اسلامی آئین سازی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اسلامی آئین سازی
مجلس العلماء کا خط:
3 جون 1947ء کو جب وائسرے لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کا اختیار ہندوستانیوں کو سونپنے کے منصوبہ بنا رہا تھا انہی دنوں بعض دوراندیش مخلص مسلمانوں نے ”مجلس العلماء“ کی انجمن قائم کی۔ تاکہ کل کو جب ملک حاصل ہو جائے تو ملک میں اسلامی آئین اور دستور سازی کا کام کیا جا سکے۔ مجلس العلماء کے جنرل سیکرٹری شفیق احمد صدیقی صاحب نے علامہ شبیر احمد عثمانی کو ایک خط لکھا جس میں اپنا مدعیٰ ظاہر کیا اور مجلس العلماء کی صدارت کی پیش کش بھی فرمائی۔
علامہ عثمانی کا جواب:
مکرمی سلام مسنون!
عنایت نامہ ملا۔ احوال مندرجہ سے آگاہی ہوئی، آپ کا یہ جذبہ قابل قدر ہے کہ آپ اور آپ کی مجلس العلماء تاسیس پاکستان کے بعد ملک میں اسلامی آئین قائم کرنے کا عزم صادق رکھتی ہے اور اس سلسلے میں میرے تعاون کی آپ کو ضرورت اور میری قیادت کا آپ کو احساس ہے۔ بقدر امکان اس مبارک خیال میں آپ کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہوں ……… میں اس نظریہ )آئین اسلامی (کا دل سے حامی ہوں اور جس حد تک موقع ملے اپنی بساط کے مطابق اس بارے میں سعی کرنا اپنا فرض مذہبی سمجھتا ہوں۔ چونکہ میرا انتخاب دستور سازی اسمبلی کے لیے بھی ہو چکا ہے اس لیے میرا عزم مصمم ہے کہ وہاں پہنچ کر اپنی استطاعت کی حد تک پوری قوت کے ساتھ آواز بلند کروں خواہ کوئی پارٹی میرا ساتھ دے یا نہ دے۔ اور آخری نتیجہ کچھ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ نہ صرف میرے ضمیر کی آواز ہے بلکہ مجھے یقین ہے کہ میں اس طرح کروڑوں مسلمانوں کے صحیح جذبات اور ان کے ایمانی تقاضوں کی سچی ترجمانی کروں گا۔ اس لیے لاہور میں جو بعض علماء نے ”آئین ساز مجلس العلماء“ کے نام سے ایک جماعت قائم کی ہے اس کی شرکت میں نے منظور کر لی ہے۔
اسلامی دستور کا خاکہ:
ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کی آمد شروع ہوچکی تھی، ان کی آباد کاری بہت بڑا انتظامی مسئلہ تھا جسے کسی صورت بھی موخر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے مجلس العلماء دوسال تک کوئی اور کام نہ کر سکی۔
مولانا محمد متین اس کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
”آبادکاری کے مسئلے کی وجہ سے دوسال تک تنظیمی صورت میں جمعیت العلماء کو کام کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ البتہ شیخ الاسلام )علامہ شبیر احمد عثمانی (مرحوم ذاتی طور پر اپنے رفقاء کی معیت میں کراچی میں بیٹھ کر کام کرتے رہے اس وقت سب سے اہم مسئلہ پاکستان میں اسلامی دستور کا تھا ………اس کام کے لیے کراچی کے چند معزز مسلمانوں کی ایک جماعت بنا کر آپ نے چند علماء کو ہندوستان سے آنے کی دعوت دی۔ جن میں حضرت سید سلیمان ندوی، مولانا مناظر احسن گیلانی، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب اور ڈاکٹر حمیداللہ صاحب حیدرآبادی )مشہور قانون دان (تھے۔ حضرت سید صاحب تو کسی عذر کے سبب اس وقت تشریف نہ لا سکے باقی تین حضرات کراچی میں جمع ہوئے۔
مئی 1948ء سے جولائی 1948ء تک ان حضرات نے ایک رجحانی خاکہ اسلامی دستور کا مرتب فرما کر وزیر اعظم اور دوسرے ذمہ داران کو دے دیا اس کے بعد پورے ملک میں اسلامی دستور کا مطالبہ کیا اور اس کے بعد دستور ساز اسمبلی کے سامنے عوام کے مطالبات پیش کرنے کے لیے مختلف سفر فرمائے جن میں مشرقی پاکستان کے اضلاع ڈھاکہ، چاٹگام، سلہٹ، کومیلااور میمن سنگھ وغیرہ کا دورہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ “
)اخبار انقلاب 24 مارچ 1951، بحوالہ خطبات عثمانی ص۔ 306(
دستوریہ پاکستان کا پہلا اجلاس:
10 اگست 1947ء کو کراچی میں غیر منقسم ہندوستان کی نومنتخب شدہ دستوریہ کا پہلا اجلاس لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے حکم پر ہوا۔ دستوریہ کے ارکان میں قائد اعظم محمد علی جناح، مسٹر ایچ ایس سہروردی، لالہ بھیم سین سچر، مسٹر اے کے فضل حق، خواجہ ناظم الدین، سردار عبدالرب نشتر اور نواب ممدوٹ وغیرہ شامل تھے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی بطور خاص اس اجلاس میں شریک ہوئے، اور آپ ہی نے اس پہلے اجلاس کا افتتاح درج ذیل آیات مبارکہ سے کیا:
قُلِ اللّهُمَّ مٰلِكَ المُلْكِ تُؤتِي المُلْكَ مَنْ تَشاءُوتَنْزِعُ المُلْكَ مِمَّن ْ تَشاءُ وتُعِزُّ مَنْ تَشاءُ وتُذِلُّ مَنْ تَشاءُ بِيَدِكَ الخَيرُ اِنَّكَ عَلي كُلِّ شى‏ءٍ قَدِیْر
آل عمران آیت 26
قائد اعظم؛ دستوریہ کے صدر:
11 اگست کو قائد اعظم کو دستوریہ کا صدر منتخب کیا گیا۔ 12 اگست کو اسمبلی نے شہریوں اور اقلیتوں کےبنیادی حقوق کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی، 14 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کراچی آئے دستوریہ پاکستان سے خطاب کیا اور ہمیشہ کے لیےاس ملک سے چلے گئے۔
اس کے بعد کافی مرتبہ اس اسلامی آئین کے عوامی مطالبہ کو مختلف جلسوں اور اجتماعات میں دہرایا گیا، اور باربار اس کی طرف توجہ دلائی گئی کہ آئین پاکستان کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا جائے۔ چنانچہ 7 مارچ 1949ء کو وزیر اعظم خان لیاقت علی خان نے قراردادمقاصد پیش کی اور ایک ایک شق کی وضاحت بھی کی۔