شانِ سیدنا صدیق اکبر حصہ اول

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
شانِ سیدنا صدیق اکبر )حصہ اول(
اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں خلیفہ بلافصل سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات پر کہ جن کے اہل اسلام پر لاکھوں احسانات ہیں۔ وہ قومیں دنیا کے افق سے غروب ہوجاتی ہیں جو اپنے محسنوں کو فراموش کر دیں آئیے آج اس عظیم محسن امت کامختصر تذکرہ کرتے ہیں کہ جن کے تذکرے سے ایمان کو تازگی اور عمل کو اخلاص کی دولت ملتی ہے ۔
ولادت :
آپ کی ولادت واقعہ فیل سے تین سال بعد 573ء میں ہوئی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ دو سال چند ماہ چھوٹے ہیں ۔
نام مبارک اورنسب:
امام زرقانی نے شرح المواہب میں لکھا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبد رب الکعبہ تھا ۔ امام قرطبی رحمہ اللہ کے بقول حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبداللہ تجویز فرمایا۔
تاریخ کی کتب میں مذکور ہے کہ آپ کے والد ماجد ابوقحافہ کانام "عثمان" تھا ، جن کا تعلق بنوتیم قبیلہ سے تھا اور نسب مبارک اس طرح ہے:
ابوقحافہ عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن مره بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر القرشی التيمی۔جبکہ آپ کی والدہٴ ماجدہ کا نام ”ام الخیر سلمی“ تھا ، ان کا نسب مبار ک اس طرح ہے:
سلمیٰ بنت صخر بن عمر وبن کعب بن سعد بن تيم ۔
کنیت:
کنیت ابوبکر ہے ۔ جس کے معنی سبقت کرنے والے کے،پہل کرنے والے کے ہوتے ہیں چنانچہ آپ ہر خیر کے کام میں سبقت فرمایا کرتے۔ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول فرمایا ، دین اسلام کی اشاعت میں سب سے پہلے اپنا مال خرچ کرنے کی سعادت حاصل کی۔
حلیہ مبارک :
تاریخ کی کتب میں آپ رضی اللہ عنہ کے حلیہ مبارک کچھ اس طرح منظر کشی کی گئی ہے کہ آپ کا رنگ سفید ، رخسار ہلکے ہلکے ، چہرہ باریک اور پتلا ، پیشانی بلند ۔
پاکیزہ بچپن :
ارشاد الساری میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تشریف فرماتھے تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے بچپن کا واقعہ سناتے ہوئے فرمانے لگے کہ یارسول اللہ ! میرےوالدزمانہ جاہلیت میں مجھےصنم کدےلے گئے اور بتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا یہ تمہارے خدا ہیں انہیں سجدہ کر۔ وہ تو یہ کہہ کر باہر چلے گئے۔
میں نے بت کو عاجز ثابت کرنے کےلیے کہا میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دےوہ کچھ نہ بولا ۔فرمایا :میں ننگا ہوں مجھے کپڑا پہنا ۔وہ کچھ نہ بولا۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پتھر ہاتھ میں لے کرکہا میں تجھ پر پتھر مارتا ہوں اگر تو خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا۔ وہ پھر بھی نہ بولا تو آخر کار میں پوری قوت سے اس کو پتھر مارا تو وہ منہ کے بل گر پڑا۔
عین اسی وقت میرے والد واپس آئے۔یہ ماجرا دیکھ کر فرمایا کہ یہ کیا کیا؟ میں نے کہا وہی جو آپ نے دیکھا ۔ وہ مجھے میری والدہ کے پاس لےکر آئے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا ۔انہوں نے فرمایا اس بچے سے کچھ نہ کہو کہ جس رات یہ پیدا ہوئے میرے پاس کوئی نہ تھا میں نے ایک آواز سنی کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا: اے اللہ کی بندی! تجھے خوشخبری ہو اس آزاد بچے کی جس کا نام آسمانوں میں صدیق ہے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دوست ہے ۔
آپ کے بچپن سے متعلق تاریخ الخلفاء میں ہے کہ ایک بار صحابہ کرام میں سے کسی نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے جاہلیت میں شراب پی ہے ۔آپ نے فرمایا خدا کی پناہ میں نے کبھی شراب نہیں پی ۔لوگوں نے کہا کیوں؟فرمایا میں اپنی عزت و آبرو کو بچاتا تھا اور مروت کی حفاظت کرتا تھا ۔اس لئے کہ جو شخص شراب پیتا ہے اس کی عزت و ناموس اور مروت جاتی رہتی ہے ۔جب اس بات کی خبر حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے دو بار فرمایا سچ کہا ابوبکر نے سچ کہا ۔
عتیق و صدیق:
یہ دو آپ کے القاب ہیں۔ امام ترمذی نے اپنی سنن میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی ایک روایت ذکر کی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقد س میں حاضر ہوئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آپ اللہ کی طرف سے جہنم کی آگ سے آزاد (محفوظ) ہو اسی دن سے آپ کو عتیق کہا جانے لگا ۔
امام حاکم مستدرک علی الصحیحین میں ایک روایت نقل فرماتے ہیں کہ شب معراج کے اگلے دن مشرکین مکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا، اپنے صاحب کی اب بھی تصدیق کروگے؟ انہوں نے دعوٰی کیا ہے: راتوں رات بیت المقدس کی سیر کرآتے ہیں۔ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: بیشک آپ نے سچ فرمایا ہے ، میں تو صبح وشام اس سے بھی اہم امور کی تصدیق کرتا ہوں۔ اس واقعہ سے آپ کا لقب صدیق مشہور ہوگیا۔
مبارک خواب :
سیرت حلبیہ میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ بغرض تجارت شام تشریف لے گئے وہاں آپ کی ملاقات بحیرا راہب سے بھی ہوئی وہ خوابوں کی تعبیر بتلایا کرتے تھے ان سے اپنا خواب ذکر کیا کہ میں نے خواب دیکھا کہ مکہ میں کعبۃ اللہ کی چھت پر چاند اترا ہے اور اس کی روشنی سارے گھروں میں پھیل گئی ہے پھر وہ روشنی میری گود میں آگئی ہے ۔ تو بحیرا راہب نے تعبیر دیتے ہوئے کہا کہ تو اس نبی کی تابعداری کرے گا جس کی اس زمانے میں انتظار کی جا رہی ہے اور اس کے ظہور کا زمانہ بہت قریب آچکا ہے تو اس نبی کے قرب کی وجہ سے لوگوں میں سب سے زیادہ سعادت مند ہوگا ۔
نوٹ : امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ خود بھی خواب کی تعبیر دینے میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے اور اسی طرح علم الانساب میں بھی آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔
قبول اسلام :
خصائص الکبریٰ اور ریاض النضرہ میں ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے شام میں خواب دیکھا ۔اس کی تعبیر بحیرا راہب سے پوچھی تو اس نے کہا کہ تیری قوم میں ایک نبی مبعوث ہوگا تو اس کی زندگی میں اس کا وزیر ہوگا اور اس کی وفات کےبعد اس کا خلیفہ ہوگا ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس بات کو اپنے دل میں چھپائے رکھا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی سے اس پر دلیل مانگی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس کی دلیل وہ خواب ہے جو تو نے شام میں دیکھا تھا ۔ چنانچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر بوسہ دیا۔
مقام نگاہ نبوت میں :
آپ کا مقام نگاہ نبوت میں بہت بلند تھاحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی چیز ایسی اللہ تعالی نے میرے سینہ میں نہیں ڈالی جس کو میں نے ابو بکر کے سینہ میں نہ ڈال دیا ہو۔
صحیح مسلم میں ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا ”وہ کون شخص ہے جس نے آج روزہ رکھ کر صبح کی ہو ؟ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میں نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا وہ کون ہے جو آج کسی جنازہ کے ساتھ گیا ہو ؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیامیں !
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا !وہ کون ہے جس نے آج مسکین کو کھا نا کھلا کر تسکین دی ہو ؟ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی میں نے !
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا ، وہ کون آدمی ہے جس نے آج کسی بیمار کی خبر گیری کی ہو ؟ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی ، میں نے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ، یہ کام اُسی آدمی میں جمع ہوتے ہیں جو جنت میں جائے گا۔
صحبت و معیت:
قبول اسلام سے پہلے بھی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت عمدہ تعلقات تھے اور قبول اسلام کے بعد تو ساری زندگی آپ سے لمحہ بھر کے لیے جدا نہ ہوئے ۔ یہاں تک کہ آج تک روضہ مبارکہ میں آپ کے پہلو میں ساتھ نبھا رہے ہیں ۔
ہجرتِ حبشہ کا ارادہ:
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
فَلَمَّا ابْتُلِيَ الْمُسْلِمُونَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا نَحْوَ أَرْضِ الْحَبَشَةِ حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَرْكَ الْغِمَادِ لَقِيَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ وَهُوَ سَيِّدُ الْقَارَةِ فَقَالَ أَيْنَ تُرِيدُ يَا أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَخْرَجَنِي قَوْمِي فَأُرِيدُ أَنْ أَسِيحَ فِي الْأَرْضِ وَأَعْبُدَ رَبِّي قَالَ ابْنُ الدَّغِنَةِ فَإِنَّ مِثْلَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ لَا يَخْرُجُ وَلَا يُخْرَجُ إِنَّكَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ فَأَنَا لَكَ جَارٌ ارْجِعْ وَاعْبُدْ رَبَّكَ بِبَلَدِكَ فَرَجَعَ ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث :3905
ترجمہ: جب اہل اسلام آزمائشوں کا شکار ہوئے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حبشہ ہجرت کرنے کا ارادہ کیا اور برک الغماد تک پہنچ بھی چکے تھے تو وہاں قبیلہ قارہ کے سردار ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی ۔ اس نے پوچھا ابوبکر کہاں جا رہے ہو ؟ آپ نے فرمایا: مجھے میری قوم قریش نے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے تو میں نے ارادہ کیا ہے کہ یہ زمین چھوڑ کر حبشہ چلا جاؤں تاکہ اپنے رب کی عبادت کر سکوں ۔ ابن الدغنہ نے کہا:
فَإِنَّ مِثْلَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ لَا يَخْرُجُ وَلَا يُخْرَجُ إِنَّكَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ۔
اے ابوبکر !آپ جیسے لوگ نہ از خود نکلتے ہیں اور نہ ہی نکالے جانے چاہییں آپ لوگوں کو وہ چیزیں دیتے ہو جو ان کے پاس نہیں ہوتیں۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔لوگوں کےاخراجات وغیرہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں ۔مہمان نوازی کرتے ہیں اور جھگڑوں میں حق والوں کی مدد کرتے ہیں ۔
ابن الدغنہ کہنے لگے : میں آپ کو پناہ دیتا ہوں آپ واپس لوٹ جاؤ اور اپنے شہر میں رب کی عبادت کریں۔ تو آپ واپس آگئے۔
اوصافِ نبوت کا عکس جمیل:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی جس کی ہیبت و عظمت سے آپ خشیت کے عالم میں گھر تشریف لائے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: زملونی زملونی مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑا اوڑھا دیا اور کچھ دیر بعد وہ خوف کی کیفیت ختم ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو واقعہ سنایا،فرمایا لَقَدْ خَشِيْتُ عَلىٰ نَفْسِيْ (مجھے اپنی جان کا خوف محسوس ہو رہا ہے(
اس موقع پر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئےفرمایا:کَلَّا وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ.
ترجمہ: خدا کی قسم!اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ توصلہ رحمی کرتے ہیں،بے کس و ناتواں لوگوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، دوسروں کو مال واخلاق سے نوازتے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق بجانب امور میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سچی محبت عطا فرمائے اور ان کےنقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات ،6 فروری ،2020ء