تاریخ نویسوں سے شکوہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تاریخ نویسوں سے شکوہ:
پاکستان کے تاریخ نویسوں کا حافظہ کمزوری کا شکار نہ ہوتا تو وہ علامہ شبیر احمد عثمانی کی ملکی، قومی اور آئینی خدمات کو کبھی فراموش نہ کرتے۔ افسوس صد افسوس!کہ اس عظیم شخصیت کو جس کی محنت اور اخلاص نے پاکستان کے خاکے میں مذہب اور تقدس کا رنگ بھر قوم کے حوالے کیا، بانیان پاکستان کے شانہ بشانہ تعمیر وطن میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اگر علامہ شبیر احمد عثمانی مسلم لیگ کی حمایت نہ کرتے اورقائد اعظم کے دست راست نہ بنتے تو برصغیر کے مسلمان اسے تحریک ضرور سمجھتے مگر نظریاتی تحریک کبھی نہ سمجھتے ۔
تعلیماتِ اسلامی بورڈ:
قراردادمقاصد کے پاس ہوجانے کے بعد پاکستان کا دستور کتاب وسنت کے مطابق بنانا اصولاً لازمی ہو گیا تھا اس عظیم کام کے لیے ظاہر ہے کہ نہایت ذہین، معاملہ فہم، زیرک، ماہر اورسکہ بند علماء کی ضرورت تھی۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کی تجویز پر ایک بورڈ تشکیل دیا گیا اور اس کی صدارت کے لیے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز علامہ سید سلیمان ندوی کا نام تجویز ہوا۔ سید صاحب اس وقت بھوپال میں قاضی القضاۃ کے عہدہ پر فائز تھے۔
وزیر اعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خان نے سید صاحب کو بلانے کے لیے خطوط روانہ فرمائے، کافی کوششوں کے باوجود جب سید صاحب برابر عذر ہی پیش فرماتے رہے تو بالآخر نواب زادہ لیاقت علی خان نے مولانا احتشام الحق تھانوی رحمہ اللہ کو بھوپال اس غرض سے روانہ کیا کہ وہ سید صاحب کو لے آئیں۔ انہوں نے سید صاحب کو تمام ملکی و ملی حالات سے باخبر کیا اور حکومت کی نیک نیتی کا یقین دلایا۔نیر تعلیمات اسلامی بورڈ کی صدارت اور دستور اسلامی میں تعاون پر آمادہ کیا چنانچہ جون 1950ء میں سیدصاحب پاکستان تشریف لے آئے۔ یہ بورڈ سید سلیمان ندوی، مفتی محمد شفیع دیوبندی، ڈاکٹر محمد حمیداللہ وغیرہ چھ افراد پر مشمتل تھا۔
بورڈ 9 اگست 1949ء سے اپریل 1954ء تک تقریباً ساڑھے چار سال تک نہایت محنت سے دستور پاکستان کے لیے سفارشات پیش کرتا رہا۔ جس کی جھلک 1956 ء اور 1973ء کے آئین میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اسکندر مرزا اور قاری محمد طیب قاسمی:
علماء نے بہت زیادہ محنت کی کہ کسی طرح سے اسلامی آئینی بل منظور ہوجائے لیکن یہ کام ٹال مٹول کا شکار ہوتا رہا۔ میجر جنرل اسکندر ابتداءً اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ مذہب اور سیاست کو جدا جدا سمجھتے تھے۔
1955ء میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب قاسمی رحمہ اللہ کراچی پاکستان تشریف لائے اورحسن اتفاق سے ایک عشائیہ کی تقریب میں سے اسکندر مرزا سے ملاقات ہوئی ۔ موصوف نے اسلامی آئین کے بارے میں اپنے شبہات ان کے سامنے پیش کیے۔ حضرت قاری صاحب نے ان کے ہر شبہہ کاایسامدلل اورحکیمانہ جواب دیاکہ اسکندر مر ز ا بے ساختہ کہہ اٹھے: ’’اگرواقعی اسلام کے بنیادی اصول یہ ہیں توانہیں ہم ہرقیمت پر منظور اور نافذ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ‘‘
آئینی بل کی منظوری:
29 فروری 1956ء کو رات ٹھیک 11:59 پرآئینی بل منظور کر لیا گیا اور 2مارچ 1956ء کواسکندر مرزا نے ایک شاندارتقریب میں آئینی بل پردستخط کرکے اسے قانونی شکل دے دی۔ اور میجر صاحب کی شاندار خدمات پاکستان کے اعترف میں انہیں بلا مقابلہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔
مفتی اعظم پاکستان کا اعلان:
2مارچ 1956ء کو آئینی بل پر میجر جنرل اسکندر مرزا کی دستخط کی تقریب کے کچھ ہی دیر بعد مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع دیوبندی قائم مقام صدر جمعیت علمائے اسلام نے ریڈیو پاکستان کراچی سے مندرجہ ذیل بیان جاری کیا:
’’پاکستان بنے تقریباً 9 سال ہو چکے ہیں، اس عرصہ میں اس نومولود مملکت نے اپنے تعمیری منصوبوں کے بہت سے شعبوں میں ایک حد تک ترقی بھی کی لیکن ایک بنیادی خلا ایسا تھا جو اس ملک کو طرح طرح کے فتنوں کی آماجگاہ بنائے ہوئے تھا اور بیرونی دنیا میں ہمارا وزن بہت ہلکا کیے ہوئے تھا۔
دستور سازی میں اتنی طویل مدت کیوں صرف ہوئی یہ ایک ایسی داستان ہے جسے دہرانا لاحاصل ہے بہر حال ہر چیز کا یک وقت متعین ہوتا ہے۔ اللہ جل شانہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج وہ یوم سعید بھی آن پہنچا کہ سالہا سال سے اختلافات کے بھنور میں پھنسا ہوا یہ سفینہ نہ صرف گرداب سے باہر نکل آیا بلکہ ساحلِ مراد تک جا پہنچا۔
پاکستان کے لوگ اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں، کم ہے کہ اس کے فضل و کرم سے اس ملک کو طویل انتظار کے بعد ایسا دستور میسر آیا جسے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں قیام پاکستان کے بنیادی مقاصد، عامۃ المسلمین کی آرزوؤں اور اسلام کے اہم تقاضوں کی خاص رعایت موجود ہے ……اللہ تعالیٰ عوام اور خواص سب کو توفیق عطاء فرمائے کہ ان ذمہ داریوں کو محسوس کریں جو آج کے دن بالخصوص ہمارے اوپر عائد ہوتی ہیں اور پورے اخلاص کے ساتھ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر گوشہ کو اسلام کے تقاضوں کے مطابق استوار کرنے کی سعی کریں۔
پاکستان کاوجود اللہ کاایک بہت بڑا انعام ہے اوراس کایہ دستورایک مستقل انعام۔ہم سب کو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ارکان دستوریہ خصوصاً وزیر اعظم جن کی شبانہ روز محنتوں اور کاوشوں کے نتیجہ میں یہ دستور مکمل ہوا، وہ مستحق شکر اور لائق تحسین ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان حضرات کو دنیا و آخرت میں جزاء خیر عطاء فرمائیں اور اس کی توفیق دیں کہ دستور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس سرگرمی کےساتھ کام کریں جس انہماک کے ساتھ گزشتہ چند ماہ کے دوران دستور کی ترتیب کا کام انجام دیا گیا۔‘‘
)تعمیر پاکستان، ص۔ 234(