صحابہ کرام کی آئینی حیثیت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
صحابہ کرام کی آئینی حیثیت
اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت بنیادی طور پر دو چیزوں کا مجموعہ ہے۔
نمبر 1: عقائد ۔
نمبر 2: اعمال۔
قرآن کریم میں عقائد میں بھی بنیاد صحابہ رضی اللہ عنہم کو قرار دیا گیا ہے اورمسائل میں بھی بنیادصحابہ رضی اللہ عنہم کوبنایا گیا ہے۔
صحابی کسے کہتے ہیں؟
جو شخص حالتِ ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آئے اور اسی حالتِ ایمان میں اس جہان سے جائےاُسے ”صحابی“ کہتے ہیں ۔
عقائد میں معیار؛ صحابہ :
فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَاۤ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ فَقَدِ اہۡتَدَوۡا
سورۃ البقرۃ:رقم الآیۃ 137
ترجمہ: اگر وہ لوگ صحابہ کے ایمان جیسا ایمان لائیں گے تو ہدایت یافتہ بن جائیں گے۔
صحابہ جیسے ایمان کا مطلب:
فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَاۤ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ
قرآن کریم نے یہاں لفظ مثل استعمال فرمایا ہے ۔ ”مثل“ کی دوقسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ہوتا ہے ”مثل بالکیفیت“ اور ایک ہوتا ہے ”مثل با لکمیت“۔ کیفیت اورکمیت کا معنی کیا ہے؟ ایک برابرہونا ہے مقدارمیں اورایک برابرہونا کیفیات میں، برابری کیفیت میں الگ چیزہے اور برابری کمیت میں الگ چیز ہے، اب اللہ نے فرمایا کہ ”اگر تمہارا ایمان صحابہ کے ایمان جیسا ہوا۔“
ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ہماراایمان صحابہ کے ایمان جیسا نہیں ہو سکتا تو ہمارے ذہنوں میں کیفیت آرہی ہے کہ جوکیفیت صحابہ کےایمان کی ہے وہ بعد میں کسی امتی کی پیدا نہیں ہو سکتی کیونکہ صحابہ کے ایمان کی کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی وجہ سےہے، نہ نبی نے آنا ہے نہ نبی کی صحبت ملنی ہے اور نہ صحابی جیسا ایمان ہونا ہے،اس آیت کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ تمہاری ایمانی کیفیت صحابہ کی ایمانی کیفیت جیسی ہو بلکہ آیت کامعنی یہ ہے کہ تمہاری ایمانی کمیت صحابہ کی ایمانی کمیت جیسی ہو، مطلب یہ کہ جن جن چیز وں پر وہ ایمان لائے ہیں ان ان چیزوں پرایمان لاؤ گے تو کامیابی ہے، ان میں سےایک چیز بھی چھوڑدوگے تو تمہارا ایمان قبول نہیں کریں گے۔
ایک ہے ”کیفیت“جس کا تعلق دل کے ساتھ ہے اورایک ہے ”مقدار“ جس کاتعلق ظاہرکے ساتھ ہے۔ صحابہ کاظاہر تودیکھ سکتے ہولیکن صحابہ کی کیفیت تو نہیں دیکھ سکتے، جب صحابہ کی کیفیت نہیں دیکھ سکتے توپھرکیفیت کی طرح کیفیت کیسے بنے گی؟ اس لیے اللہ وہ بات فرمارہے ہیں جوبندے کے اختیار میں ہے، کیفیت چونکہ ایک باطنی اور قلبی چیز ہے اس کی مثل بندہ کرسکتا ہی نہیں اورمقدار اورکمیت ظاہر ی چیز ہے اس لیے اللہ نے ہمیں اس کا پابندکیا ہےکہ جن جن چیزوں پرصحابہ ایمان لائیں اُن اُن چیزوں پر تم ایمان لاؤ۔
اعمال میں معیار ؛صحابہ :
وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ
سورۃ التوبۃ:رقم الآیۃ 100
ترجمہ: مہاجرین و انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائےاور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہے اور وہ اس سے راضی ہیں۔
اللہ رب العزت نےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دونوں طبقوں مہاجرین اورانصارکا ذکرفرمایا اور اس طبقے کا بھی ذکر فرمایا جوان کی اتباع کریں اور ان کے نقش قدم پہ چلے۔ معلوم ہوا کہ ایمان میں بھی بنیادصحابہ ہیں اوراعمال میں بھی بنیادصحابہ ہیں، اگرکوئی ان کی اتباع نہ کرے تو نہ اس کا ایمان قبول ہے اور نہ ہی اس کے اعمال قبول ہیں۔
شانِ صحابہ :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ۔
صحیح البخاری: رقم الحدیث: 3673
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ کو برا مت کہو اللہ نے اِنہیں یہ مقام بخشا ہے کہ اِن میں سے کوئی ایک آدھا مُد جَو خرچ کرے اور صحابہ کے بعد لوگ احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کریں تو یہ صحابی کی مٹھی بھر جو کے برابر نہیں ہو سکتے۔
دین صحابہ سے سمجھیں:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيْلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةًكُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي۔
جامع الترمذی: رقم الحدیث: 2641
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت پہ بالکل وہی حالات آئیں گے جوبنی اسرائیل پہ آئے تھے حتی کہ اگر بنی اسرائیل میں کوئی ایسابدکردارگزرا جس نے اپنی ماں سے منہ کالا کیا ہےتو میری امت میں بھی ایسا بندہ آئے گا جو ماں سے منہ کالا کرے گا۔ (یعنی اتنے ابترحالات پیدا ہوجائیں گے، پھر فرمایا) بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ میری امت میں تہتر فرقے ہوجائیں گے یہ سارے فرقےجہنم میں جائیں گے صرف ایک جنت میں جائے گا۔ جنت میں جانے والاوہ ہوگا جودین مجھ سےلے گا اورمعنی میرے صحابی سے لے گا ۔
تمام صحابہ محفوظ ہیں:
پیغمبرکی ذات معصوم ہے، اللہ اپنے نبی کوگناہ سے بچاتے ہیں اورصحابہ محفوظ ہیں ۔ محفوظ کا معنی یہ ہے کہ صحابی سےگناہ ہو جاتا ہے لیکن اللہ اس کےنامہ اعمال میں باقی رہنے دیتا نہیں۔ نبی اکیلا معصوم ہے۔صحابی اکیلا مؤمن ہے، صحابی اکیلا عادل ہے، صحابی اکیلا حجت ہے، صحابی اکیلا معیار ہے اورجب سارے صحابہ رضی اللہ عنہم کسی مسئلہ پہ جمع ہوجائیں تو ایسے ہی معصوم ہیں جیسے نبی تنہا معصوم ہوتا ہے۔
تنقید سے بالا تر :
صحابہ تنقیدسے بالا ترہیں۔ تنقید سے بالاتر ہونے کا معنی یہ ہے کہ ان پرتنقید ہو ہی نہیں ہوسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں تنقیدکی بنیادیں دو ہیں، تنقید کی بنیاد ”عقیدہ“ یا تنقید کی بنیاد ”عمل“ اگرتنقیدکی بنیاد عقیدہ ہو تو عقیدہ غلط ہو جائے وہ صحابی ہے ہی نہیں۔اوراگرعمل غلط ہوجائے تو ہم نے عمل کی بنیاد پرصحابی مانا ہی نہیں ہے۔ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تنقید سے بالا تر ہیں۔
سیدنا ابوبکر کی اہل بیت سے محبت:
فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3712
ترجمہ: سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے قسم ہے اس ذات کے جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ داروں (جن میں اہل بیت بھی داخل ہیں (سے حسن سلوک کرنا مجھے اپنے قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔
حسن بن علی سے محبت:
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : إِنِّي مَعَ أَبِي بَكْرٍ حِينَ مَرَّ عَلَى الْحَسَنِ فَوَضَعَهُ عَلَى عُنُقِهِ ثُمَّ قَالَ: بِأَبِي شَبِيْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا شَبْهَ عَلِيٍّ۔ وَعَلِيٌّ مَعَهُ فَجَعَلَ يَضْحَكُ.
سنن الکبریٰ للنسائی ،رقم الحدیث: 8105
ترجمہ: حضرت عقبہ بن الحارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ راستے میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو ان کو ازراہ محبت اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور اُن سے فرمایا: میرے باپ آپ پر قربان! آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم شکل زیادہ لگتے ہو بنسبت حضرت علی المرتضیٰ کے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ سارا معاملہ دیکھ کر مسکرانے لگے۔
عمر کی فاطمہ سے عقیدت:
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ دَخَلَ عَلٰى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:يَا فَاطِمَةُ وَاللهِ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ وَاللهِ مَا كَانَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ أَبِيْكِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْكِ۔هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ عَلٰى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ۔
المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث :4736
ترجمہ: حضرت زید بن اسلم کے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: اے نبی کی لخت جگر!اللہ کی قسم میں نے آپ سے بڑھ کر کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب نہیں دیکھا۔ واللہ بخدا!آپ کے والد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں مجھے آپ سے بڑھ کر کوئی عزیز نہیں ۔
سائبر کرائم ایکٹ:
حالیہ دنوں میں پاکستان کےایک نجی ٹی وی چینل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کےبارے نفرت انگیز باتیں نشر کی گئی ہیں ۔ ہم قانون پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور قانون ہاتھ میں لے کر ملک کو داخلی انتشار میں نہیں دھکیلتے بلکہ تمام ملکی و انتظامی معاملات میں قانون کی مکمل بالادستی چاہتے ہیں۔سائبرکرائم ایکٹ جوایک قانون کی حیثیت رکھتا ہے اس کی دفعات و تعزیرات میں یہ موجود ہے کہ” جرم اور نفرت انگیز تقاریر کی تائید و تشہیر پر 5 سال قید یا 1 کروڑ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔“ عدالت از خود اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لائے اور قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دے ۔تاکہ ملک میں اہل اسلام کی مقتدر شخصیات کا تقدس پامال نہ ہو ۔
پیمرا(PEMRA) :
پاکستان کے عوام سے میری گزارش ہے کہ آئین ہمیں پُرامن احتجاج کا حق دیتا ہے۔ ایسے معاملات میں احتجاج کے لیے ” پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی“ PEMRA) (کے نام سے ادارہ موجودہے۔ ملک کو حساسیت سے بچانے کےلیے ایسے تمام افراد اور اداروں پر کڑی نظر رکھیں جو ملکی استحکام اور سالمیت کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں بالخصوص ایسے ٹی وی چینل جو مذہبی اشتعال پھیلانے میں ملوث ہیں۔آپ اپنااحتجاج درج ذیل کال نمبر یا ای میل پر ریکارڈ کراسکتے ہیں تاکہ پیمرا قانونی طور پر انہیں ضابطہ اخلاق کا پابند بنائے۔
فری کال : 0800-73672
Email: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
اللہ کریم ہم سب کو صحابہ اور اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم سے سچی محبت عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات ،30جنوری ،2020ء