علامہ عثمانی کے پاکستان کے لیے بنیادی اصول

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

پاکستان کے لیے بنیادی اصول:

علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے پاکستان کی غرض و غایت کے چند بنیادی اصول مرتب کیے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
ساری ملت اسلامیہ متحد و یک جان ہو کر اپنی قدرت کی آخری حد تک وہ قوت فراہم کرے جس سے ابلیس کے لشکروں کے حوصلے پست ہو جائیں، ظاہر ہے کہ اس چیز کی تکمیل و انصرام موقوف ہے اس پر کہ ہماری سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان پہلے اپنے قیام کی اصلی غرض وغایت اور بنیادی اصول کو سمجھ لے جو ہمارے نزدیک حسب ذیل ہونے چاہییں:
1: اللہ تعالیٰ کو سارے ملک کا مالک اصلی اورحاکم حقیقی مانتے ہوئے اس کے نائب امین کی حیثیت سے اسی کی مقرر کردہ حدود کے اندر پوری مسؤلیت کے خیال کے ساتھ حکومت کا کاروبار چلانا۔
2: بلاتفریق مذہب و ملت و نسل وغیرہ تمام باشندگانِ پاکستان کے لیے امن وانصاف قائم کرنا اور دوسری اقوام کو بھی اس مقصد کی دعوت دینا۔
3: جملہ معاہدات کا احترام کرنا جو کسی دوسری قوم یا مملکت سے کیے گئے ہوں۔
4: غیر مسلم باشندگانِ پاکستان کے لیے جان ومال اور مذہب کی آزادی اور شہری حقوق کے تحفظ کے ساتھ مذہب اسلام کی حفاظت و تقویت کا بندوبست کرتے ہوئے مسلم قوم کو ان قوانین ِ الہیہ کا پابند بنانے کی انتہائی سعی کرنا جو مالک الملک نے ان کی فلاحِ دارین کے لیے نازل فرمائے ہیں۔
5: تمام باشندگانِ پاکستان کی انفرادی صلاحیتوں کی کامل حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے معاشی حالات میں مناسب اور معتدل توازن قائم کرنا اور بحد اِمکان کسی فرد کو بھی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ ہونے دینا۔
6: خصوصیت کے ساتھ ربا)سود(مسکرات )نشہ آور اشیاء(قمار )جوا(ہر قسم کے معاشرتی فواحش کے سدباب کی امکانی کوشش کرنا۔
7: قومی معاشرے کی بلند خیالی کے ساتھ ساتھ اسے صاف اور ستھرا بنانے کی ہرجائز کوشش کرنا۔
8: مغربی طرز کی پیچ در پیچ عدالتی بھول بھلیوں سے نکال کر عوام کے لیے امکانی حد تک سستا اور تیز انصاف حاصل کرنا۔
9: ان پاک اور بلند مقاصد کے لیے ایک ایک مسلمان کو بقدر ضرورت دینی و عسکری تربیت دے کر اسلام کا مجاہد اور پاکستان کا سپاہی بنا دینا۔
)بر موقع خطبہ ڈھاکہ، 10،9 فروری 1949ء(
جمہور مسلمانوں کا مطالبہ:
ایک موقع پر علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یاد رکھیے!مسلمان اب بیدار ہو چکا ہے، اس نے اپنی منزل مقصود معلوم کر لی ہےاور اپنا نصب العین خوب سمجھ لیا ہے، وہ اس راستہ میں جان و مال نثار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔ خوش قسمتی سے بہت سے علماء امت اور اکثر مشائخ طریقت نے مذہبی نقطہ نظر سے پاکستان کی حمایت و تائید کا بیڑا اٹھایا ہے اور وہ اپنے پیرووں )ماننے والوں (کو برابر یہ تلقین کر رہے ہیں کہ پاکستان اور مسلم لیگ کو کامیاب بنانے کی انتہائی سعی کریں اور کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لائیں کیونکہ اس وقت یہ مسلمانان ہند کی موت و حیات کا مسئلہ ہے۔
)ہمارا پاکستان، خطبہ صدارت، منعقدہ اسلامیہ کالج لاہور، 26 جنوری 1946(
ملی خود کشی کا معنی:
ایک دوسرے موقع پر علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہمارا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے اور ہم اسے زندگی اور موت کا سوال سمجھتے ہیں، ہمارا عقیدہ ہے کہ تقدیر نے ہمیں پاکستان کے تحفظ کے لیے انتخاب کیا ہےاور یہ چیز آئندہ نسلوں کو ورثہ میں ملے گی۔ امروز شاید ہمارا مذاق اڑایا جائے لیکن ہماری آنکھیں صبح فردا کے اس دلفریب خندہ کا نظارہ کر رہی ہیں جس کے پردہ سے ہماری کامرانیوں کا مہر منیر طلوع ہوگا۔ اس صبح کی نمود تک ہم نومیدیوں سے شب تار کو اپنی قربانیوں کے نور سے روشن رکھیں گے اور اسلام کے سچے فرزندوں کی طرح ہر مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں گے۔ دیگر اقوام عالم کی طرح ہمارے سامنے بھی خدمت خلق کا معین مقصد ہے اور وہ اس صورت میں پورا ہو سکتا ہے کہ ہم پاکستانی روح کو منزہ اور ملحوظ رکھیں۔
)ہمارا پاکستان، خطبہ صدارت، منعقدہ اسلامیہ کالج لاہور، 26 جنوری 1946(
علامہ عثمانی کے خطبہ عید سے چند اہم اقتباسات:
1949ء میں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے عیدالفطر کا خطبہ ارشاد فرمایا جس کے چند اہم اقتباسات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
1: ”یہ رحمت ایزدی کا کرشمہ ہے کہ ہم اغیار کے تسلط سے آزاد ہو گئے اور دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے مختار و کارفرما قرار پائے ۔اس حصول آزادی نے وہ تمام رکاوٹیں دور کر دیں جو کم از کم زندگی میں اجتماعی شعبوں میں ہماری راہ میں حائل تھیں جس پر چل کر ہم نہ صرف دنیائے اسلام کے سامنے بلکہ سارے عالم اسلام کے سامنے ایک معاشرہ اور ایک ایسی مثالی مملکت کا نمونہ پیش کر سکتے ہیں جس میں دجل وفریب کی جگہ صدق وصفا، بدعہدی اور خیانت کی جگہ پاس عہد و امانت، ہویٰ پرستی کی جگہ حق گوشی، ظن و تخمین کی جگہ ایمان و ایقان کی کارفرمائی ہو۔
جہاں اخلاقی انتشار و ہوس رانی کی جگہ ضبط نفس اور پاکیزگی کا دور دورہ، جہاں اقتصادی چیرہ دستیوں کی جگہ معاشی توازن ہو۔ جہاں زیردست بالادستوں کے ظلم و عدوان کے خوف سے مامون ہوں، جہاں مخلوق کی گردنیں مخلوق کی غلامی سے آزاد ہوں۔ جہاں نیکی کی قوتوں کو ابھرنے، پنپنے اور فروغ پانے کے لیے سازگار فضاء میسر آ سکے۔ جہاں بدی کے سرچشمے بے آب ہو کر خشک ہو جائیں۔ جہاں کا ہر وفادار باشندہ بلا لحاظ مذہب وملت بلاتفریق رنگ و نسل محسوس کرے کہ امن و آشتی، عدل و انصاف، آزادی ضمیر، احترام انسانیت، تحفظ جان و مال اور بقائے ننگ و ناموس کے لیے صفحہ ہستی پر اس سے بہتر خطہ میسر نہیں۔ “
2: ”پاکستان کی شکل میں ہمیں خطہ زمین اس جنت ارضی کی تعمیر و تشکیل اور فرائض منصبی کی انجام دہی کے لیے مل گیا جو ہم پر خیر الامم ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتے ہیں کہ ہم اچھائیوں کا حکم کریں اور برائیوں سے روکیں۔ “
3: ”حضور رحمۃ للعالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گنبد خضراء میں استراحت فرماتے ہوئے عالم اسلام پر نگاہ کرم دوڑاتے ہیں ………رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ادنیٰ غلام اور عاشق علامہ اقبال نے نغمہ ہندی کے ساتھ حجازی لَے میں پاکستان کی اسلامی مملکت کا تصور ملت کے سامنے پیش کیا۔ عالم روحانیت اور عاطر ملکوت سے پاکستان کی اسلامی سلطنت کا نقشہ رسول اللہ کی دعاؤں سے ملت اسلامیہ کے قلب پر نازل ہوا۔ “
4: ”انگریز اور ہندو کے ناپاک عزائم کو دیکھ کر کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ مسلمانوں کو استقلال اور آزادی حاصل ہو گی لیکن بارگاہ ایزدی سے پاکستان کی جلیل الشان مشرقی اور مغربی حکومتوں کے قیام کا فیصلہ ہو چکا تھا……مسٹر اٹیلی وزیر اعظم برطانیہ کو یہ معلوم نہ تھا کہ 14 اگست کو رمضان المبارک کا جمعۃ الوداع اور لیلۃ القدر ہے لیکن جو فیصلہ بارگاہ ایزدی میں ہو چکا تھا اس کے مطابق یہ دن جمعۃ الوداع کا مقدس دن تھا جس روز ملتِ اسلامیہ کو عید سے دو دن پہلے آزادی اور استقلال کی خداوندی نعمتیں عطاء ہوئیں۔ “
5: ”الحمدللہ! کہ پاکستان کی اسلامی مملکت قائم ہو چکی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کی مجلس دستور ساز میں قراردادمقاصد بھی منظور ہو چکی ہے کہ یہاں قرآن و سنت کے ماحول میں اسلامی نظام حیات جاری کیا جائے گا۔ پاکستان کے قیام کا حقیقی مقصد یہی تھا کہ ہمیں ایک ایسا خطہ ارضی مل جائے جہاں مسلم قوم کو قدرت حاصل ہو کہ وہ تمام و کمال اسلامی آئین و قوانین جاری کرے اور اللہ رسول کے دین کو غالب اور سربلند کرے۔ “
6: ”آسمانی قانون کے اجرا کی یہی برکت ہےکہ اس جرم کی سزا جرم کو روکتی ہے۔“
7: ”ہم نے سب کچھ جانتے اور سمجھتے ہوئے جداگانہ اسلامی قومیت اور حصول پاکستان کی مخلصانہ حمایت مذہبی نقطہ نظر سے حق اور صحیح سمجھ کر کی۔ “
8: ”قرآنی نظام اور دستور کی ترتیب سے پہلے یہ ضروری تھا اور ہے کہ محکمہ شریعت کا قیام عمل میں لایا جائے ویسے جب مکمل اسلامی نظام جاری ہو گا تو تمام وزارتیں ہی احکام دین کے مطابق کام کریں گی۔ لیکن اسلامی ماحول اور اسلامی فضاء تیار کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ مرکزی حکومت کے علاوہ پاکستان کے ہر صوبہ میں محکمہ امور مذہبی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اسلامی اوقاف، تنظیم زکوٰۃ، معارف اسلامیہ، تبلیغ و اشاعت دین، مبلغین اسلام کی تعلیم و تربیت ……نومسلموں کی آبادی کا قیام، اندھے اور اپاہجوں کے لیے محتاج خانوں کا قیام، مساجد کی تنظیم، ائمہ مساجد کی تربیت، خطبات جمعہ کی ترتیب اور وحدت، ریڈیو پر درس قرآن اور تبلیغ اسلام، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، تہذیب و معاشرت اسلامی کا اجراء، دینی مدارس کی نگرانی، مسلمانوں کے لیے قرآن مجید اور عربی زبان کی جبری اور لازمی تعلیم، نکاح، طلاق،وراثت کے شرعی قوانین کا نفاذ، ممالک یورپ میں اسلام کے تبلیغی مشنوں کا قیام، حاجیوں کے سفر حج کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ آسانیاں بہم پہنچانا، حج کے لیے بری، بحری اور ہوائی سروسوں کا جدید ترین نظام، پاکستان ؛ممالک خارجہ کے تمام سفارت خانوں میں اسلامی ثقافت، دینی تبلیغ اور بہترین اسلامی لٹریچر تیار کرنے کے لیے ماہرین اسلامیات کا سرکاری تقرر اور ساتھ ہی ممالک اسلامیہ میں اسلامی اخوت اور اتحاد کے رشتوں کو مضبوط بنانےکے لیے اسلامی وفود کی ترسیل اور مسلمانوں کو ارکان اسلام نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور جہاد کی عام تبلیغ اور تلقین، ملت میں مسلسل تبلیغ دین سے ایک ایسا اسلامی ماحول تیار کرناجہاں دین اسلام کی پابندی میں ملت کا متمول اور دولت مند طبقہ بھی فخر محسوس کرے۔ پاکستان کے مسلمانوں کو جو کچھ حاصل ہوا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیضان ہے “
9: ”آج عیدالفطر کے مبارک دن آپ کے قلوب نور ایمان سے لبریز اور اسلامی مسرتوں سے معمور نظر آ رہے ہیں لیکن آج کے مقدس دن ہم کشمیر کے مسئلہ کو فراموش نہیں کر سکتے۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ یہ نازک مسئلہ ناخن تدبیر سے سلجھ جائے لیکن اگر گرہ آسانی سے نہ کھلے تو پھر اسے کھینچ کھینچ کر توڑ دیا جائے۔ تالا اگر چابی سے نہ کھلے تو پھر ہتھوڑے سے اسے توڑنا ہی پڑتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ عالم اسلام کا مسئلہ ہے اگر ضرورت پیش آئے اور استصواب رائے میں رکاوٹیں پیدا کی جائیں تو پھر آخری صورت جہاد ہی کی ہے۔ ہمیں ہر قیمت پر کشمیر کو اسلام اور پاکستان کے لیے حاصل کرنا ہے، ملت پاکستانیہ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان مکمل نہیں ہے۔ “
10: ”آج عید کے دن ہم مہاجرین کی امداد اور بحالی کو بھی سب سے بڑی اور اہم ضرورت خیال کرتے ہیں، حکومت پاکستان کے علاوہ ہر ذی استطاعت مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنی دولت و ثروت میں مہاجرین کو بھی شامل کرے۔ ہر غریب اور مہاجر کے لیے رہنے کو گھر، کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑا مہیا کرنا ہماری حکومت کا جہاں فرض ہے وہاں ہماری ملت کے متمول طبقے کا اسلامی فرض ہے کہ مہاجرین کی آباد کاری ان کی نوآبادیاں قائم کرنے، مکانات تعمیر کرنے اور دیگر ضروریات زندگی میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے، صدقہ فطر، زکوٰۃ اور صدقات کا نظام اسی لیے قائم کیا گیا تھا کہ ملت کے تمام طبقات میں زندگی کے معیار کا توازن قائم کیا جائے۔ دولت کی غلط تقسیم ہی سے کیمونزم اور دوسری ملحدانہ تحریکیں فروغ حاصل کرتی ہیں ……اس موقع پر یہ بات بالکل فراموش نہ کیجیے کہ آج دنیا میں معاشی اختلال اور اقتصادی عدم توازن کی وجہ سے ملحدانہ اشتراکیت کا سیلاب ہر طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے اس کا صحیح اور اصولی مقابلہ اگر دنیا میں کوئی نظام کر سکتا ہے تو وہ اسلام کا اقتصادی نظام ہے۔ اگر پاکستان عالم اسلام کو اس بھیانک خطرے سے بچانا چاہتا ہے تو اس کی واحد صورت یہ ہے کہ پاکستان میں صحیح اسلامی نظام کا نفاذ عمل میں لائیں۔ “
)خطبات عثمانی، خطبہ عیدالفطر 1949ء ص 279 تا 292(