پُر سکون زندگی

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
پُر سکون زندگی
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا عقیدہ اور نظریہ ہے کہ کامیابی، بھلائی اورسکون واطمینان کا راستہ صرف اور صرف وہی ہے جس کی طرف اسلامی شریعت نے رہنمائی فرمائی ہے ۔
آج کا زمانہ جسے زمانے والے ترقی یافتہ زمانہ کہتےہیں اس میں سکون کو تلاش کرنےکےلیے بہت کوششیں ہو رہی ہیں۔ جدید طرزِمعاشرت،جدید تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اس تک رسائی کی کوششیں برابر جاری ہیں لیکن جسے ”سکون“ کہتے ہیں وہ کہیں نظر نہیں آ رہا ۔آسائش ، آرائش اور زیبائش کی ظاہری دنیا میں بھی سکون کا وجود گم ہو کر رہ گیا ہے بلکہ ظاہری اسباب کی بہتات کے باوجودبے سکونی، الجھنیں، پریشانیاں اور دنیاوی بکھیڑے بڑھتےہی چلے جا رہے ہیں اور سکونِ دل کی دنیا تنگ سے تنگ ہوتی چلی جا رہی ہے۔
تنگ زندگی:
وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا
سورۃ طہٰ، رقم الآیۃ : 124
ترجمہ: اور جو شخص بھی میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کی وجہ سے اسے بہت تنگ زندگی ملے گی ۔
معلوم ہوا کہ تنگ دلی والی زندگی کی وجہ اسلامی تعلیمات سے منہ موڑنا ہے اگر مسلمان اپنی پوری زندگی پر نگاہ ڈالے تو معلوم ہوگا کہ چوبیس گھنٹوں میں سوائے چند منٹ کے باقی سارا کا سارا وقت ہی اسلامی تعلیمات کے خلاف گزارا جا رہا ہے ۔
تنگ زندگی کا حل:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللهَ تَعَالَى يَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ وَإِلَّا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلًا وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ۔
جامع الترمذی ، رقم الحدیث : 2466
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ذکر کیا:اے آدم کی اولاد!تو اپنے آپ کو میری عبادت کے لیے فارغ کر لے تو میں تیرے دل میں سکون والی نعمت عطا کر دوں گا اور اس کے ساتھ ساتھ تیری تنگ دستی، محتاجی اور فقر کو بھی ختم کر دوں گا ۔ اگر تونے اس طرح نہ کیا تو پھر میں تجھے دنیا کی الجھنوں میں الجھائے رکھوں گا اور تجھے محتاجی )بے سکونی( میں مبتلا کیے رکھوں گا ۔
کاروبار زندگی ختم نہ کریں:
حدیث مبارک میں پہلی بات یہ ذکر کی گئی ہے کہ اے ادم کی اولاد !تو اپنے آپ کو میری عبادت کے لیے فارغ کر لے تو میں تیرے دل کو سکون کی نعمت سے مالا مال کر دوں گا ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان دنیا کے کام کاج سے کنارہ کر لے،حلال رزق کمانے کی ساری تدابیر ختم کر ڈالے اور گوشہ نشین ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اس طرز عمل کی اسلام حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
عبادت کے لیے فراغت:
انسان یہ ارادہ کرے ساری زندگی شریعت کی تعلیمات کے مطابق گزارے گا ۔ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد سب کو اچھے طریقے سے ادا کرے گا۔ تجارت ، زراعت، سیاست اور دیگر کاروبار زندگی میں شریعت کے احکام پر ضرور عمل کرے گا ۔ سستی اور کاہلی کا شکار ہو کر شیطان اور نفسانی خواہشات کی پیروی نہیں کرے گا ۔
مشترکہ المیہ:
ہم سب کا مشترکہ المیہ یہ ہے کہ ہم ہر کام کے لیے خود کو فارغ کر لیتے ہیں۔ کھانا پینا، سونا جاگنا، آنا جانا،ملنا جلناہو یا اسی طرح دوست احباب کی مجلس محفل میں شریک ہوناہو، دعوتیں اڑانی ہوں، سیروسیاحت کرنی ہوں یا کھیل تماشےوغیرہ دیکھنے ہو ں۔ الغرض سوائے اللہ کو راضی کرنے کے باقی سارے ضروری و غیر ضروری کاموں کے لیے ہمارے پاس وقت ہوتا ہے لیکن جونہی اللہ کو راضی کرنے کا وقت آتا ہے اور نماز کی ادائیگی، قرآن کی تلاوت ، ذکر و اذکار ، نوافل، دینی تعلیم، غرباء مساکین اور مستحق لوگوں کی امداد کرنی ہو یا شرعی حدود میں رہتے ہوئے سماجی و رفاہی خدمات کرنی ہوں تو ہمارے پاس ایک نہیں ہزار بہانے ہوتے ہیں۔ اور ہم خود فریبی میں مبتلا ہوکر مصروفیات کی آڑ میں سب عبادات کو داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔
گناہوں کے وبال کی صورت:
ہم اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت کےلیے وقت نکالیں گےتو اللہ ہمارے دلوں سے بے سکونی اور پریشانیوں کو نکال دیں گے ۔اس کے ساتھ ساتھ خود کو گناہوں سے بچانے کی پوری پوری کوشش کرنی چاہیے تاکہ گناہوں کا وبال رزق میں تنگی، قلبی بے سکونی، ذہنی پریشانی اور گھریلو ناچاقیوں کی صورت میں ہمارے اوپر نہ آ پڑے ۔
بے سکونی کب آتی ہے؟
حدیث مبارک کے دوسرے حصے میں اس بات کی طرف نشاندہی کی گئی ہے کہ دلوں میں بے سکونی اور گھروں میں بے برکتی کب ڈیرے ڈالتی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے اولادِ آدم!اگر تو نے میری اطاعت، بندگی اور عبادت نہ کی اور مسلسل میری نافرمانی کرتا رہا تو میں تجھے دنیاوی بکھیڑوں اور الجھنوں میں ایسا الجھا دوں گا کہ تجھے اپنی زندگی میں سکون نام کی چیز بھی نظر نہیں آئے گی۔ بظاہر تمام ظاہری اسبابِ سکون موجود ہوں گے لیکن خود سکون نہیں ہوگا ۔ تجھے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گزرنے کا احساس بھی نہ ہو گا اور فرشتہ موت کا پیغام لیے تیرے پاس آپہنچے گا پھر تیرے چاہنے کے باوجود بھی تجھے کسی نیک عمل کرنے کی مہلت نہیں ملے گی اور تو بے بس ہو کر حسرت کی تصویرِبے جان بن جائے گا ۔
بے سکونی سے نکلنے کا راستہ:
آج ہم میں سے ہر بندہ اپنی بے سکونی کا رونا تو روتا ہے اور اس مصیبت سے نکلنے کے لیےکئی جتن اختیار کرتا ہے لیکن اس سے نکلنے کا جو راستہ ہمیں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلایا ہے اس پر چلنے کے لیے تیار نہیں ۔ اس سے بڑی نادانی اور کیا ہوگی کہ زہر کا تریاق موجود ہونے کے باوجود اسے کام میں نہ لایا جائے اور زہر کے اثر سے خود کو ہلاک کر لیا جائے ۔
علماء توجہ فرمائیں!
اہل حق علماء کرام کی جماعت انبیاء کرام علیہم السلام کی وارث ہے اس کے ذمہ خود اپنے عقائد و اعمال کی اصلاح کرنا بھی ہے اور لوگوں کے عقائد و اعمال کی درستگی بھی ہے۔ یہ میدان ایسا ہے کہ انسان کوتھکا دیتا ہے دوسروں کو وعظ و نصیحت، تعلیم و تبلیغ اور سلوک و احسان کی منازل طے کراتے کراتے جسم بہت تھکاوٹ کا شکار ہوجاتا ہے ایسی تھکاوٹ کے وقت اپنی طبیعت پر جبر کر کے عبادت کرنی چاہیے۔ اس سے جی نہیں چرانا چاہیے اور محض اتنی بات پر بھروسہ کر کے نہیں بیٹھ جانا چاہیے کہ میں نے لوگوں کو تبلیغ کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر لی ہے بلکہ اپنی انفرادی نفلی عبادات کےلیے بھی وقت نکالنا چاہیے اور اس میں خوب عبادات کرنی چاہییں کیونکہ اسی سے تعلق مع اللہ مضبوط ہوتا ہے ساتھ ہی ساتھ نیت میں اخلاص، عمل میں اعتدال ، زبان میں تاثیر اور سب سے بڑھ کر علم میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ اور اگر اس میں سستی کر لی جائے اور اپنے اعمال و مجاہدات پر توجہ نہ دی جائے تو ؛ توجہ الی الخالق کے سامنے توجہ الی المخلوق رکاوٹ بن جاتی ہے ۔انسان دوسروں کے فائدہ پہنچانے میں اتنا دور چلا جاتا ہے کہ اپنے نقصان کا ادراک بھی نہیں کرپاتا۔
تھکا دینے والی نفلی عبادات:
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں :
فَاِذَا فَرَغْتَ۔الخ۔۔ فِیْہِ اِشَارَۃٌ اِلٰی اَنَّ الشَّیْخَ اِذَا فَرَغَ مِنَ الْاِرْشَادِ وَالتَّعْلِیْمِ یَشْتَغِلُ بِالْمُنَاجَاۃِ وَالتَّفَکُّرِ فِیْ خَلْوَۃٍ وَلَا یَحْسِبُ اَنَّہُ غَیْرُ مُحْتَاجٍ اِلَی الْمُجَاہَدَۃِ۔
مسائل السلوک من کلام ملک الملوک ،تحت آیت ھذہ
ترجمہ:
فَاِذَا فَرَغْتَ ۔۔ الخ
اس میں اشارہ ہے کہ جب شیخ )طریقت(لوگوں کے عقائد و اعمال کی تربیت سے فارغ ہو تو اکیلے میں اللہ سے راز ونیاز اور مناجات میں خود کو مصروف کر لے اور اپنے آپ کو تھکادینے والی نفلی عبادات سے بے نیاز نہ سمجھے ۔
اس لیے علماء کرام ، مشائخ طریقت اور دین کی دعوت دینے والے افراد کو دوگنی محنت سے کام کرنا چاہیے کہ عوام کےلیے دینی تعلیم وتربیت میں محنت کریں اور اپنی ذاتی زندگی کے لیے بھی نفلی عبادات کاخوب اہتمام کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات ،16جنوری ،2020ء
بحران اور ذخیرہ اندوزی
اللہ تعالیٰ پوری امت مسلمہ کی تمام پریشانیوں کو ختم فرمائے بالخصوص مسلمانان پاکستان اس وقت شدید اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اجناس کے بحران نے تباہ کر دیا ہے مزید بےاحساسی کا یہ عالم ہے کہ تجارت پیشہ افراد اس موقع پر دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ آئیے اس بارے قرآن و سنت کی رہنمائی لیتے ہیں کہ قحط سالی اور بحران کیوں پیدا ہوتے ہیں ؟ اس کا حل کیا ہے؟ اور ذخیرہ اندوزی کرنے والی تاجر برادری کو شریعت کیا تعلیم دیتی ہے ؟
گناہوں کا وبال:
وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ
سورۃ الشوریٰ، رقم الآیۃ 30
ترجمہ: ( لوگو) تم پر جو پریشانیاں آتی ہیں وہ تمہارے اپنے گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہیں جبکہ تمہارے بہت سارے گناہوں کو تو اللہ معاف بھی فرما دیتے ہیں ۔
معلوم ہوا کہ جتنی پریشانیاں ہم پر آتی ہیں یہ ہمارے بعض گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہیں جبکہ اکثر گناہوں کی سزا یا تو اللہ تعالیٰ بالکل ہی معاف فرما دیتے ہیں یا ان کو آخرت پر موقوف کر دیتے ہیں۔
معاشرے میں پھیلے چند کبیرہ گناہ:
دین میں کمی یا بیشی کرنا یعنی الحاد و بدعت، قرآن و حدیث کی غلط اور من مانی تشریح کرنا، جھوٹ، ناحق تہمت، سود، رشوت، حسد، غیبت، چغل خوری، کسی کا ناحق مال کھانا، فحاشی و عریانی کو عام کرنا، تکبر، غرور، ریاکاری، فخر و مباہات، والدین کی نافرمانی، جھوٹی گواہی، زنا، لواطت، بدنظری، ظلم، گالیاں بکنا، کسی پر تشدد کرنا، مُردوں کو گالی دینا، احسان جتلانا، بدگمانی، بدزبانی بالخصوص اسلام کی مقتدر شخصیات کو برا بھلا کہنا، قطع رحمی کرنا، بول چال چھوڑنا، بلاوجہ جاسوسی کرنا، دھوکہ بازی، خیانت، چوری، ڈکیتی، غیر محرم مرد یا عورت سے بلاوجہ گفتگو کرنا، مرد و خواتین کا ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا، عورت کا اپنے شوہر کی نافرمان اور ناشکری ہونا، مرد کا اپنی بیوی کے مالی، جسمانی، معاشی اور معاشرتی حقوق ادا نہ کرنا، اسراف یعنی فضول خرچی، شادی بیاہ اور طرز معاشرت میں غیر اسلامی روایات اپنانا، فرائض و واجبات کو چھوڑنا بالخصوص [نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ]، کاہن جسے آج کی زبان میں دست شناس کہا جاتا ہے کے پاس اپنی قسمت جاننے یا سنوارنے کے لیے جانا، جادو، اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا، جھوٹی بات پر قسم کھانا، ملاوٹ کرنا، ناپ تول میں کمی کرنا، بد عہدی کرنا، میت پر نوحہ کرنا، بین کرنا، گریبان چاک کرنا، رخسار پیٹنا، قبروں کی پامالی کرنا، بائیں ہاتھ سے کھانا پینا، بلاوجہ کھڑے ہو کر کھانا پینا، مسلمان پر اسلحہ اٹھانا، غیر مسلموں کو بلاوجہ قتل کرنا، شراب پینا، چرس پینا، افیون پینا، بھنگ پینا،کسی کو نشہ پلانا، گانا، عشقیہ غزلیں، موسیقی، فلمیں، ڈرامے دیکھنا اور سننا، مرد کا سونا استعمال کرنا، خواتین کا بے پردہ ہونا، شعائر دین کا مذاق اڑانا۔ وغیرہ وغیرہ
سابقہ قومیں کیوں تباہ ہوئیں؟
اللہ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کی تباہی اور ان پر آنے والی سزاؤں کی وجہ بھی ان کے گناہوں کو قرار دیا ہےاور اس مضمون کو قرآن کریم نے مختلف انداز میں متعدد مقامات پر اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ ہم ان گناہوں سے بچ جائیں ورنہ ہمارا انجام بھی انہی جیسا ہوگا ۔قرآن کریم میں ہے:
فَکُلًّا اَخَذۡنَا بِذَنۡۢبِہٖ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِ حَاصِبًا ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اَخَذَتۡہُ الصَّیۡحَۃُ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ خَسَفۡنَا بِہِ الۡاَرۡضَ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اَغۡرَقۡنَا ۚ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظۡلِمَہُمۡ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ
سورۃ العنکبوت، رقم الآیۃ: 40
ترجمہ: پھر ہم نے ہر ایک کو اس کے گناه کی وجہ سے سزا دی، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے )پانی میں( غرق کیا، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پرظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم )یعنی گناہ( کرتے تھے۔
نوٹ: یہاں یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ بعض مرتبہ گناہوں کی سزا مجموعی طور پر نہیں آتی بلکہ اس کا کچھ حصہ کسی خاص قوم یا علاقے کے لوگوں پر آتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ اسی علاقے کے لوگوں کے گناہوں کا ہی وبال ہو۔ یہ تنبیہ ہوتی ہے کہ باقی لوگ گناہوں سے باز آ جائیں۔
وَکَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ عَتَتۡ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہَا وَرُسُلِہٖ فَحَاسَبۡنٰہَا حِسَابًا شَدِیۡدًا وَّعَذَّبۡنٰہَا عَذَابًا نُّکۡرًافَذَاقَتۡ وَبَالَ اَمۡرِہَا وَکَانَ عَاقِبَۃُ اَمۡرِہَا خُسۡرًا اَعَدَّ اللہُ لَہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا فَاتَّقُوا اللہَ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ
سورۃ الطلاق ، رقم الآیۃ :10
ترجمہ: )تم سے پہلے( کتنی بستیاں ایسی گزر چکی ہیں جنہوں نے اللہ اور اپنے اپنے رسولوں کی نافرمانیاں کیں تو ہم نے ان کے اس جرم کی وجہ سے ان کا سخت حساب لیا اور بڑے بڑے عذابوں میں مبتلا کر دیا آخر کار انہوں نے اپنے ) بعض( گناہوں کا وبال دنیا میں ہی دیکھ لیا یہاں تک کہ وہ قومیں صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو گئیں ۔ اللہ نے ان کے لیے آخرت میں سخت ترین عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اس لیے عقل والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو! )اور اس سے نصیحت حاصل کرو.(
چند گناہوں کے برے اثرات:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَاأَنَّهُ قَالَ: مَا ظَهَرَ الْغُلُولُ فِي قَوْمٍ قَطُّ إِلاَّ أُلْقِيَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبُ وَلاَ فَشَا الزِّنَا فِي قَوْمٍ قَطُّ إِلاَّ كَثُرَ فِيهِمُ الْمَوْتُ وَلاَ نَقَصَ قَوْمٌ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِلاَّ قُطِعَ عَنْهُمُ الرِّزْقُ وَلاَ حَكَمَ قَوْمٌ بِغَيْرِ الْحَقِّ إِلاَّ فَشَا فِيهِمُ الدَّمُ وَلاَ خَتَرَ قَوْمٌ بِالْعَهْدِ إِلاَّ سَلَّطَ اللهُ عَلَيْهِمُ الْعَدُوَّ.
موطا امام مالک، رقم الحدیث : 1325
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں :جب کسی قوم میں حرام مال عام ہو جائے، تو اللہ رب العزت ان کے دلوں میں خوف اور دہشت بٹھا دیتے ہیں، اور جب کسی قوم میں زنا )بدکاری(عام ہو جائے تو ان میں موت کی کثرت ہو جاتی ہے اور حادثاتی اموات پھیل جاتی ہیں، اور جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے تو ان کے رزق کوگھٹا دیا جاتا ہے اور جب کوئی قوم ظلم و ناانصافی کرنے لگے تو ان میں قتل و قتال عام ہوجاتا ہے، اور جب کوئی قوم وعدہ خلافی کے جرم کا ارتکاب کرتی ہے تو ان پر دشمن کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔
رزق میں تنگی:
حدیث مبارک میں چند بڑےجرائم اور ان کے معاشرے پر پڑنے والے وبال کو ذکر کیا گیا ہے اس میں اس گناہ کی نشان دہی بھی کر دی گئی جس کی وجہ سے رزق میں تنگی آتی ہے اوروہ ہے ناپ تول میں کمی کرنا۔
ناپ تول میں کمی کا گناہ:
سابقہ امتوں میں سےحضرت شعیب علیہ السلام کو جس قوم کی طرف بھیجا گیا وہ ایسی قوم تھی جو ناپ تول میں کمی والے گناہ میں مبتلا تھی اس وجہ سے ان پر اللہ کی طرف سے سخت سزا آئی۔قرآن کریم میں ہے :
وَ اِلٰی مَدۡیَنَ اَخَاہُمۡ شُعَیۡبًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ وَ لَا تَنۡقُصُوا الۡمِکۡیَالَ وَ الۡمِیۡزَانَ اِنِّیۡۤ اَرٰىکُمۡ بِخَیۡرٍ وَّ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ مُّحِیۡطٍ وَ یٰقَوۡمِ اَوۡفُوا الۡمِکۡیَالَ وَ الۡمِیۡزَانَ بِالۡقِسۡطِ وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ
سورۃ ھود، رقم الآیۃ:85،84
ترجمہ: شہر مدین کی طرف ہم نے ان کے قومی بھائی شعیب )علیہ السلام (کو بھیجا انہوں نے اپنی قوم کو فرمایا: لوگو!صرف اکیلے اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اور ناپ تول میں کمی والا جرم نہ کیا کرو۔ میں تمہیں خوشحال دیکھتا ہوں اور اگر تم اللہ پر ایمان نہ لائے تو مجھے تمہارے بارے ایسے سخت دن کے عذاب کا اندیشہ ہے جو تم کو ہرطرف سے گھیر کرہی رہے گا۔ لوگو!پورا پورا انصاف کے ساتھ ناپ تول کرو لوگوں کو ان کی خریدی ہوئی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو )ایسا جرم کر کے( زمین میں فساد مت پھیلاتے پھرو۔
قحط سالی کی وجہ:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَرَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: أَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ۔۔ وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ .
سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث :4019
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہمارے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: اے مہاجرین کی جماعت…!جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے اس پرقحط سالی مسلط کر دی جاتی ہے۔
ستم دیکھئے کہ ایک طرف ملک میں آٹے کا بحران ہے تو دوسری طرف تاجر برادری ذخیرہ اندوزی والا ستم ڈھا رہی ہے لوگوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے ۔ میں مسلمان تاجر بھائیوں کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چند فرامین ذکر کرتا ہوں تاکہ وہ اس گناہ اور معاشرتی جرم سے باہر نکلیں۔
ذخیرہ اندوزی کسے کہتے ہیں؟
ذخیرہ اندوزی اِسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص یا جماعت غلہ یا دیگر اجناس کو بڑی مقدار میں اس لیے اکٹھا کر لیں یا خرید کر ذخیرہ کر لیں کہ بازار میں جب وہ جنس زیادہ مہنگی ہو جائے اور لوگوں میں اس چیز یا جنس کی مانگ کا مرکز صرف وہی بن جائیں اور لوگ مجبور ہو کر ذخیرہ اندوزی کرنے والے سے اس کی شرائط اور مقرر کردہ نرخوں کے مطابق خرید سکیں۔ یہ طریقہ سراسر غلط ہے اور ایسی ذخیرہ اندوزی شرعاحرام اور ممنوع ہے۔
ایسا کرنا حرام نہیں!
اگر بازار میں اس ذخیرہ کی جانے والی جنس کی کمی نہ ہو اور کسی شخص کے کسی جنس کو ذخیرہ کرنے کی وجہ سے قیمتوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا تو یہ اکٹھا کر لینا وہ ”ذخیرہ اندوزی“ نہیں کہلاتا کہ جس کی شریعت نے مذمت بیان کی ہو اور اس سے روکا ہو۔
تاجر برادری اور اسلام:
اسلام نے سچے تاجر کا حشر دن قیامت انبیاء اور صالحین کے ساتھ ذکر کیا ہے لیکن جب تاجر ذخیرہ اندوزی کرنے والے جرم کا مرتکب ہو تو اسلام ایسے تاجر کی سخت ترین مذمت کرتا ہے ۔
ذخیرہ اندوز گناہ گار ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنِ احْتَكَرَ حُكْرَةً يُرِيدُ أَنْ يُغْلِيَ بِهَا عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَهُوَ خَاطِئٌ۔
مسند احمد،رقم الحدیث :8617
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس تاجر نے اس) قابل مذمت (ارادے سے ذخیرہ اندوزی کی کہ وہ اس طرح مسلمانوں سے اس چیز کے مہنگے دام وصول کرے تو ایسا شخص )بڑے درجے کا ( گناہ گار ہے ۔
ذخیرہ اندوز ملعون ہے:
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اَلْجَالِبُ مَرْزُوْقٌ وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُوْنٌ۔
سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث : 2153
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جائز طریقے سے نفع کمانے والے تاجر کو)برکت والا ( رزق ملتا ہے جبکہ ذخیرہ اندوزی کرنے والا اللہ کی رحمت سےخود کو دور کر نے والا )لعنتی( ہے۔
ذخیرہ اندوز کو دنیا میں سزا:
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ وَهُوَ يَقُولُ: مَنِ احْتَكَرَ عَلَى الْمُسْلِمِيْنَ طَعَامَهُمُ ابْتَلَاهُ اللهُ بِالْجُذَامِ أَوْ بِالْإِفْلَاسِ۔
شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث : 10704
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے مسلمانوں کی ضرورت کے وقت ان کے کھانے پینے )اور ضرورت کی اشیاء (کی ذخیرہ اندوزی کی ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کوڑھ کے مرض میں مبتلا کر دیتے ہیں یا پھر مفلس )غریب(بنا دیتے ہیں ۔
حکمران ہوں تو ایسے ، رعایا ہو تو ایسی:
عَنْ فَرُّوخَ مَوْلَى عُثْمَانَ أَنَّ عُمَرَرَضِیَ اللہُ عَنْہُ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ خَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَرَأَى طَعَامًا مَنْثُورًا فَقَالَ: مَا هَذَا الطَّعَامُ؟ فَقَالُوا: طَعَامٌ جُلِبَ إِلَيْنَا قَالَ: بَارَكَ اللهُ فِيهِ وَفِيمَنْ جَلَبَهُ قِيلَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَإِنَّهُ قَدِ احْتُكِرَ. قَالَ: وَمَنِ احْتَكَرَهُ؟ قَالُوا: فَرُّوخُ مَوْلَى عُثْمَانَ وَفُلانٌ مَوْلَى عُمَرَ۔ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا فَدَعَاهُمَا فَقَالَ: مَا حَمَلَكُمَا عَلَى احْتِكَارِ طَعَامِ الْمُسْلِمِينَ؟ قَالا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، نَشْتَرِي بِأَمْوَالِنَا وَنَبِيعُ۔ فَقَالَ عُمَرُسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنِ احْتَكَرَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ طَعَامَهُمْ ضَرَبَهُ اللهُ بِالْإِفْلاسِ أَوْ بِجُذَامٍ فَقَالَ فَرُّوخُ عِنْدَ ذَلِكَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أُعَاهِدُ اللهَ وَأُعَاهِدُكَ أَنْ لَا أَعُودَ فِي طَعَامٍ أَبَدًا وَأَمَّا مَوْلَى عُمَرَ فَقَالَ: إِنَّمَا نَشْتَرِي بِأَمْوَالِنَا وَنَبِيعُ.قَالَ أَبُو يَحْيَى: فَلَقَدْ رَأَيْتُ مَوْلَى عُمَرَ مَجْذُومًا۔
مسند احمد ، رقم الحدیث :10705
ترجمہ: حضرت فروخ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں ایک دن مسجد کی طرف تشریف لے جا رہے تھے تو دیکھا )مسجد سے باہر ( غلہ اناج کا ڈھیر لگا ہوا تھا آپ رضی اللہ عنہ سے اس بارے پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ ہمارے لیے فلاں جگہ سے لایا گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ اس غلے میں اور اس کو لانے والے شخص میں برکت عطا فرمائے۔ بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تفصیل سے بتایا گیا کہ اس کے مالکوں نے اس غلہ کی ذخیرہ اندوزی کی ہوئی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ )جنہوں نے مسلمانوں کی ضرورت کے وقت اس غلہ کو اسٹاک کیا ہوا ہے ( بتایا گیا کہ فروخ اور فلاں شخص ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں بلوایا اور فرمایا:کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ مسلمانوں کی ضرورت کے وقت غلہ کی ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ امیر المومنین !ہم اپنے مال سے خریدوفروخت کرتے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص نے مسلمانوں کی ضرورت کے وقت ان کے کھانے پینےکی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کی ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کوڑھ کے مرض میں مبتلا کر دیتے ہیں یا پھر مفلس )غریب(بنا دیتے ہیں ۔اسی وقت فروخ رحمہ اللہ نے عرض کی : اے امیر المومنین!میں اللہ سے اور آپ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی اناج کی ذخیرہ اندوزی نہیں کروں گا جبکہ دوسرے شخص نے کہا کہ ہم اپنے مال سے خرید و فروخت کرتے ہیں ۔ )یعنی ہماری مرضی ذخیرہ اندوزی کریں یا نہ کریں کسی کو اس سے کیا؟ ( ابو یحیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اسی شخص کو کوڑھ کے مرض کی حالت میں خود دیکھا ہے۔
فائدہ: کوڑھ والے مریض کا جسم گل سڑ جاتا ہے، اس میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کا گوشت ٹکڑے ٹکڑے ہوکر نیچے گرنے لگتا ہے۔جسم سے شدید بدبو آتی ہے۔ جلد، چہرے اور دیگر حصوں پر بدنما داغ پیدا ہوجاتے ہیں۔
عوام ، تاجر برادری اور حکومت:
1: عوام سے گزارش ہے کہ گناہوں سے بچیں، سابقہ گناہوں پر استغفار اور آئندہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کریں ۔ پھر بھی گناہ ہوجائے تو فورا توبہ کریں ورنہ ہمارے گناہوں کا وبال کسی نہ کسی صورت میں ظاہر ہوتا رہے گا کبھی آٹے کا بحران ہوگا تو کبھی کسی دوسری چیز کا ۔
2: مسلمان تاجروں/مل مالکان اور دکانداروں سے گزارش ہے ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کی لعنت سے اپنے کاروبارکو پاک کریں ۔ اس وجہ سے مہنگائی میں اضافہ اور کھانے پینے کی اشیاء میں کمی آرہی ہے غریب عوام آپ کے پیدا کردہ بحران میں بری طرح پِس رہے ہیں۔ اسلامی طریقہ تجارت کے مطابق جائز منافع کمائیں ۔
3: ارباب حکومت سے گزارش ہے کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے والی کمیٹوں کو فعال کر کے آٹے اور چینی وغیرہ کے بحران اور ذخیرہ اندوزی کے مستقل سد باب کےلیے مضبوط اور منظم اقدامات کریں ۔جگہ جگہ اس کی کڑی نگرانی کریں اور عوام کو معاشی پریشانیوں سے آزاد کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔
اللہ کریم ہماری تمام ضروریات کو اپنے کرم سے پورا فرمائے۔ تمام پریشانیوں اور بحرانوں سے نجات عطا فرمائے اور عافیت کے ساتھ دین و دنیا کی تمام تر بھلائیاں عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم ۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات ،16جنوری ،2020ء