شانِ سیدنا صدیق اکبر حصہ دوم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
شانِ سیدنا صدیق اکبر )حصہ دوم(
اللہ تعالیٰ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام تو کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار بھیجے لیکن ان میں افضل الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی فضیلت کسی اور کے حصہ میں نہ آئی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کا انتخاب فرمایا لیکن ان میں افضل الصحابہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا مقام و مرتبہ کسی کے حصہ میں نہ آیا۔
رفیقِ غار و مزار:
گزشتہ قسط میں ہم نے بہت اختصار سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مبارک زندگی کے کچھ گوشوں کا تذکرہ کیا تھا اور اب اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ قبول اسلام کے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق بنے اور ایسے رفیق بنے کہ یہ رفاقت ہمیشہ قائم رکھی اور وفا کی انتہاء دیکھیے کہ آج بھی صدیاں بیت جانے کے بعد مزار اقدس میں اسی رفاقت کو نبھائے چلے جا رہے ہیں ۔ آ پ رضی اللہ عنہ نے اپنی سچی رفاقت کی گواہی اپنے عمل سے دی۔ چنانچہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ اشاعت و تحفظ اسلام کے عظیم مشن پر لگ گئے۔ اس کے لیے دعوت و تبلیغ اور فتنوں کا مقابلہ کیا ۔
دعوت و تبلیغ:
سیرۃ لابن ہشام، اسد الغابہ اور تاریخ الخمیس میں چند ان جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام موجود ہیں جنہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ، نام یہ ہیں : عثمان بن عفان ، زبیر بن العوام ، عبدالرحمٰن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص ، طلحہ بن عبیداللہ ، عثمان بن مظعون ، ابوعبیدہ ، ابو سلمہ بن عبدالاسد حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ ان میں سے بعض کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے جن کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں نام لے کر جنتی ہونے کی بشارت دی تھی ۔
ہجرت :
سیرت کی تمام معتبر کتابوں میں ہجرت کا واقعہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے مختصرا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں اللہ کے دین کی دعوت دیتے رہے بعض خوش نصیب افراد نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور اسلام قبول کر لیا لیکن اکثر اپنی سرکشیوں کی وجہ سے آپ کو اور آپ کے رفقاء کار کو طرح طرح کی تکالیف دیتے چنانچہ اللہ کی طرف سے ہجرت کا حکم نازل ہوا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خطر سفر میں اپنے رفیق سفر کا جب انتخاب فرماتے ہیں تو آپ کی نگاہ سیدنا صدیق اکبر پر جا کر ٹھہرتی ہے ۔ اسی سفر میں وہ واقعہ بھی پیش آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر سوار ہو گئے اور چنانچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا کر غار ثور تک پہنچے ۔ غار کی صفائی کی، آپ تین دن تک وہاں رہے ۔
آپ کی بیٹی روزانہ لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر آپ کےلیے کھانا پہنچاتیں۔ دشمن آپ کی تلاش میں پیچھے پیچھے غار تک پہنچ گیا یہاں تک کے اس کے قدم بھی دکھائی دینے لگے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم کے بارے میں خوف ہوا تو تسلی کے لیے قرآن کی آیات نازل ہوئیں مزید سیدنا صدیق اکبر کی صحابیت کا اعزاز بھی اپنے سینے پر تاقیامت نقش کردیا ۔اس غار میں وہ سانپ کے ڈسنے والا واقعہ بھی پیش آیا۔ جس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن سیدنا صدیق اکبر کی ایڑی پر لگایا ۔
خلافت :
سیرت حلبیہ اور دیگر کتب سیرت میں موجود ہے کہ امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اس لیے اتفاق کر لیا تھا کہ اس آسمان کے نیچے ابو بکر سے بہتر اور کوئی شخص نہیں تھا۔
خلافت کا مفہوم:
امام شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتا ب ”ازالۃ الخفاء“ میں خلافت کے مفہوم پرنہایت ہی عمدہ اور لطیف بحث کی ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے: حضرت سرور ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام تھی اور آپ تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کے واسطے مبعوث ہو ئے تھے بعد بعثت آپ نے جن امور کا اہتمام کوشش بلیغ کے ساتھ فرمایا…تمام کوششوں کا مرجع اقامت دین تھی … علوم دین کا احیاء (قائم رکھنا اور رائج کرنا ) علوم ِ دین سے مراد ہے قرآن و سنت کی تعلیم اور وعظ و نصیحت ، ارکانِ اسلام نماز ، روزہ ، حج وغیرہ کا قیام و استحکام ، لشکر کا تقرر غزوات کا اہتمام، مقد مات کا انفصال ، قاضیوں کا تقرر ، امر با لمعروف ( عمدہ افعال و اوصاف کا حکم دینا اور ان کو رائج کر نا ) اور نہی عن المنکر ( بری باتوں کو روکنا اور ان کا انسداد کر نا ) جو حکام ِ نائب مقرر ہوں ان کی نگرانی کہ پا بند ِ حکم رہیں اور خلاف ورزی احکام نہ کریں۔
ان جملہ امور کا اہتمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس ِ نفیس فر ما یا اور ان کے انصرام کے واسطے نا ئب بھی مقرر فرمائے وعظ و نصیحت فر مائی ، صحابہ کو ممالک میں وعظ و نصیحت کے واسطے بھیجا ،جمعہ و عیدین و پنج وقتہ نماز کی امامت خود فرمائی، دوسرے مقامات کے واسطے امام مقرر کیے ، وصول زکوٰة کے واسطے عامل ما مور کیے، وصول شدہ اموال کو مصارف مقررہ میں صرف کیا۔رویت ہلال کی شہادت آپ کے حضور میں پیش ہوئی اور بعد ثبوت روزہ رکھنے یا عید کرنے کا حکم صادر ہو تا ، حج کا اہتمام بعض اوقات خود فر مایا بعض اوقات نائب مقرر کیے جس طرح 9ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا، غزوات کی سپہ سا لاری خود کی نیز اُمراء نائب سے یہ کام لیا گیا مقد مات و معاملات کے فیصلے کیے گئے قاضیوں کا تقرر عمل میں آیا۔ گویا خدائی احکامات کو نبوی منہج کے مطابق نافذ کرنے کا نام خلافت ہے ۔
خلافت کے بعد ابتدائی خطبہ:
امام ابن سعد نے طبقات اور امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین و تدفین سے فارغ ہونے کے بعد دوسرے دن سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت عام ہوئی ۔ اس موقع پر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک شاندار فقید المثال خطبہ دیا :حمد وثنا کے بعد فرمایا: لوگو!میں آپ لوگوں پر ولی منتخب کیا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہترین نہیں ہوں ۔ اگر میں اچھی بات کروں تو تم میرا ساتھ دینا اگر میں خطا کروں تو میری غلطی درست کرا دینا۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے میں اس کا حق ضرور دلواؤں گا۔ اور جو تم میں سے قوی ہے میرے ہاں کمزور ہے میں اس سے پورا حق وصول کر وں گا۔ جو قوم بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ترک کر دیتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ ذلت و رسوائی ڈال دیتے ہیں اور جو قوم علانیہ برائیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اللہ تعالی ان پر مصائب و تکالیف مسلط کر دیتے ہیں ۔
جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کروں تم میری بات ماننا اور جب میں خدا اور رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں اللہ تم پر رحم فرمائے اب نماز کا وقت ہو گیا ہے ۔
حضرت علی کی نظر میں:
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ عُمَرُ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث :3671
ترجمہ: محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے اپنے والد )حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ(سے پوچھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر انسان کون ہے؟ تو میرے والد نے فرمایا: ابوبکر )رضی اللہ عنہ( میں نے پھر پوچھا کہ ان کے بعدکون ؟ جواب دیا کہ عمر )رضی اللہ عنہ ( ۔
عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ:أَلا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا؟ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ قَالَ:أَلا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ عُمَرُ۔
مسند احمد،رقم الحدیث :833
ترجمہ: وہب بن عبداللہ ابو جحیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہتر انسان حضرت ابو بکر ہیں اور حضرت ابوبکر کے بعد سب سے بہتر انسان حضرت عمر ہیں۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ إِنِّي لَوَاقِفٌ فِي قَوْمٍ فَدَعَوُا اللهَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَقَدْ وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ إِذَا رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي قَدْ وَضَعَ مِرْفَقَهُ عَلَى مَنْكِبِي يَقُولُ رَحِمَكَ اللهُ إِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَكَ اللهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ لِأَنِّي كَثِيرًا مَا كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُنْتُ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَفَعَلْتُ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَانْطَلَقْتُ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَإِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَكَ اللهُ مَعَهُمَا فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث :3677
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوا تھا جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے دعائیں کر رہے تھے اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کا جنازہ رکھا گیا تھا اتنے میں ایک شخص میرے پیچھے سے آکر میرے کندھوں پر کہنیاں رکھ دیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہنے لگے: اللہ آپ پر رحم کرے!مجھے تو یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ جمع کرے گا۔ میں اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا کرتا تھا کہ میں اور ابوبکر و عمر تھے۔ میں نے اور ابوبکر و عمر نے یہ کام کیا۔ میں اور ابوبکر وعمر گئے۔ اس لیے مجھے امید یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان ہی دونوں بزرگوں کے ساتھ رکھے گا ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تھے۔
ریاستی ذمہ داریاں:
تمام تاریخ نویسوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضر ت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد ریاستی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا۔ امن و آتشی،عدل و انصاف ،خوشحالی و ترقی گھر گھر تک پہنچائیں،معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کیے اور مدینہ منورہ کے ریاستی انتظامات جیسے عہد نبوی میں چلے آ رہے تھے ان کو بحال رکھا۔
حفاظتِ ختم نبوت:
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بے شمار کارنامے ایسے ہیں جن پر دنیا رہتی دنیا تک ناز کرے گی۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مختلف ایسے فتنے رونما ہوئے جو اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اپنی توانیاں صرف کر رہے تھے ۔ ان میں مدعیان نبوت کا فتنہ سر فہرست ہے۔یمن میں اسود عنسی ، یمامہ میں مسیلمہ کذاب ، جزیرہ میں سجاح بنت حارث ، بنو اسد و بنو طی میں طُلیحہ اسدی نے نبوت کے دعویٰ داغ دیے،ختم نبوت کوئی معمولی مسئلہ نہ تھا کہ جس کے لیے مصلحت اختیار کر لی جاتی بلکہ یہ تو اسلام کے اساسی و بنیادی عقائد میں شامل ہے۔ اس لیے اس فتنے کے خلاف سیدنا صدیق اکبر نے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور لشکر اسلامی کو بھیج کر ان کا قلعہ قمع کیا۔
مانعین زکوٰۃ کی سرکوبی:
فتنہ مانعین زکوٰۃ نے سر اٹھایا اور کہا کہ ہم سے زکوٰۃ وصول کرنے کا اختیار صرف رسول پاک کو تھا آپ کو نہیں آپ نے اس فتنے کا پوری قوت اور جوانمردی سے مقابلہ کیا اور برملا فرمایا کہ جو عہد نبوی میں زکوٰۃ دیتا تھا اور اب اگر اس کے حصے میں اونٹ کی ایک رسی بھی زکوٰۃ کی بنتی ہے وہ نہیں دیتا تو میں اس سے قتال کروں گا۔
دشمنان اسلام کا قلعہ قمع:
اس کے بعد ہر سو کفار کی طرف سے جنگوں کی ابتداء ہوئی ۔ عراق میں آپ نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کےتحت لشکر روانہ کیا ۔ عراق کے بہت سے مضافات آپ نے فتح کیے ۔ خورنق ، سدیر اور نجف کے لوگوں سے مقابلہ ہوا ۔ بوازیج ، کلواذی کے باشندوں نے مغلوبانہ صلح کی۔ اہل انبار سےکامیاب معرکہ لڑا گیا ، عین التمر میں اسلام کو غلبہ ملا، دومۃ الجندل میں اہل اسلام کامیاب ہوئے ، اس کے بعد حمید، فضیع اور فراض پر اسلامی لشکر فتح و نصرت کے پھریرے لہراتے گئے۔ لشکر صدیقی نے شام میں رومیوں کو ناکوں چنے چبوائے۔
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے:
البدایۃ والنہایہ میں ہے کہ حضرت علاء حضرمی رضی اللہ عنہ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں مرتدین کی سرکوبی کے لیے بحرین کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ میں ایک دریا آیا ۔ حضرت علاء کو لشکر والوں نے کہا کہ کشتی تیار نہیں ہے اس لیے کچھ وقت کے لیے رک جائیں تاکہ کشتی تیار کر لی جائے ۔ حضرت علاء رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا حکم ہے وہاں جلدی پہنچنے کا اس میں میں رک کر انتظار نہیں کر سکتا اور یہ کہہ کر دعا کی اے اللہ آپ نے جس طرح اپنے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی برکت سے بنی اسرائیل کو) بغیر کشتیوں کے (دریا پار کرایا اسی طرح آج ہم کو ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے بغیر کشتیوں کے دریا پار کرادے!پھر آپ نے ان الفاظ سے دعا کی :
یا علیم یا حلیم یا علی یا عظیم انا عبیدک وفی سبیلک نقاتل عدوک اللھم فاجعل لنا الیھم سبیلا۔
اس کے بعد آپ نے اپنا گھوڑا دریا میں اتارا اور آپ کے ساتھ لشکر والوں نے بھی اپنی سواریاں دریا میں ڈال دیں۔ دریا عبور کرتے وقت تمام لشکر کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے:
یا ارحم الراحمین یا حکیم یا کریم یا احد یا صمد یا حی یا قیوم یا ذاالجلال والاکرام لاالہ الا انت ربنا۔
حضرت علاء اور آپ کا لشکر اس دریا پر ایسے چل رہے تھے جیسے کوئی زمین پر سہولت کے ساتھ چلتا ہے دریا کا پانی ان کی کے جانوروں کے گھٹنوں تک ہی پہنچا تھا ۔ جب پورا لشکر دریا کے دوسرے کنارے پہنچ گیا تو سارا سامان وغیرہ جوں کا توں باقی تھا کوئی چیز گم نہ ہوئی۔ سچ کہا جس نے بھی کہا:
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ

چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات میں دوڑا دیے

گھوڑے ہم نے

جمع وتدوینِ قرآن :
جمع قرآن کی خدمت بھی آپ کے مبارک دور کی یادگار ہے ۔ قیامت کی صبح تک آنے والے ہرشخص پر آپ رضی اللہ عنہ کا احسان موجود ہے جتنے بھی لوگ قرآن پڑھتے رہے پڑھ رہے ہیں یا آئندہ پڑھیں گے ان کے ثواب میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ برابر کے شریک ہیں ۔
سلسلسہ عالیہ نقشبندیہ:
اس کے ساتھ ساتھ تصوف یعنی سلوک و احسان کے سلسلہ نقشبندیہ میں آپ کی حیثیت بہت قابل قدر ہے ۔
علمی خدمات:
آپ کی علمی خدمات بھی موجود ہیں چنانچہ ایک قول کے مطابق ایک سو بیالیس حدیثیں بہ روایت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مر وی ہیں۔ جن کو امام جلال الدین سیو طی رحمہ اللہ نے ”تاریخ الخلفاء “ میں ایک جگہ جمع کر دیا ہے ،اُمت کو فقہی معاملات میں جو مشکلات در پیش تھیں آپ نے اُ ن کا حل تجویز کیا مثلاًمیراث جدہ، میراث جد ، تفسیر ِ کلالہ ، حد شُرب خمر۔وغیرہ ۔
وفات :
بالآخر وہ وعدہ وفا ہونے کا وقت آ پہنچا کہ ہر ذی روح موت کا پیالہ ضرور پئیے گا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پہلا جانثار و فادار صحابی اور پہلا خلیفہ13 ہجری جمادی الثانی کے ساتویں دن بیمار ہوئے اور 15 دن علیل رہ کر 22 جمادی الثانی مغرب اور عشاء کی درمیان فراق یار کو خیر باد کہہ کر وصال یار کے لیے عازم سفر ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
وصیت اور تدفین:
الشریعہ میں امام آجری رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ جب میں فوت ہوجاؤں تو مجھے روضہ رسول کے سامنے رکھ دینا اور عرض کرنا کہ آپ کا غلام آیا ہے اگر اجازت مل جائے تو وہاں دفن کرنا ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا ۔
تفسیر کبیر میں امام رازی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ وصیت کے مطابق آپ کی میت کو روضہ رسول کے سامنے رکھا گیا اور یوں عرض کی گئی : یارسول اللہ آپ کاغلام ابو بکر سامنے حاضر ہے ۔ چنانچہ قبر مبارک سے آواز آئی محب کو محبوب تک پہنچا دو ۔ چنانچہ آپ کو روضہ رسول میں ہی دفن کیا گیا ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سچی محبت عطا فرمائے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات ،13 فروری ،2020ء