عقیدہ 80

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ثواب وعذابِ قبر اور قبر میں سوال
عقیدہ 80:
متن:
وَبِعَذَابِ الْقَبْرِ لِمَنْ كَانَ لَهٗ أَهْلًا وَسُؤَالِ مُنْكَرٍ وَنَكِيْرٍ فِيْ قَبْرِهٖ عَنْ رَبِّهٖ وَدِيْنِهٖ وَنَبِيِّهٖ عَلٰى مَا جَاءَتْ بِهِ الْأَخْبَارُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ وَعَنِ الصَّحَابَةِ رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِیْنَ.
ترجمہ: ہم قبر کے عذاب کو اس شخص کے لیے مانتے ہیں جو عذاب کا مستحق ہو اور منکر نکیر کے ان سوالوں کو بھی مانتے ہیں جو وہ مردے سے قبر میں اس کے رب، اس کے دین اور اس کے نبی کے بارے میں کریں گے جیسا کہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے منقول ہے۔
شرح:
موت کے بعد قیامت سے پہلے قبر اور برزخ میں مردہ کے جسم سے روح کا اتنا تعلق قائم کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ منکر نکیر کے سوالات کے جوابات دیتا ہے۔ اس کے بعد اگر مؤمن ہو تو ثواب اور کافر ہو تو عذاب کو محسوس کرتا ہے۔ یہ عقیدہ قرآن کریم کی دس آیات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ستر احادیث سے ثابت ہے جس میں کسی مسلمان کو شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔
چند آیات اور احادیث ملاحظہ ہوں:
(1): اللہ تعالیٰ کاا رشاد ہے:
﴿يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ﴾․
(ابراہیم: 27)
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ہیں اللہ ان کو اس مضبوط بات (یعنی کلمہ ایمان) کے ذریعے دنیا کی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت کی زندگی میں بھی۔
اس آیت کی تفسیر میں امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث نقل کی ہے:
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ﴿يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾ قَالَ : نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ ، فَيُقَالُ لَهُ : مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ :رَبِّيَ اللَّهُ، وَنَبِيِّي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَذٰلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ﴾.
(صحیح مسلم: ج2 ص386 کتاب التوبۃ ․ باب عرض مقعد المیت الخ)
ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت "يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ" کے متعلق فرمایا کہ یہ آیت عذاب قبر کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (میت کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو) اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی محمد صلى الله علیہ وسلم ہیں۔ (رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا) اللہ تعالیٰ کے فرمان
"يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ"
کا یہی مطلب ہے۔
(2): اللہ تعالیٰ کاا رشاد ہے:
﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾․
(المؤمن:46)
ترجمہ: آگ ہے جس کے سامنے انہیں (آل فرعون کو) صبح وشام پیش کیا جاتا ہے اور جس دن قیامت قائم ہوگی ( اس دن حکم ہوگا کہ) فرعون کے لوگوں کو سخت عذاب میں داخل کردو۔
فرعونی لوگ اب قبر میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں جہنم کی آگ میں داخل ہونے سے پہلے صبح شام آگ پر پیش کیا جانا دلیل ہے کہ انہیں قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔ حافظ عماد الدین اسماعیل بن خطیب بن کثیر شافعی (ت774ھ) اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
وَهٰذِهِ الْآيَةُ أَصْلٌ كَبِيْرٌ فِي اسْتِدْلَالِ أَهْلِ السُّنَّةِ عَلٰى عَذَابِ الْبَرْزَخِ فِي الْقُبُوْرِ وَهِيَ قَوْلُهٗ﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّعَشِيًّا﴾
(تفسیر ابن کثیر: ج5 ص451)
ترجمہ: یہ آیت
﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّعَشِيًّا﴾
اہل السنت کے اس موقف کی بہت بڑی دلیل ہے کہ قبروں میں عذاب برزخی ہو رہا ہے۔
(3): عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهَا أَنَّ يَهُوْدِيَّةً دَخَلَتْ عَلَيْهَا فَذَكَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ فَقَالَتْ لَهَا: أَعَاذَكِ اللّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَقَالَ: "نَعَمْ! عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ" قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللّهُ عَنْهَا فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ صَلّٰى صَلَاةً إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ․
(صحیح البخاری: ج1 ص183، باب ماجاء فی عذاب القبر)
ترجمہ: ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی۔ اس نے عذاب قبر کاتذکرہ کیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہنے لگی: اللہ تجھے عذاب قبر سے بچائے۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہاں عذاب قبر ہو تا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ اس
کے بعد میں نے دیکھا کہ جب بھی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تو عذاب قبر سے پناہ مانگی۔
(4): عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ: كَانَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنْ خَمْسٍ؛ "اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَسُوءِ الْعُمُرِ وَفِتْنَةِ الصَّدْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ․
(سنن النسائی: ج1 ص316 کتاب الاستعاذۃ باب الاستعاذہ من فتنۃ الدنیا)
ترجمہ: عمرو بن میمون رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ چیزوں سے پناہ مانگتے تھے، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے): اے اللہ! میں بزدلی، بخل، بری عمر، سینے کے فتنے اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔
(5): عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمَا مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلٰى قَبْرَيْنِ فَقَالَ: "إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ مِنْ كَبِيرٍ" ثُمَّ قَالَ: "بَلٰى! أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَسْعٰى بِالنَّمِيمَةِ وَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِه"ٖ قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ عُوْدًا رَطْبًا فَكَسَرَهُ بِاثْنَتَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلٰى قَبْرٍ ثُمَّ قَالَ: "لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا"․
(صحیح البخاری: جلد 1ص184 ، باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے قریب سے گذرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور ان کو کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا، بلکہ ایک کو تو اس لیے عذاب ہو رہا ہے کہ وہ چغلی کیا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔ پھر آپ نے کھجو ر کی ایک تر ٹہنی لی اور اس کے دو ٹکڑےکئے، ان دو ٹکڑوں میں سے ہر ایک کی قبرپر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا، پھر ارشاد فرمایا : جب تک یہ خشک نہیں ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔
(6): عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَجَبَتِ الشَّمْسُ فَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ: "يَهُوْدُ تُعَذَّبُ فِي قُبُوْرِهَا"․
(صحیح البخاری: ج1 ص184 باب التعوذ من عذاب القبر)
ترجمہ: حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج غروب ہونے کے بعد نکلے۔ آپ نے ایک آواز سنی تو فرمایا: یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو تا ہے ۔
(7): عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوْ: "اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ"․
(صحیح البخاری: ج1 ص184 باب التعوذ من عذاب القبر)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگتے ہوئے یوں فرمایا کہتے تھے
:" أَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ "
(ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے عذاب قبر ، عذاب جہنم ، زندگی اورموت کے فتنے اور دجال کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں)
(8): عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِّبَنِي النَّجَّارِ عَلٰى بَغْلَةٍ لَهٗ وَنَحْنُ مَعَهٗ إِذْ حَادَتْ بِهٖ فَكَادَتْ تُلْقِيْهِ وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ فَقَالَ: "مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هٰذِهِ الْأَقْبُرِ؟" فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا! قَالَ: "فَمَتىٰ مَاتَ هٰؤُلَآءِ؟" قَالَ: مَاتُوْا فِي الْإِشْرَاكِ. فَقَالَ: "إِنَّ هٰذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلٰى فِي قُبُورِهَا فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوْا لَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِيْ أَسْمَعُ مِنْهُ."
(صحیح مسلم:ج2 ص386 کتاب التوبۃ ․ باب عرض مقعد المیت الخ)
ترجمہ: حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہوکر نبی نجار کے باغ میں جارہے تھے اور ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ اچانک وہ سواری بدک گئی، قریب تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیچے گرادے۔ وہاں اس جگہ دیکھا کہ چھ، پا نچ یا چار قبریں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا کوئی ان قبر والوں کو پہچانتا ہے؟ ایک آدمی نے عرض کیا: جی ہاں! میں ان قبر والوں کو جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ لوگ کب مرے ہیں؟ اس آدمی نے عرض کیا: یہ لوگ زمانہ شرک میں مرے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں کو ان قبروں میں عذاب ہورہاہے، کاش کہ اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تم لوگ اپنے مردوں کودفن کرنا چھوڑ دوگے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعاکرتا کہ وہ تمہیں بھی قبر کا عذاب سنادے جیسے میں سن رہا ہوں۔