عقیدہ 85

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عقیدہ 85:
متن:
وَالاِسْتِطَاعَةُ الَّتِيْ يَجِبُ بِهَا الْفِعْلُ مِنْ نَحْوِ التَّوْفِيْقِ الَّذِيْ لَا يَجُوْزُ أَنْ يُوْصَفَ الْمَخْلُوْقُ بِهٖ (تَکُوْنُ) مَعَ الْفِعْلِ وَأَمَّا الِاسْتِطَاعَةُ مِنْ جِهَةِ الصَّحَّةِ وَالْوُسْعِ وَالتَّمْکِیْنِ وَسَلَامَةِ الْآلَاتِ فَهِيَ قَبْلَ الْفِعْلِ وَبِهَا يَتَعَلَّقُ الْخِطَابُ وَهِيَ كَمَا قَالَ تَعَالٰى:﴿لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهُا﴾.
ترجمہ: وہ استطاعت جس کی وجہ سے بندہ کوئی کام کر سکے اور وہ بندے کے اختیار میں بھی نہیں ہوتی ایسی استطاعت فعل کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے جیسے توفیق کا ملنا، اور استطاعت بمعنی صحت ،گنجائش، طاقت اور اسباب کا میسر ہونا یہ فعل سے پہلے حاصل ہوتی ہے، اسی استطاعت کی بناء پر بندے کو مکلف بنایاجاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ﴿لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهُا﴾ کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے بقدر ہی مکلف بناتے ہیں ۔
شرح:
استطاعت کی دوقسمیں ہیں:
1: توفیق کا ملنا 2: صحت وسلامتی اور اسباب وآلات کا میسر ہونا
استطاعت بمعنی توفیق بندے کے اختیار میں نہیں بلکہ یہ اللہ تعا لیٰ کے اختیار میں ہے۔ اللہ اگر توفیق اور قدرت دے تو بندہ عمل کرتا ہے اور واجب کی ادائیگی سے عہدہ بر آ ہوتا ہے، اور اگر اسے یہ قدرت حاصل نہ ہو تو بندہ فعل نہیں کرپاتا۔ یہ استطاعت فعل کے ساتھ ملی ہوتی ہے یعنی بندہ اگر کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعا لیٰ اسے اس کام کی تو فیق عطا فرماتے ہیں۔ ارادہ نیک ہو تو نیک کام کی توفیق اور ارادہ برا ہو تو برے کام کی توفیق مل جاتی ہے۔ قر آن کریم میں ہے :
﴿مَا كَانُوْا يَسْتَطِيْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوْا يُبْصِرُوْنَ﴾.
(ھود:20)
ترجمہ : وہ لوگ نہ سننے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اور نہ ان کو کچھ سجھائی دیتا تھا ۔
اس آیت میں آلات واسباب کی نفی مراد نہیں ہے کیونکہ کان ، آنکھ تو انہیں دے دیے گئے تھے بلکہ یہاں استطاعت بمعنی توفیق کی نفی ہےکہ حق تو ان کو سنایا اور دکھایا جاتا تھا لیکن ان کے پاس فعل کے ساتھ ہونے والی استطاعت اور قدرت نہیں تھی اس لیے حق کو سن اور دیکھ نہ سکے ۔
استطاعت کی دوسری قسم پر مکلف ہونے کا مدار ہے یعنی جو شخص آلات واسباب نہیں رکھتا اسے اس کام کی استطاعت نہیں ہوتی ۔ نتیجۃً ایسے شخص کو اللہ کام کرنے کا مکلف نہیں بناتے اور جس شخص کو آلات واسباب میسر ہو ں تو اسے مکلف بنایا جاتا ہے۔ یہ استطاعت فعل سے پہلے ہو تی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
 ﴿وَلِلهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا﴾
(آل عمران :97)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے لیے بیت اللہ کا حج ان لوگوں پر فرض ہے جو اس تک جانے کی طاقت رکھتےہوں۔
یعنی فعلِ حج سے پہلے اگر بندے کے پاس سفر کے اخراجات اور گھر والوں کے نان نفقے کا خرچ ہو تب تو حج فرض ہے ورنہ نہیں۔
فائدہ: جس طرح انسان بقدرِ وسعت احکام کا مکلف ہوتا ہے اسی طرح بقدر عقل مکلف ہوتا ہے۔