول سے حاصل کی۔ 1887ء کو آپ برطانیہ میں گراہم سپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں کام سیکھنے کے لیے گئے۔
رشتہ ازدواج:
برطانیہ جانے سے پہلے آپ کی شادی آپ کی ایک دور کی رشتہ دار ایمی بائی سے ہوئی جو کی آپ کے برطانیہ جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی وفات پا گئیں۔
قانون دانی:
لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد آپ نے ملازمت چھوڑ دی اور لنکن اِن میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لے لیا اور 1896ء میں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت آپ نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔انڈیا واپس آنے کے بعد آپ نے ممبئی میں وکالت شروع کی اور آپ کا شمار ان شہہ دماغ وکلاءکی صف میں ہونے لگا جو حالات کو بھانپتے بھی ہیں، ادراک بھی کرتے ہیں اور مسائل کے حل کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔
جذبہ آزادی اور تحریکات میں شمولیت:
قائد اعظم کے دل میں مسلمانوں کی خود مختاری، آزادی اور الگ اسلامی ریاست کے نیک جذبات تھے۔ ان کی نظر میں آزادی کا صحیح راستہ قانونی اور آئینی ہتھیاروں کو استعمال کرنا تھا۔ اس لیے انہوں نے اس زمانے کی ان تحریکوں میں شمولیت اختیار کی جن کا فلسفہ ان کے خیالات کے مطابق تھا۔ کچھ عرصہ بعد مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ آزادی وطن اور مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی خاطر مسلم لیگ کو اتنا منظم کیا کہ جس نے کچھ عرصہ میں دس کروڑ لوگوں کو ان کی گم شدہ متاع آزادی و خودمختاری سے مالامال کر دیا۔
افکار و نظریات:
قائد اعظم کی زندگی تحریک آزادی کے لیے وقف تھی، وہ خود بھی اسلامی افکار و نظریات کے حامل شخص تھے اور اپنی قوم میں بھی یہی اوصاف دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ بات بھی مسلّم ہے کہ قوموں کی زندگی میں حقیقی اہمیت تو افکار کی ہوتی ہے اور ان تحریکات کی جو ان افکار سے پیدا ہوتی ہیں لیکن تحریکات کے روح رواں وہ افراد ہوتے ہیں جن کے اعلیٰ کردار سے وہ افکار قومی زندگی میں اثر انداز ہوتے ہیں اور اسی روشنی میں قومیں آزمائش کے صبر آزما مراحل سے گزر کر کامیابی کی بلندیوں کو چھو لیتی ہیں۔قائد اعظم کے افکار میں سب سے بنیادی چیز قرآن کریم ہے جس میں غور و فکر کرنے کا خدائی حکم موجود ہے۔جہاں سابقہ اقوام کی ناکامیوں کے اسباب و وجوہات کا تذکرہ واضح طور پر موجود ہے وہاں کامیابیوں کے اصول و مبادی بھی اس میں سمجھائے گئے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح قرآن کریم میں غور و خوض فرماتے تھے اور مسلم قوم کی حالت زار پر درد مند قائد کی طرح خون کے آنسو روتے۔
کیسا پاکستان چاہتے تھے؟:
علمائے حق کی متواترمحنت اور قائد اعظم سے مسلسل ملاقاتوں کا اثر قائد اعظم کی تقاریر سے بھرپور طریقے سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ آزاد اسلامی ریاست کے خواہاں تھے اور اس میں اسلام کا نظام چاہتے تھے۔ چند تاریخی حقائق پیش ہیں:

17فروری 1938ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسٹریچی ہال میں فرمایا: ”مجھے اپنے اسلامی کلچر اور تہذیب سے بہت محبت ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ہماری آنے والی نسلیں اسلامی تمدن اور فلسفہ سے بالکل بیگانہ ہوجائیں۔ “

12جون 1938ءکو ایک تقریب سے دوران خطاب کہا: ”مسلمانوں کے لیے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ان کے پاس 1300برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک میں ہماری اقتصادی، تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کا سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اسی قانون الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلام الٰہی کی تعمیل ہے۔“
)ہفت روزہ انقلاب، جون 1938 (

14 دسمبر 1942ء کوکراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”پاکستان کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہے کہ پاکستان میں اللہ کے دین کا نظام قائم ہوگا۔ “

19 مارچ 1944ء پنجاب اسٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور کی سالانہ کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:” ہمیں ہلالی پرچم کے علاوہ کوئی اور پرچم درکار نہیں۔ اسلام ہمارا رہنما ہے جو ہماری زندگی کا مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ “

21 نومبر 1945ء سرحد مسلم لیگ کانفرنس پشاورمیں دوران خطاب فرمایا: ”مسلمان؛پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ اپنے ضابطۂ حیات، اپنے تمدنی ارتقاء، روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کر سکیں۔ “

24 نومبر1945ء مردان کے جلسۂ عام سے خطاب کے دوران فرمایا: ”پاکستان کی آزاد مسلم مملکت کے حصول میں بھی اپنا کردار ادا کریں جہاں مسلمان اسلامی فرماں روائی کا نظریہ پیش کر سکیں گے۔ “

26 نومبر 1946ء کو سید بدرالدین احمد کو اپنی قیام گاہ پر ایک تفصیلی انٹرویو دیا جس میں آپ نے برملا کہا:”دنیا کی تمام مشکلات کا حل اسلامی حکومت کے قیام میں ہے۔ اسی قیام کی خاطر میں لندن کی پر سکون زندگی کو رد کر کے عظیم مفکر علامہ اقبال کے اصرار پر واپس آگیا۔ ان شاء اللہ پاکستان کے نظام حکومت کی بنیاد لا الہ الا اللہ ہی ہو گی اور اس پر ایسی فلاحی اور مثالی سٹیٹ قائم ہوگی کہ دنیا اس کی تقلید پر محبور ہو جائے گی۔ “

7 جولائی 1947ء کو لندن مسلم لیگ کے نام پیغام میں فرماتے ہیں:”خدا کے فضل سے ہم دنیا میں اس نئی عظیم خود مختار اسلامی ریاست کی تعمیر مکمل اتحاد، تنظیم اورایمان کے ساتھ کر سکیں گے۔ “

19 دسمبر 1946ء کو مصری ریڈیوپر خطاب کے دوران فرمایا:”ہم چاہتے ہیں کہ ایک آزاد خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں اور ان تمام اقدار کا تحفظ کریں جن کا اسلام علمبردار ہے۔ “

14اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاح کے موقع پر ماؤنٹ بیٹن کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ”اکبر بادشاہ نے جس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا وہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں اس کا آغاز 1300 برس پہلے ہوگیا تھا جب ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کے بعد نہ صرف زبانی طورپر بلکہ عملی طور پر یہودیوں اور عیسائیوں سے فراخدلانہ سلوک کیا……. مسلمانوں کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ “

30اکتوبر 1947ء کو لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”اگر ہم قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کریں تو بالآخر فتح ہماری ہوگی۔ میرا آپ تمام لوگوں سے یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیےبڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ “

14 دسمبر 1947ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے دوران خطاب فرمایا: ”میں صاف طور پر واضح کر دوں کہ پاکستان اسلامی نظریات پر مبنی ایک مملکت ہوگی۔ “

25جنوری 1948ء کو پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سےکراچی بار ایسوسی ایشن کے استقبالیےسے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں ان لوگوں کے عزائم نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ ہماری زندگی پر آج بھی اسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح 1300 سال پہلے ہوتا تھا۔

14 فروری 1948ءمیں سبی دربار بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اسوۂ حسنہ پر چلنے میں ہے جو قانون عطا کرنے والے پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے بنایا۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔ “

21فروری 1948ء کو افواج پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے کہا:” اب آپ کو اپنے ہی وطن عزیز کی سرزمین پر اسلامی جمہوریت، اسلامی معاشرتی عدل اور مساوات انسانی کے اصولوں کی پاسبانی کرنی ہے۔ “
)تصور پاکستان، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد(
قرآن کریم میں غور وخوض:
عبدالرشید بٹلر جو اُن دنوں گورنر ہاؤس پشاور میں بٹلر تھے جب قائداعظم گورنر جنرل کی حیثیت سے سرحد کے دورے پر گئے اور گورنر ہاؤس پشاور میں قیام کیا۔ اس دوران عبدالرشید بٹلر نے قائد اعظم کو قریب سے دیکھا وہ اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں۔ قائد اعظم بیٹھے خوب کام کر رہے تھے۔دن بھر کی مصروفیات کے باوجود انہوں نے آرام نہیں کیا۔ جب کام کرتے کرتے تھک جاتے توکمرے میں اِدھر اُدھر جاتے۔ میں نے خود دیکھا کہ انگیٹھی (مینٹل پیس) پر رحل میں قرآن پاک رکھا ہوا ہے،اس پر ماتھا رکھ کر رو پڑتے تھے۔
عبدالرشید بٹلر اسی رات کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسی رات۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ ہر کوئی گہری نیند سو رہا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اپنا فرض ادا کر رہی تھی کہ اچانک ٹھک ٹھک کی آواز گورنمنٹ ہاؤس کا سناٹا چیرنے لگی۔ آواز میں تسلسل اور ٹھہراؤ تھا۔ میں فوراً چوکس ہوا۔ یہ آواز قائداعظم کے کمرے سے آرہی تھی۔ ہمیں خیال آیا اندر شاید کوئی چورگھس گیا ہے۔ ڈیوٹی پرموجود پولیس افسر بھی ادھر آگئے۔ پولیس اِدھر اُدھرگھوم رہی تھی کہ اندر کس طرح جھانکا جائے؟ ایک ہلکی سی درز شیشے پر سے پردہ سرکنے سے پیدا ہوچکی تھی۔اس سے اندر کی موومنٹ دیکھی جاسکتی تھی۔
ہم کیا دیکھتے ہیں کہ قائداعظم انگیٹھی کے قریب رکھے ہوئے قرآن حکیم پر سر جھکائے کھڑے ہیں۔ چہرہ آنسوؤں سے تر ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں ٹہلنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں اس کی کسی آیت کا مطالعہ کرنے کے بعد پھر چلنے لگتے ہیں۔ جب ان کے پاؤں لکڑی کے فرش پر پڑتے ہیں تو وہ آواز پیدا ہوتی ہے جس نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا۔ آیت پڑھ کر ٹہلنا یعنی وہ غور کر رہے تھے کہ قرآن کیا کہتاہے۔ اس دوران میں وہ کوئی دعابھی مانگ رہے تھے۔
)دی گریٹ لیڈر از منیر احمد، ص 239(
بعض قرآنی احکام کا اجراء:
جنرل اکبر نہایت سینئر جرنیل تھے اور قیام پاکستان کے وقت بحیثیت میجر جنرل کمانڈر فرسٹ کور تعینات ہوئے۔ جنرل اکبر 25جون 1948ءکو وہاں پہنچے ان کی قائداعظم سے کئی ملاقائیں ہوئیں۔ ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے جنرل اکبر کہتے ہیں: ”ہمارے افسروں کے سکولوں میں ضیافتوں کے وقت شراب سے جام صحت پیا جاتا ہے کیونکہ یہ افواج کی قدیم روایت ہے۔ میں نے قائداعظم سے کہا کہ شراب کے استعمال کو ممنوع کرنے کااعلان فرمائیں۔
قائداعظم نے خاموشی سے اپنے اے ڈی سی کوبلوایا اور حکم دیا کہ”میرا کانفیڈریشن باکس لے آؤ“جب بکس آ گیا تو قائداعظم نے چابیوں کاگچھا اپنی جیب سے نکال کر بکس کو کھول کر سیاہ مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی اوراسے اس مقام سے کھولا جہاں انہوں نے نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا جنرل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہوا ہے '' شراب و منشیات حرام ہیں۔'' تبادلہ خیال کے بعد سٹینو کو بلوایا گیا۔قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا، قرآنی آیات کا حوالہ دےکر فرمایا شراب و منشیات حرام ہیں۔میں نے مسودے کی نقل لگا کر اپنے ایریا کے تمام یونٹ میں شراب نوشی بند کرنے کاحکم جاری کیا۔جو میری ریٹائرمنٹ تک موثر رہا، میں نے قائد اعظم سے عرض کیا کہ ہم نے بنیادی طور پر آپ کی تقریروں سے رہنمائی حاصل کی ہے آپ نے فرمایا: ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے سے قرآن مجید سے رہنمائی لینی چاہیے۔ “
)میری آخری منزل، ص 281(
قائداعظم کی تمنا:
آل انڈیامسلم لیگ کونسل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’مسلمانو! میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد سربلند دیکھوں۔ میں چاہتاہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میراخدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا۔ میں آپ سے داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔“
(انقلاب لاہور 22اکتوبر 1939 (
شریعت اسلامی سے رہنمائی:
4مارچ 1946ءقائد اعظم نے شیلانگ میں خواتین کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’ہندو بت پرستی کے قائل ہیں، ہم نہیں ہیں۔ ہم مساوات، حریت اور بھائی چارے کے قائل ہیں جبکہ ہندو ذات پات کے بندھن میں جکڑے ہوئے ہیں۔ہمارے لیے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم صرف ایک بیلٹ بکس میں اکٹھے ہو جائیں۔ آئیے اپنی کتاب مقدس قرآن حکیم اور حدیث نبوی اور اسلام کی عظیم روایات کی طرف رجوع کریں جن میں ہماری رہنمائی کے لیے ہر چیز موجود ہے۔ ہم خلوص نیت سے ان کی پیروی کریں اور اپنی عظیم کتاب قرآن کریم کا اتباع کریں…… ‘‘
تو یہ الفاظ ان کے قلب کی گہرائیوں سے نکل رہے تھے اور اس جذبے کے ساتھ قائد اعظم نے مشورہ دیا ……’’ہر مسلمان کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کر سکے۔ کیونکہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات (Complete Code) ہے جو زندگی کے ہرشعبے پر محیط ہے۔ ‘‘
)قائد اعظم کی تقاریر،خورشید یوسفی، جلد3 ص2053(
جنازہ پڑھانے کی وصیت:
قائد اعظم محمد علی جناح علماء کرام کی حد درجہ عزت و تعظیم کرتے، بالخصوص جب سے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے تعلقات استوار ہوئے تب سے ان کے دل میں علم اور علماء کی عظمت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ تحریک آزادئ پاکستان میں ان علماء سے مسلسل مشاورت اور رہنمائی لیتے رہے اور علماء کرام بھی حصول آزادی اور پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے لیے ہر طرح سے بھرپور کوشش کرتے رہے۔ برصغیر کے مسلمانوں میں اسلامی ریاست کے حصول کے لیے جذبۂ آزادی کی روح پھونکی۔ آپ نے بھی ان کو کسی موقع پر نظرانداز نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ اپنی وفات سے کچھ روز قبل وزیر اعظم لیاقت علی خان کو جو ہدایات دیں ان میں اپنے جنازے کے متعلق بھی وصیت ذکر کی ہے۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو ہدایت:
بریگیڈئر نور حسین جو کہ بطور کیپٹن قائد اعظم کے اے ڈی سی تھے اور قائد اعظم کے آخری سانسوں تک ان کے ساتھ رہے، کہتے ہیں:جب وزیر اعظم لیاقت علی خان آخری ایام میں قائد اعظم سے ملنے زیارت آئے تو اس وقت قائد اعظم نہایت کمزور اور نحیف ہو چکے تھے، بستر تک محدود تھے اور انہیں جان لیوا مرض کا اندازہ ہو چکا تھا۔ وزیر اعظم اور گورنر جنرل )قائد اعظم (کی ون ٹو ون ملاقات میں قائد اعظم نے نوابزادہ لیاقت علی کو کچھ ہدایات دیں جن میں یہ ہدایت بھی شامل تھی کہ میری نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی پڑھائیں۔ چنانچہ وزیر اعظم جب قائد اعظم سے ملاقات کر کے نیچے اترے اور اے ڈی سی کے کمرے میں آئے تو انہوں نے اسی کمرے سے فون کر کے کراچی پیغام دیا کہ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب سے گزارش کی جائے کہ وہ کراچی ہی میں موجود رہیں۔
)پاکستان میری محبت، صفحہ 68(
قائد اعظم کے جنازہ پر علامہ عثمانی کی تقریر:
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے قائد اعظم کا جنازہ پڑھایا جس میں تقریباً چار لاکھ افراد نے شرکت کی۔ بعد میں شرکاء جنازہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
قائد اعظم کی جدائی سے پاکستان کو ہی نہیں بلکہ سارے عالم اسلام کو نقصان پہنچا ہے آپ نے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر لیا تھا اور ان پر آپ کی حکومت تھی۔ ایک مدبرکی حیثیت سے قائد اعظم محمد علی جناح اعلیٰ تر اور ناقابل موازنہ حیثیت کا انسان تھا،آپ کو دنیا کا کوئی بھی انسان خرید نہیں سکتا تھا اور کوئی بھی انسان آپ کو کسی قانونی یا آئینی مسئلہ پر بے وقوف نہیں بنا سکتا تھا۔ قائد اعظم ایک غریب اور بے علم قوم کا رہنما تھا اور تمام دنیوی آسائشوں کو ٹھکرا کر اپنی قوم کے پامال لوگوں کی بہتری کے لیے شب وروز مصروف خدمت رہتا تھا۔
اس نے عہد اورنگ زیب کی اسلامی شوکت کی یاد تازہ کر دی تھی اور اس سرزمین کے لیے مسلمان ان تمام خدمات کے عوض جو آپ نے مسلم قوم کے لیے انجام دی تھیں آپ کے ہمیشہ خدمت گزار رہیں گے۔ قائد اعظم مجھ سے فرمایا کرتے تھے ان شاء اللہ وہ دن قریب ہے جب کراچی اسلامی ممالک کا مرکز ہوگا۔ کراچی سے لے کر انقرہ تک، کراچی سے لے کر مراکش تک، کراچی سے لے کر چین تک مسلمانوں کا ایک مضبوط بلاک بنایا جائے گا جس کی قیادت کے فرائض ان شاء اللہ تعالیٰ پاکستان ادا کرے گا۔ وہ نحیف انسان تھا لیکن وہ پہاڑوں سے ٹکرانے کی قوت رکھتا تھا۔ جب پہلے پہل انہوں نے پاکستان کا تخیل پیش کیا تو ہم میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو یہ یقین رکھتا ہو کہ پاکستان کبھی حقیقت بن سکے گا۔ لیکن اس مرد مجاہد کے استقلال، عزم، ایثار، سیاسی ذہانت اور تدبر نے خدا کے فضل و کرم سے ایک ناممکن امر کو ممکن بنا کر دکھا دیا۔ پاکستان بنا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا: مولانا!پاکستان صحیح معنوں میں ایک اسلامی جمہوریہ ملک ہوگا۔ جس میں ہر شخص کو ابھرنے اور ترقی کرنے کے مواقع حاصل ہوں گے، شریعت کا بول بالا ہوگا۔ یہی ان کی خواہش تھی یہی ان کی تمنا تھی ان کی اس آخری خواہش کو جامہ عمل پہنانا اب ہم میں سے ہر ایک مسلمان کا مذہبی فرض ہے۔ آؤ ہم خدا کے حضور میں سر نیاز جھکا کر اس امر کا عہد کریں کہ ہم پاکستان کی ترقی، استحکام، سربلندی اور ظفر مندی کے لیے قائد اعظم کے نقش قدم پر چل کر کسی قربانی سے دریغ نہ کریں گے۔
قائد اعظم محمد علی جناح ہم میں موجود نہیں ہوں گے لیکن ان کی روح ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتی رہے گی آپ کی ہدایات اور آپ کا جذبہ پاکستانی عوام کے دل و دماغ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ سے میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پاکستان کو پائندہ اور تابندہ رکھے اور پاکستانی قوم کو ان کی اس امانت کی صحیح طور پر حفاظت اور ترقی دینے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آئیے! ہم عہد کریں کہ ہم مملکت پاکستان کے وفادار بن کر رہیں گے۔ اور اللہ کے احکام پر عمل کرنے کی پوری پوری کوشش کریں گے اور اس مملکت خداداد کو جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا ہے یعنی کہ اس میں قانون خداوندی کا ہم نفاذ کر کے چھوڑیں گے، اس کے لیے کمر بستہ ہوجائیں۔
)خطبات عثمانی، ص۔ 295(
قائد کی امانت:
آپ کی زندگی کو اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قائد اعظم ہر طرح سے مسلمانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تھے اور ان کے دل میں ایمانی جذبات کے ساتھ ساتھ جذبہ حریت موجزن رہتا تھا۔ طویل جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان جیسی خوبصورت اور خود کفیل ریاست اہلیان پاکستان کے سپرد کی۔
آپ کے جانے کے بعد پاکستان کے تھکے ہارے، لٹے پٹے، دکھوں کے مارے عوام کسی قائد اعظم کا انتظار کر رہے ہیں۔ قائد اعظم تو لوٹ کر نہیں آنے لیکن ان کے بتائے ہوئے اصول ہمارے مستحکم پاکستان کے ضامن ہیں۔
عزم کریں:
اس لیے آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ قائد اعظم کے افکار و نظریات اوررہنما اصولوں کی روشنی میں پاکستان کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی و خودمختاری، دفاع وطن اور وفائے وطن کےلیے ایمان، اتحاد اور تنظیم کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔