عقیدہ 2

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عقیدہ 2:
متن:
وَلَا شَىْءَ مِثْلُهُ.
ترجمہ: کوئی چیز اس کی مثل نہیں۔
شرح:
اس مقام پر دو اشکال پید ا ہوتے ہیں:
اول․․․ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی مثال بیان کرنے سے منع کیا گیا ہے ، ارشاد ہے :
﴿ فَلَا تَضْرِبُوْا لِلهِ الْاَمْثَالَ﴾.
(النحل: 74)
کہ اللہ تعالیٰ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو لیکن دوسری جانب اللہ تعالیٰ نے خود اپنی مثال یوں بیان کی ہے :
﴿اَللّهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِهِ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ﴾
(النور : 35)
ترجمہ: اللہ آسمانوں ا ور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسے ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ رکھا ہو۔
تو بظاہر دونوں آیتوں میں تعارض ہے ۔
دوم․․․ اھل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے نور کی مثل کا بیان تو قرآن مجید میں موجود ہے ۔ پتا چلا کہ مثل تو موجود ہے۔
حل اشکال:
اول․․․ قرآن مجید میں جو فرمایا گیا کہ
﴿ فَلَا تَضْرِبُوْا لِلهِ
الْاَمْثَالَ﴾
تو اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے گھٹیا قسم کی مثالیں بیان نہ کیا کرو ۔ جیسے مشرکین اپنے خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرنے کے لیے دلیل یہ بیان کرتے تھے کہ
﴿مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّهِ زُلْفٰى﴾
کہ جس طرح کسی بڑے تک پہنچنے کے لیے کسی چھوٹے کا واسطہ ضروری ہے اسی طرح اللہ تک پہنچنے کے لیے ہم ان معبودوں کا واسطہ لیتے ہیں ۔ تو ایسی مثالیں بیان کرنے والوں کو فرمایا گیا کہ یہ گھٹیا مثالیں بیان نہ کرو۔
دوم․․․یہاں دو باتیں الگ الگ ہیں؛ایک ہے اللہ تعالیٰ کی صفات جیسی کسی اور کی صفات ہو نا اور دوسرا ہے اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھانے کے لیے مثال دینا ۔ اھل السنۃ والجماعۃ کا جو عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوقات کی مشابہات سے پاک ہے، کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات جیسی نہیں ہے، اور جو قرآن میں مثال بیان ہوئی ہے تو اس سے مراد یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا نور حقیقۃ ًطاق میں رکھے ایک چراغ کی طرح ہے بلکہ محض سمجھانے کے لیے یہ مثال دی گئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی صفات جیسی صفت ہونا اور چیز ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھانے کے لیے مثال دینا اور چیز ہے۔ دونوں میں کوئی تعارض نہیں ۔
فائدہ: حکیم الامت حضرت مولا نا اشرف علی تھانوی (ت 1362ھ) کایہ فرمان اس بات کو سمجھنے کے لیے بہت مفید ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی نہیں لیکن سمجھانے کے لیے مثال دی جا سکتی ہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”مثلاً جو دو کاغذ گوند سے چپکا دیے گئے ہیں وہ ایک دوسرے سے اتنے قریب نہیں بلکہ گوند جو کہ واسطہ ہے وہ زیادہ قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ مثال سے پاک ہیں لیکن آخر میں تمہیں کس طرح سمجھاؤں، پس جب اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمہاری ہستی کے درمیان واسطہ ہیں تو وہ ہستی سے زیادہ قریب ہوئے۔ اور یہی حاصل تھا تمہارے ساتھ بنسبت تمہاری جان ہونے کا۔ پس تم سے اتنے قریب ہوئے جتنے کہ خود تم بھی اپنے قریب نہیں جیسا کہ گوند کی مثال میں سمجھایا گیا۔ یہ بہت موٹی بات ہے کہ کوئی قیل و قال کی گنجائش نہیں۔“
(خطباتِ حکیم الامت: ج17 ص431 عنوان: اقربیت کا مفہوم)