عقیدہ 33

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قرآن کریم
عقیدہ 33:
متن:
وَإِنَّ الْقُرْآنَ كَلَامُ اللهِ مِنْهُ بَدَأَ بِلَا كَيْفِيَّةٍ قَوْلًا وَأَنْزَلَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَحْيًا وَصَدَّقَهُ الْمُؤْمِنُوْنَ عَلٰى ذٰلِكَ حَقًّا وَأَيْقَنُوْا أَنَّهٗ كَلَامُ اللهِ تَعَالٰى بِالْحَقِيْقَةِ لَيْسَ بِمَخْلُوْقٍ كَكَلَامِ الْبَرِيَّةِ فَمَنْ سَمِعَهٗ فَزَعَمَ أَنَّهٗ كَلَامُ الْبَشَرِ فَقَدْ كَفَرَ وَقَدْ ذَمَّهُ اللهُ وَعَابَهٗ وَأَوْعَدَهٗ بِسَقَرَ حَيْثُ قَالَ تَعَالٰى : ﴿سَاُصْلِيْهِ سَقَرَ﴾ فَلَمَّا أَوْعَدَ اللهُ بِسَقَرَ لِمَنْ قَالَ: "اِنْ هٰذَا اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ" عَلِمْنَا وَأَيْقَنَّا أَنَّهٗ قَوْلُ خَالِقِ الْبَشَرِ وَلَا يُشْبِهُ قَوْلَ الْبَشَرِ.
ترجمہ: اور (ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ ) قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اللہ تعالیٰ سے اس کا ظہور بغیر کسی کیفیت کے قول کی شکل میں ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے وحی کی شکل میں اسے اپنے نبی پر نازل فرمایا ہے اور مؤمنین نے حق سمجھ کر اس کی تصدیق کی ہے اور اس بات پر یقین کیا ہے کہ یہ حقیقتاً اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، انسانوں کے کلام کی طرح مخلوق نہیں۔ جس شخص نے اس کلام کو سنا اور یہ عقیدہ بنا لیا کہ یہ کسی انسان کاکلام ہے تو ایسا شخص کافر ہے، اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کی مذمت اور برائی بیان کی ہے اور اسے جہنم کی وعید سنائی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”عنقریب میں اس شخص کو جہنم رسید کروں گا۔“ جب اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو جہنم کی وعید سنائی جس نے یہ کہا تھا کہ ”یہ تو کسی انسان کا ہی کلام ہے“ تو ہمیں یہ معلوم ہو گیا اور ہم نے اس بات کا یقین کر لیا کہ یہ خالقِ بشر کا کلام ہے اور بشر کے کلام کی طرح نہیں ہے۔
شرح:
اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کیفیات سے پاک ہیں۔ امام ابو بكر احمد بن الحسین بن علی بن موسىٰ البیہقی (ت458ھ) فرماتے ہیں:
فَاِنَّ الَّذِیْ یَجِبُ عَلَیْنَا وَعَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ اَنْ یَّعْلَمَہٗ: أَنَّ رَبَّنَا لَیْسَ بِذِیْ صُوْرَۃٍ وَلَا ھَیْئَۃٍ فَاِنَّ الصُّوْرَۃَ تَقْتَضِی الْکَیْفِیَّۃَ وَھِیَ عَنِ اللّٰہِ وَعَنْ صِفَاتِہٖ مَنْفِیَّۃٌ․
(کتاب الاسماء والصفات : ج 2ص21، باب ما ذکر فی الصورۃ)
ترجمہ: ہم تمام مسلمانوں کے لیے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ ہمارا رب صورت اور ہیئت سے پاک ہے کیونکہ صورت کیفیت کا تقاضا کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کیفیات سے پاک ہیں۔
اس لیے ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام اور صفت ہے اور بغیر کسی کیفیت سے اللہ تعالیٰ سے اس کا ظہور ہوا ہے۔
سوال: امام مالک بن انس المدنی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا:
كَيْفَ اسْتَوَى؟
کہ استویٰ علی العرش کی کیفیت کیا ہے؟
تو انہوں نے فرمایا:
اَلاِسْتِوَائُ مَعْلُوْمٌ وَالْکَیْفُ مَجْہُوْلٌ وَالْاِیْمَانُ بِہٖ وَاجِبٌ وَالسُّوَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ.
(شرح العقیدۃ الطحاویہ لابن ابی العز: ج 1ص188)
ترجمہ:استواء معلوم ہے، کیفیت مجہول ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔
استواء کی کیفیت کو مجہول قرار دینا دلیل ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بھی صفات باری تعالیٰ کی کیفیات کے قائل ہیں۔
جواب: یہ مقولہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے با سند صحیح ثابت ہی نہیں۔
(التعلیق علی کتاب الاسماء والصفات: ج2ص151)
اس کے برعکس امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے سند جید کے ساتھ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا صحیح قول نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن وھب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے کہنے لگا:

یَا اَبَا عَبْدِاللّٰہِ ! اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَیٰ ‘کَیْفَ اسْتِوَائُ ہٗ؟ اے ابوعبداللہ!رحمٰن عرش پر مستوی ہے ‘ اس کا استواء کیسے ہے؟ ابن وہب فرماتے ہیں کہ امام مالک نے سر جھکا لیا اور آپ کو پسینہ آگیا۔ پھر آپ نے سراٹھایا اور فرمایا:

اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَیٰ کَمَا وَصَفَ نَفْسَہٗ ‘لَا یُقَالُ کَیْفَ؟ وَکَیْفَ عَنْہٗ مَرْفُوْعٌ․
رحمٰن عرش پر مستوی ہے جیسا کہ اس نے خود بیان کیاہے ‘یہ نہ کہا جائے کہ کیسے؟(یعنی کیفیت کی نفی کی جائے)اور اللہ سے کیفیت مرفوع ہے(یعنی کیفیت کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں بولا جاتا)
(کتا ب الاسماء والصفات: ج2ص150، فتح الباری : ج13ص498 )
اسی طرح امام ابوبکر بیہقی اور علامہ ابن حجر عسقلانی نے ولید بن مسلم کے طریق سے نقل کیاہے کہ امام اوزاعی‘امام مالک ‘امام سفیان ثوری اور امام لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہم سے ان احادیث سے متعلق سوال کیا گیا جن میں اللہ کی صفات کا بیان ہے تو ان سب نے فرمایا:
اَمِرُّ وْھَاکَمَا جَائَ تْ بِلَاکَیْفِیَّۃٍ․
ترجمہ:یہ احادیث جیسے آ ئی ہیں ویسے بیان کرو کیفیت کے بغیر۔
(کتاب الاسماء والصفات: ج2 ص198،فتح الباری لابن حجر ج13 ص498 )
تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے مروی درج بالاروایات میں’’ کیف ‘‘کی باقاعدہ نفی ہے۔
فائدہ: قرآن کریم کے حقوق
قرآن کریم کے تین حقوق ہیں: پڑھنا، سمجھنا اور عمل کرنا
(1): قرآن کریم کو پڑھنا
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا﴾.
(المزمل:4 )
ترجمہ: اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو!
عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهٗ قَالَ: "اِقْرَءُوا الْقُرْآنَ بِلُحُوْنِ الْعَرَبِ وَأَصْوَاتِهَا وَإِيَّاكُمْ وَلُحُوْنَ أَهْلِ الْفِسْقِ وَأَهْلِ الْكِتَابَيْنِ فَإِنَّهٗ سَيَجِيءُ مِنْ بَعْدِيْ قَوْمٌ يُرَجِّعُوْنَ بِالْقُرْآنِ تَرْجِيْعَ الْغِنَاءِ وَالرَّهْبَانِيَّةِ وَالنَّوْحِ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ مَفْتُوْنَةٌ قُلُوْبُهُمْ وَقُلُوْبُ مَنْ يُعْجِبُهُمْ شَأْنُهُمْ․
(شعب الایمان للبیہقی : ج4 ص208 فصل فی ترک التعمق فی القرآن)
ترجمہ: حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجید کو عربوں کے لہجوں اور ان کی آواز میں پڑھا کرو اور فاسق لوگوں اور اہل کتاب کے لہجوں سے بچو کیونکہ میرے بعد کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو گویوں،گوشہ نشین راہبوں اور ماتم کرنے والوں کی طرح قرآن کو گا گا کر پڑھیں گے لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔ ان گویوں اور ان کی گائیکی سے متاثر ہونے والوں کے دل فتنوں سے لبریز ہوں گے۔
اس لیے قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر ، خوش الحانی اور آداب کی رعایت کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ چند آداب یہ ہیں:
۱: تلاوت کرنے کےلئے وضوکا ہونا مستحب اور چھونے کےلئے وضو کا ہونا ضروری ہے۔
۲: قرآن مجید کی تعظیم کے خیا ل سے مسواک کرنا ۔
۳: پاک اور صاف جگہ پر بیٹھ کر تلاوت کرنا۔
۴: تعوذ پڑھنا۔
۵: تسمیہ پڑھنا۔
۶: ترتیل و تجوید کے ساتھ پڑھنا۔
۷: خوش آوازی اور لب ولہجہ کی درستگی کے ساتھ پڑھنا ۔
۸: قرآن مجید رو کر پڑھنا ، اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کیفیت بنالینا ۔
۹: تلاوت کرتے ہوئے معانی پر غور کرنا۔
۱۰: یہ تصور کرنا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے مخاطب ہیں۔
(2): قرآن کریم کو سمجھنا
قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے تین شرائط ہیں:
1: عربی زبان محاوراتِ عرب کے ساتھ آتی ہو جو کہ عربی ادب کے ساتھ آئے گی۔
 عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ حتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ قَالَ لَهٗ عَدِيٌّ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّيْ أَجْعَلُ تَحْتَ وِسَادَتِيْ عِقَالَيْنِ عِقَالًا أَبْيَضَ وَعِقَالًا أَسْوَدَ أَعْرِفُ اللَّيْلَ مِنْ النَّهَارِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ وِسَادَتَكَ لَعَرِيْضٌ إِنَّمَا هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ"․
(صحیح مسلم:ج1 ص349 باب بيان ان الدخول فی الصوم يحصل بطلوع الفجر ا لخ)
ترجمہ: حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب قرآن کی یہ آیت اتری:
﴿حتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ﴾
کہ رمضان میں کھایا پیا کروجب تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے جدا نہ ہو، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے اونٹ کی ایک رسی سیاہ اور دوسری سفید اپنے تکیے کے نیچے رکھی تاکہ اس کے ذریعے رات اور دن میں امتیاز کر لوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کا تکیہ تو بہت لمبا چوڑا ہے۔ (یعنی آپ نے سمجھا نہیں، قرآن کا مطلب سیاہ اور سفید ڈورے سے رات کی سیاہی اور دن کی سفیدی ہے)
2: قرآنی آیات کا پسِ منظر ، شانِ نزول، Background معلوم ہو جو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آئے گا۔
 عَنْ أَسْلَمَ أَبِىْ عِمْرَانَ قَالَ : غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيْدُ الْقُسْطَنْطِيْنِيَّةَ وَعَلَى الْجَمَاعَةِ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيْدِ وَالرُّوْمُ مُلْصِقُوْ ظُهُوْرِهِمْ بِحَائِطِ الْمَدِيْنَةِ فَحَمَلَ رَجُلٌ عَلَى الْعَدُوِّ فَقَالَ النَّاسُ : مَهْ مَهْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ يُلْقِىْ بِيَدَيْهِ إِلَى التَّهْلُكَةِ. فَقَالَ أَبُوْ أَيُّوْبَ : إِنَّمَا نَزَلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ فِيْنَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ لَمَّا نَصَرَ اللّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَظْهَرَ الْإِسْلَامَ قُلْنَا : هَلُمَّ نُقِيْمُ فِىْ أَمْوَالِنَا وَنُصْلِحُهَا فَأَنْزَلَ اللّهُ تَعَالٰى ﴿وَاَنْفِقُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ﴾ فَالْإِلْقَاءُ بِالْأَيْدِىْ إِلَى التَّهْلُكَةِ أَنْ نُقِيْمَ فِىْ أَمْوَالِنَا وَنُصْلِحَهَا وَنَدَعَ الْجِهَادَ.
(سنن ابی داؤد: ج1 ص340باب فى قولہ تعالىٰ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ)
ترجمہ: حضرت اسلم ابی عمران فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ منورہ سے قسطنطنیہ پر حملے کے لئے روانہ ہوئے۔ ہمارے امیر لشکر حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔ (لڑائی کے وقت )رومی لشکر اپنے شہر کی دیوار سے چپکا ہوا تھا ۔ مسلمانوں میں سے ایک مجاہد نے دشمنوں پر(تنہا)حملہ کردیا۔ یہ دیکھ کر لوگ شور کرنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ شخص اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے (حالانکہ قرآن مجید میں تو آیا ہے
﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ﴾
کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ آیت تو ہم انصار کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی اور اسلام کو غالب فرمادیا تو ہم نے کہا کہ ہم کچھ عرصہ اپنے مال اور کاروبار کی اصلاح کے لئے گھروں میں رک جاتے ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں بتادیا گیا کہ ہاتھوں سے خود کو ہلاک کرنا یہ ہے کہ ہم جہاد چھوڑکر اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں اور اپنے اموال کی اصلاح کرتے رہیں ۔
3: مرادِ خداوندی معلوم ہو جو کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و سلم سے آئے گی۔
 عَنْ عَبْدِ اللّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ﴿اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ﴾ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللّهِ! أَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ قَالَ لَيْسَ كَمَا تَقُوْلُوْنَ {لَمْ يَلْبِسُوْا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ} بِشِرْكٍ أَوَلَمْ تَسْمَعُوْا إِلٰى قَوْلِ لُقْمَانَ لِابْنِهٖ ﴿يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ﴾
(صحیح البخاری: ج1 ص474 باب قول الله تعالى وَاتَّخَذَ اللهُ اِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلًا)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب آیت کریمہ
﴿اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ﴾
کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ مخلوط نہیں کیا، نازل ہوئی تو ہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں ایسا کون ہے جس نے اپنے اوپر (گناہ کر کے) ظلم نہیں کیا؟ فرمایا یہ بات تمہارے خیال کے مطابق نہیں ہے بلکہ
"لَمْ يَلْبِسُوْا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ"
میں ظلم سے مراد شرک ہے۔ کیا تم لوگوں نے حضرت لقمان کی بات جو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہی تھی نہیں سنی کہ اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
(3): قرآن کریم پر عمل کرنا
قرآن کریم پڑھنے اور سمجھنے سے مقصود اس پر عمل کرناہے۔ قرآن کریم پر عمل کرنے کے لئے شیخ طریقت کی رہنمائی ضروری ہے۔ شیخ طریقت کی صحبت اور قلبی توجہات سے انسان میں عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور شریعت پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔