سوال 18:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سوال 18:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم

اَلسُّؤَالُ الثَّامِنُ عَشَرَ:
هَلْ تَقُوْلُوْنَ إِنَّ عِلْمَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ مُقْتَصِرٌ عَلَى الْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ فَقَطْ أَمْ أُعْطِيَ عُلُوْمًا مُتَعَلَّقَةًبِالذَّاتِ وَ الصِّفَاتِ وَ الْأَفْعَالِ لِلْبَارِيْ عَزَّ اسْمُهٗ وَ الْأَسْرَارِ الْخَفِيَّةِ وَ الْحِكَمِ الْإِلٰهِيَّةِ وَ غَيْرِ ذٰلِكَ مِمَّا لَمْ يَصِلْ إِلٰى سُرَادِقَاتِ عِلْمِهٖ أَحَدٌ مِّنَ الْخَلَائِقِ کَائِنًا مَّنْ کَانَ؟
اٹھارھواں سوال:
کیا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام کو صرف احکامِ شریعت کا علم تھا؟ یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات، افعال، مخفی اسرار اور حِکَم الہیہ وغیرہ کے متعلق اس قدر علوم عطا ہوئے تھے کہ مخلوق میں سے کوئی بھی ان تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا؟
اَلْجَوَابُ:
نَقُوْلُ بِاللِّسَانِ وَ نَعْتَقِدُ بِالْجِنَانِ أَنَّ سَيِّدَنَا رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ أَعْلَمُ الْخَلْقِ قَاطِبَةً بِالْعُلُوْمِ الْمُتَعَلَّقَةِ بِالذَّاتِ وَ الصِّفَاتِ وَ التَّشْرِيْعَاتِ مِنَ الْأَحْكَامِ الْعَمَلِيَّةِ وَ الْحِكَمِ النَّظَرِيَّةِ وَ الْحَقَائِقِ الْحَقَّةِ وَ الْأَسْرَارِ الْخَفِيَّةِ وَ غَيْرِهَا مِنَ الْعُلُوْمِ مَا لَمْ يَصِلْ إِلٰى سُرَادِقَاتِ سَاحَتِهٖ أَحَدٌ مِنَ الْخَلَائِقِ لَا مَلَكٌ مُّقَرَّبٌ وَّ لَا نَبِيٌّ مُّرْسَلٌ وَّ لَقَدْ أُعْطِيَ عِلْمَ الْأَوَّلِيْنَ وَ الْآخِرِيْنَ وَ کَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْهِ عَظِيْمًا وَّ لٰكِنْ لَا يَلْزَمُ مِنْ ذٰلِكَ عِلْمُ کُلِّ جُزْئِيٍّ جُزْئِيٍّ مِّنَ الْأُمُوْرِ الْحَادِثَةِ فِيْ کُلِّ آنٍ مِنْ اَوَانِ الزَّمَانِ حَتّٰى تَضُرَّ غَيْبُوْبَةُ بَعْضِهَا عَنْ مُشَاهِدَتِهِ الشَّرِيْفَةِ وَ مَعْرِفَتِهِ الْمُنِيْفَةِ بِأَعْلَمِيَّتِهٖ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ وُسْعَتِهٖ فِي الْعُلُوْمِ وَ فَضْلِهٖ فِي الْمَعَارِفِ عَلٰى کَافَّةِ الْأَنَامِ وَ إِنِ اطَّلَعَ عَلَيْهَا بَعْضُ مَنْ سِوَاهُ مِنَ الْخَلَائِقِ وَ الْعِبَادِ کَمَا لَمْ يَضُرَّ بِأَعْلَمِيَّةِ سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلَامُ غَيْبُوْبَةُ مَا اطَّلَعَ عَلَيْهِ الْهُدْهُدُ مِنْ عَجَائِبِ الْحَوَادِثِ حَيْثُ يَقُوْلُ فِی الْقُرْآنِ قَالَ: ﴿أَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَ جِئْتُكَ مِنْ سَبَأٍ بِنَبَأٍ يَّقِيْنٍ﴾1
جواب:
ہم زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرتے ہیں کہ ہمارے آقا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، تشریعات یعنی احکامِ عملیہ و حِکَم نظریہ،حقائق حقہ اوراسرار مخفیہ وغیرہ کو تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ جانتے ہیں (اور ان چیزوں میں آپ کے علم کی یہ حالت ہے) کہ ان علوم تک کسی مقرب فرشتے کو رسائی حاصل ہے نہ کسی نبی مرسل کو۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اولین و آخرین کا علم عطا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے،لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ زمانے کی ہر گھڑی میں پیش آنے والے واقعات میں سے ہر ہر جزوی واقعہ کا بھی آپ کو علم ہو کہ اگر کوئی واقعہ آپ کے مشاہدہ شریفہ سے اوجھل رہے تو علم اور معارف کے اعتبار سے ساری مخلوق میں آپ علیہ السلام کی افضلیت اور وسعت علمی میں کمی آ جائے اگرچہ آپ علیہ السلام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس جزئی سے آگاہ ہو۔ جیسے وہ عجیب واقعہ جوحضرت سلیمان علیہ السلام پر مخفی رہا اور ہد ہد کو اس سے آگاہی ہوئی تو اس سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے اَعلم ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن میں ذکر فرماتے ہیں کہ ہدہد نے کہا: ”میں نے ایسی معلومات حاصل کی ہیں جن کا آپ کو علم نہیں ہے اور میں ملکِ سبا سے آپ کے پاس ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔“
---
حاشیہ:
1: النمل: 22