دنیا میں ایسے رہو

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دنیا میں ایسے رہو!
اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں بہت تھوڑے وقت کےلیے بھیجا ہے اور ہم نے اس میں آخرت کےلیے بہت زیادہ کام کرنا ہے، اس احساس کو تازگی بخشتے رہنا چاہیے ۔ قرآن کریم متعدد مقامات پر اس کی طرف توجہ دلاتا ہے، دنیا کو عارضی ، اس کےساز وسامان کو بے حیثیت اور بہت کم بلکہ دھوکہ قرار دیتا ہے۔
دنیا اور اس کی محبت:
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”جس چیز میں فی الحال حظِ نفس ہو اور آخرت میں اس کا ثمرہ مرتب نہ ہو ، وہ دنیا ہے ۔ دنیا لغۃً نزدیک چیز کا نام ہے اور عرفاً مطلق اس حالت کا نام ہے جو موت سے پہلے ہے اور شرعاً خاص اس حالت کا نام ہے جو مانع عن الآخرۃ ہے اور مجازاً ان اموال و امتعہ )ساز و سامان(پر اطلاق کیا )بولا(جاتا ہے جو اس کی مانعیت کے اسباب بن جائیں پس جو احوال از قسم اقوال ہوں یا از قبیل افعال و اعمال یا عقائد و علوم ہوں اسی طرح جو اموال کہ آخرت ، واجبۃ التحصیل سے مانع ہوں گے وہ سب دنیائے حرام و مذموم میں داخل ہیں اور ان کے مذموم ہونے میں کسی کو شبہ نہیں ہو سکتا۔
دنیا کے تمام جھگڑوں، بکھیڑوں، مخلوقات اور موجودہ چیزوں کے ساتھ تعلق رکھنے کا نام دنیا کی محبت ہے البتہ علم و معرفت الہٰی اور نیک کام جن کا ثمرہ مرنے کے بعد ملنے والا ہے ان کا وقوع اگرچہ دنیا میں ہوتا ہے مگر حقیقت میں وہ دنیا سے مستثنیٰ ہے اور ان کی محبت دنیا کی محبت نہیں بلکہ آخرت کی محبت ہے ۔ “
شریعت اور طریقت از حضرت تھانوی : ص 206
تمام گناہوں کی بنیاد:
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”ہر چند ہمارے اندر مختلف امراض پائے جاتے ہیں لیکن بنص قرآن و حدیث اصل تمام امراض کی صرف ایک ہی چیز حُبِّ دنیا)دنیا کی محبت( ہے … جس میں حب دنیا ہوگی اس کو آخرت کا اہتمام ہی نہ ہوگا جب آخرت کا اہتمام نہ ہوگا وہ شخص نہ تو اعمال حسنہ کو انجام دے گا اور نہ برائیوں سے بچے گا اور ایسے ہی برعکس۔ جب آخرت کی فکر ہوتی ہے تو جرائم صادر نہیں ہوتے کیونکہ حب دنیا میں فکر دین کم ہوتی ہے جس درجہ کی حب دنیا ہو گی اسی درجہ کی فکر دین کم ہوگی اگر کامل درجہ کی حب دنیا ہو گی تو کامل درجہ کی دین کی بے فکری ہوگی ۔ “
شریعت اور طریقت از حضرت تھانوی : ص 207
دنیاوی ساز و سامان :
قرآن کریم نے ایک مقام پر دنیاوی ساز و سامان کی مختصر مگر جامع ترین تشریح ان الفاظ میں ذکر فرمائی ہے:
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِ ؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ اللہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ
سورۃ اٰل عمران ، رقم الآیۃ: 14
ترجمہ: لوگوں کےلیے ان چیزوں کی محبت کو خوشنما بنادیا گیا ہے جو ان کی خواہش کےمطابق ہوتی ہیں یعنی عورتیں، بچے، سونے و چاندی کے ڈھیر، عمدہ نشان لگائے ہوئے گھوڑے، مویشی اور کھیتیاں۔ یہ سب دنیاوی زندگی کا ساز و سامان ہیں جبکہ ابدی انجام کا )حقیقی( حسن اللہ کے ہاں ہے۔ ) جو مرنے کے بعد کام آئے گا(
حضرت تھانوی ﷫کا ذوق:
درج بالا آیت کے بارے حکیم الامت مجدد الملت حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”یہ جو فرمایا کہ ان چیزوں کی محبت خوشنما معلوم ہوتی ہے اس کا حاصل میرے ذوق میں یہ ہے کہ محبت و میلان غالب حالات میں موجب فتنہ ہوجانے کی وجہ سے ڈر کی چیز تھی مگر اکثر لوگ اس کو سبب ضرر نہیں سمجھتے بلکہ اس میلان کو علی الاطلاق اچھا سمجھتے ہیں چونکہ مذاق مختلف تھے اس لیے مختلف چیزیں بیان فرمائیں کسی کو عورتوں سے زیادہ محبت ہوتی ہے اور کسی کو اولاد سے ، کسی کو سونے چاندی سے کسی کو گھوڑوں سے ، کسی کو بیلوں اور کھیتی سے۔ کسی کو عورتوں سے ایسی محبت ہوتی ہے کہ دن رات اسی میں مبتلا ہیں ہر وقت یہی خیال ہے ۔ کسی کو اولاد کی ایسی چاہت ہوتی ہے کہ دن رات اسی دُھن میں رہتے ہیں کہ بیٹا ہو ، پوتا ہو ، پڑپوتا ہو ۔ بعض رؤسا کو بیلوں اور گھوڑوں سے ایسی محبت ہوتی ہے کہ ریاست بھی غارت کر بیٹھتے ہیں وجہ یہ کہ محبت کے افراط میں جنون ہوتا ہے۔“
شریعت اور طریقت از حضرت تھانوی : ص 210
بوڑھی چڑیل:
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”دنیا کی حقیقت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اس پر فریفتہ ہو رہے ہیں اگر اس کی حقیقت معلوم ہوجائے تو سخت نفرت ہو جائے جیسے کسی چڑیل بڑھیا کو لال ریشمی لباس پہنا دیا گیا ہو اور نقاب سے منہ ڈھانک دیا گیا ہو اور کوئی اس کو حسین اور خوب صورت سمجھ کر دم بھرنے لگے۔“
شریعت اور طریقت از حضرت تھانوی : ص 211
دنیاوی زندگی سراسر دھوکہ ہے:
وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ
سورۃ آل عمران: رقم الآیۃ 185
ترجمہ: دنیاوی زندگی تو سراسر دھوکے کا سامان ہے ۔
دنیاوی ساز و سامان کی بے وقعتی:
قُلۡ مَتَاعُ الدُّنۡیَا قَلِیۡلٌ
سورۃ النساء ، رقم الآیۃ 77
ترجمہ: (اے میرے محبوب پیغمبر) آپ لوگوں کو یہ بات فرما دیں کہ دنیا کا ساز و سامان )دیکھنے میں کتنا ہی زیادہ معلوم ہو پھر بھی (بالکل بے حیثیت اور کم ہے۔
نادانی کی بات:
اَرَضِیۡتُمۡ بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا مِنَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیۡلٌ
سورۃ التوبۃ :رقم الآیۃ 38
ترجمہ: کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی پر خوش ہو ؟ )کتنی نادانی کی بات ہے کیونکہ ( آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی بہت ہی مختصر ہے ۔
آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت:
اَللہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ وَ فَرِحُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ
سورۃالرعد: رقم الآیۃ 26
ترجمہ: یہ اللہ کی مرضی ہے کہ جس کا چاہے رزق بڑھائے اور جس کا چاہےگھٹا ئے اور وہ لوگ دنیاوی زندگی پر خوش ہیں جبکہ یہ تو آخرت کے مقابلے میں معمولی سی ہے ۔
یٰقَوۡمِ اِنَّمَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا مَتَاعٌ ۫ وَّ اِنَّ الۡاٰخِرَۃَ ہِیَ دَارُ الۡقَرَارِ
سورۃ غافر: رقم الآیۃ 39
ترجمہ: اے میری قوم ! یہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اور اس کے مقابلے میں آخرت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے کی جگہ ہے ۔
دنیا میں ایسے رہو :
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ أَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْكِبِي فَقَالَ كُنْ فِي الدُّنْيَا كَاَنَّكَ غَرِيْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيْلٍ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُوْلُ إِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ۔
صحیح البخاری ، رقم الحدیث: 6416
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کندھے سے پکڑ کر فرمایا: دنیا میں ایسے رہو جیسا کہ کوئی مسافر یا راہ گیررہتا ہے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم کو شام میسر آجائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح مل جائے تو شام کا انتظار نہ کرو اپنی صحت اور زندگی کو غنیمت سمجھ کر بیماری اور موت سے پہلے وہ کام کرو جو مرنے کے بعد کام آتے ہیں ۔
مسافر کی طرح:
آج کے اس ترقی یافتہ زمانے میں جبکہ ہر طرح کی سہولیات عام ہو چکی ہیں اس کے باوجود سفر کی صعوبت اور مشکلات ایسی حقیقت ہیں کہ کوئی شخص بالخصوص جو سفر میں رہتا ہو اس کا انکار نہیں کر سکتا ۔ تجربے سے ثابت ہے کہ سفر میں وہ مسافرجن کا سامان سفر مختصر ہو باقی مسافروں کی نسبت راحت میں رہتے ہیں ۔ ہر مسافر کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد سفر مکمل کر کے اپنی منزل مقصود تک پہنچے ۔ اسی طرح دنیا کے اس مسافر خانے میں ہر مومن مسافرکی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد اپنا سفر مکمل کر کے اپنی منزل مقصود رضائے باری تعالیٰ تک پہنچے ۔
میرا دنیا سے کیا واسطہ؟
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: نَامَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلٰى حَصِيْرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ فَقُلْنَا:يَا رَسُوْلَ اللَّهِ لَوِ اتَّخَذْنَا لَكَ وِطَاءً فَقَالَ: مَا لِيْ وَلِلدُّنْيَامَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا۔
جامع الترمذی: رقم الحدیث: 2377
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی ایک چٹائی پر سوئے جب سو کر اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اقدس پر چٹائی کے نشانات پڑے ہوئے تھے اس حالت کو دیکھ کرحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کی راحت کےلیے آرام دہ بستر کا انتظام کریں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا دنیا سے کیا واسطہ؟ میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سوار ہو جو کچھ دیر سستانے کےلیے کسی درخت کے نیچے لیٹ جائے اور پھر اسے چھوڑ کر آگے چل دے۔
فائدہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقر اختیاری تھا ۔
حضرت علی المرتضیٰ کا خطبہ:
عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّلَمِيِّ قَالَ: خَطَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بِالْكُوفَةِ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ طُولُ الْأَمَلِ وَاتِّبَاعُ الْهَوَى فَأَمَّا طُولُ الْأَمَلِ فَيُنْسِي الْآخِرَةَ وَأَمَّا اتِّبَاعُ الْهَوَى فَيُضِلُّ عَنِ الْحَقِّ أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا قَدْ وَلَّتْ مُدْبِرَةً وَالْآخِرَةُ مُقْبِلَةٌ وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بَنُونَ فَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الْآخِرَةِ وَلَا تَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْيَا فَإِنَّ الْيَوْمَ عَمَلٌ وَلَا حِسَابٌ وَغَدًا حِسَابٌ وَلَا عَمَلٌ.
شعب الایمان للبیہقی: رقم الحدیث: 10130
ترجمہ: ابو عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے کوفہ میں ایک بلیغ خطبہ دیا،آپ نے فرمایا: لوگو!مجھے تمہارے بارے دو باتوں کا ڈر ہے۔اور وہ یہ ہیں:(دنیاوی کاموں سے وابستہ) لمبی لمبی امیدیں اورخواہشاتِ نفس کے مطابق زندگی گزارنا۔جہاں تک پہلی چیز کا تعلق ہے تو اچھی طرح یاد رکھنا کہ دنیاوی کاموں سے وابستہ لمبی لمبی امیدیں رکھنا آخرت کو بھلانے والی چیز ہے اور خواہشات نفس کے مطابق زندگی گزارنا ایسا عمل ہے جو شریعت کےمطابق زندگی گزارنے سے دور کرتا ہے ۔ پھر فرمایا:دنیا رخصت ہو رہی ہےاور آخرت ہماری طرف بڑھے چلی آ رہی ہےان دونوں )دنیا اور آخرت( کے چاہنے والے موجود ہیں تم دنیادار کے بجائے آخرت والے بنو ! یہ دنیا عمل کی جگہ ہے جہاں حساب نہیں ہوتا اور آخرت حساب کی جگہ ہے وہاں کوئی عمل نہیں ہو سکے گا ۔
اب پچھتائے کیا؟
حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِ لَعَلِّیۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًا فِیۡمَا تَرَکۡتُ کَلَّا اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَا وَ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ
سورۃ المؤمنون :رقم الآیۃ : 100،99
ترجمہ: اللہ کے نافرمان کو جب موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھے ایک بار دنیا میں بھیج !تاکہ میں وہاں جا کر آپ کو راضی کرنے والے وہ کام کر سکوں جن کو پہلے میں نے چھوڑ رکھا تھا۔
اٹل حقیقت :
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ روز و شب کا تسلسل ہمیں موت کے قریب کیے جا رہا ہے۔ جب کسی گھر میں بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب خوش ہوتے ہیں ،پھر وہ بولنے لگتا ہے خوشی اور بڑھ جاتی ہے جب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوتا ہے تو والدین کے چہرے مسرت و شادمانی سے تمتما اٹھتے ہیں اور جب وہ کڑیل جوان ہوتا ہےتو والدین کی خوشی دیدنی ہوتی ہے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارا بچہ دن بدن موت کے قریب جا رہا ہے اس کی مقرر شدہ زندگی ہر گزرنے والے لمحے میں موت کے قریب تر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ اس لیے کامیاب انسان وہ ہوتا ہے جو آخرت کی تیاری کرے اور دنیا میں ایسے رہے۔ (جیسے مسافر یا راہ گزر رہتا ہے )۔
اللہ والوں کی فکرِآخرت :
كَانَ بَعْضُ السَّلَفِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ قَالَ لأهْلِهِ: أَسْتَوْدِعُكُمْ اللهَ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَكُونَ مَنِيَّتِي التِي لا أَقُومُ مِنْهَا۔۔۔ وَقَالَ آخَرُ: إِنْ اسْتَطَاعَ أَحَدُكُمْ أَنْ لا يَبِيتَ إِلا وَعَهْدُهُ عِنْدَ رَأْسِهِ مَكْتُوبٌ فَلْيَفْعَلْ فَإِنَّهُ لا يَدْرِي لَعَلَّهُ يَبِيتُ فِي أَهْلِ الدُّنْيَا وَيُصْبِحُ فِي أَهْلِ الآخِرَةِ.
موارد الظمآن لدروس الزمان: قصیدہ زھدیہ
ترجمہ: اولیاء اللہ میں سے بعض حضرات جب سونے لگتے تو گھر والوں سے کہتے :میں تم سب کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں شاید میں اس نیند سے نہ اٹھ سکوں اور بعض)حضرت بکر المزنی رحمہ اللہ ( اس طرح فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص رات کو سونے سے پہلے وصیت نامہ لکھ کر اپنے پاس رکھ سکتا ہو تو وہ ضرور رکھے اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ جب وہ سوئے تو وہ دنیا میں موجود ہو اور جب صبح ہو تو آخرت جا چکا ہو ۔
فائدہ: وقت اورصحت کو غنیمت جانیں اس بارے دھوکے کا شکا ر نہ ہوں۔
دو عظیم نعمتیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِيْهِمَا كَثِيْرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ۔
صحیح البخاری ، رقم الحدیث : 6412
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے اکثر لوگ دھوکہ کا شکار ہو جاتے ہیں : صحت و تندرستی اور فرصت کے لمحات۔
فائدہ: اللہ تعالیٰ کا قانون کرم دیکھیے کہ صحت اور فرصت کے زمانے میں کی جانے والی عبادات بیماری اور سفر کےدنوں میں بھی کام آتی ہیں ۔ جو شخص صحت اور فرصت کی حالت میں عبادات کرتا رہا ہو پھر اس پر بیماری آگئی یا وہ مسافر بن گیا جس کی وجہ سے اب وہ نفلی عبادات نہیں کر سکا تو اللہ تعالیٰ عبادات کیے بغیر ہی اس کا ثواب عطا فرما دیتے ہیں۔
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَرِضَ الْعَبْدُ أَوْ سَافَرَ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ مَا كَانَ يَعْمَلُ مُقِيمًا صَحِيحًا.
صحیح البخاری ، رقم الحدیث :2996
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب کوئی بندہ بیمار پڑ جائے یا مسافر بن جائے اور اس وجہ سے وہ اپنے معمولات پورے نہ کر پایا تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ان معمولات کا ثواب برابر اسی طرح لکھواتے رہتے ہیں جس طرح صحت مند اور مقیم ہونے کی حالت میں اس کے لیے لکھا جاتا تھا ۔
آخرت کی ندامت:
عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِيْ يَقُوْلُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ أَحَدٍ يَمُوْتُ إِلَّا نَدِمَ۔ قَالُوْا: وَمَا نَدَامَتُهُ يَا رَسُوْلَ اللَّهِ؟ قَالَ: إِنْ كَانَ مُحْسِنًا نَدِمَ أَنْ لَا يَكُوْنَ ازْدَادَ وَإِنْ كَانَ مُسِيْئًا نَدِمَ أَنْ لَا يَكُوْنَ نَزَعَ۔
جامع الترمذی، رقم الحدیث: 2403
ترجمہ: یحیٰ بن عبیداللہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سناتے تھے : ہر مرنے والا شخص آخرت میں ندامت اٹھائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کی : اے اللہ کے رسول!کیوں اور کیسی ندامت ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مرنے والا شخص نیک تھا تو اسے یہ ندامت ہو گی کہ اس نے مزید اچھے کام کیوں نہ کیے اور اگر مرنے والا گناہ گار ہوگا تو اسے یہ ندامت ہوگی کہ اس نے( نیک اعمال کیوں نہ کیے) اور خود کو برائیوں سے کیوں نہ بچایا۔
دنیا میں دل لگا کر رہنے کے بجائے مسافر اور رہ گزر لوگوں کی طرح زندگی گزاری جائے ۔ زندگی میں صحت اور فرصت کے لمحات کی قدر کرنا چاہیے اور ایسے کام کرنے چاہییں جو مرنے کے بعد کام آسکیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں پوری زندگی شریعت کے موافق گزارنے کی توفیق نصیب فرمائیں ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات ،2 جنوری ،2020ء