عقیدہ 12

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عقیدہ 12:
متن:
مُمِيْتٌ بِلَا مَخَافَةٍ، بَاعِثٌ بِلَا مَشَقَّةٍ.
ترجمہ: بے خوف وخطر موت دینے والا ہے، بغیر کسی مشقت کے (قیامت کے دن) اٹھانے والا ہے۔
شرح:
یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی کو موت دیتے ہیں تو یہ خوف نہیں ہوتا کہ جس کو موت دے رہا ہوں وہ میرا نقصان کر سکتا ہے یا اس کے عزیز و اقارب مجھ سے بدلہ لے سکتے ہیں بلکہ بغیر کسی خوف کے موت دیتا ہے ، کیونکہ خوف ہونا عجز کی دلیل ہے اور اللہ تعالیٰ قادر مطلق اور عجز سے پاک ذات ہے ۔
نیز اللہ تعالیٰ حشر کے دن جب اٹھائیں گے تو بغیر مشقت کے اٹھائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ :
﴿اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ﴾
(یٰسین : 82)
ترجمہ:اس کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اتنا کہتا ہے: ہو جا! بس وہ ہو جاتی ہے ۔
اس لیے اللہ تعالیٰ کو کوئی مشقت نہیں ہو گی ۔
امام طحاوی علیہ الرحمۃ نے
”بَاعِثٌ بِلَا مَشَقَّةٍ“
(بغیر مشقت کے اٹھانے والا) فرمایا ،
”مُحْیٍ بِلَا مَشَقَّةٍ“
( بغیر مشقت کے زندہ کرنے والا ) نہیں فرمایا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب موت آتی ہے تو اس کے بعد قبر میں حیات مل جاتی ہے، پھر حشر کو دوبارہ حیات نہیں ملتی بلکہ اس وقت بعث ہو گی ۔ اس لیے قیامت کے دن اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ قبر میں زندہ تھے مگر وہ حیات ظاہری نہ تھی اور اب اسی زندگی کے ظہور کے ساتھ میدان محشر میں جمع ہو گئے ہیں۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ قبر کی حیات نظر نہ آنے والی مخفی حیات ہوتی ہے، نہ آنکھ سے نظر آتی ہے اور نہ ہاتھ لگانے سے محسوس ہوتی ہے اس لیے بعض مرتبہ اس بعث کو لفظ ”احیاء“ سے بھی تعبیر کر دیتے ہیں اور اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ قبر میں حیات مخفی تھی اور نظر نہیں آ رہی تھی لیکن اب بعث کے بعد حیات ظاہراً ہے اور نظر آ رہی ہے۔ اس لیے لفظ ”احیاء“ سے قبر کی حیات کی نفی ہرگز نہیں ہوتی ۔