مصائب و آلام ……عذاب یا انعام؟

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مصائب و آلام ……عذاب یا انعام؟
اللہ تعالیٰ سے ہر وقت دعا تو یہی مانگنی چاہیے کہ وہ ہمیں آزمائشوں سے محفوظ فرما کر عافیت والی زندگی عطا فرمائے ۔ تاہم آزمائشیں ، مصیبتیں ، بیماریاں اور تکالیف قوموں کی زندگی کا حصہ ہوا کرتی ہیں۔ ان حالات میں شریعت نے ہمیں صدق دل سے صبر کا حکم دیا ہے،نیک اعمال بالخصوص صدقہ و خیرات کا حکم دیا ہے، رجوع الی اللہ کا حکم دیا ہے اور دعاؤں کا حکم دیا ہے۔ باقی رہا کہ آزمائشوں پر صبر کرنے کی وجہ سے اللہ کی طرف سے انعامات کیا ملتے ہیں ؟ آئیے اس بارے چند احادیث مبارکہ دیکھتے ہیں ۔
مؤمن کا قابلِ تعجب معاملہ:
عَنْ صُهَيْبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ.
صحیح مسلم، رقم الحدیث :7610
ترجمہ: حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مؤمن بندے کا معاملہ بہت عجیب ہے اس کا ہر معاملہ اور ہر حالت خیر ہی خیر ہے اور یہ اعزاز سوائے اہل ایمان کے کسی اور کے نصیب میں نہیں ہے۔ اگر اس )بندۂِ مؤمن(کو خوشی ، راحت اور سکھ پہنچے تو وہ اس پر اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے جو کہ اس کے حق میں خیر ہی خیر ہے ۔ اور اگر اس کو غم ، تکلیف یا دکھ پہنچے تو وہ)اپنے رب حکیم و کریم کے فیصلہ و مشیت پر یقین کرتے ہوئے( اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر کرنا اس کے لیے خیر ہی خیر ہے ۔
مصیبت :اللہ سے محبت کی دلیل:
عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّبَلَاءً قَالَ:اَلأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلٰى حَسَبِ دِينِهِ فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلٰى حَسَبِ دِينِهِ فَمَا يَبْرَحُ البَلَاءُ بِالعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَة۔
جامع الترمذی،رقم الحدیث :2398
ترجمہ: حضرت مصعب بن سعد اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کےرسول!سب سے زیادہ آزمائش کس کی ہوتی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء کرام علیہم السلام کی پھر اس کے بعد درجہ بدرجہ جو افضل ہوں ۔ ہر شخص کی آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے ہوتی ہے اگر اس کی دینی حالت مضبوط ہو تو آزمائش بھی سخت نوعیت کی ہوتی ہے اور اگر دینی حالت کمزور ہو تو آزمائش بھی اسی کے مطابق ہوتی ہے۔ بندےپر مسلسل مصائب اور پریشانیاں آتی ر ہتی ہیں یہاں تک وہ زمین پر اس حال میں پھرتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
مصائب پر صبر کرنے کا ثواب:
عَنْ سَخْبَرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أُعْطِيَ فَشَكَرَ وابْتُلِيَ فَصَبَرَ وَظَلَمَ فَاسْتَغْفَرَ وَظُلِمَ فَغَفَرَ۔ثُمَّ سَكَتَ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! مَالَهُ؟ قَالَ: اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ وَ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ۔
المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث :6613
ترجمہ: حضرت سخبرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو نعمت دی گئی اور اس نے اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کیا، اسے مصیبت دے کر آزمایا گیا تو اس نے اللہ کی مشیت و فیصلے پر صدق دل سے یقین کرتے ہوئے صبر کیا ، اس نے گناہ کیا تو اس پر استغفار )اللہ سے گناہوں کی معافی مانگنا)کیا اور اس پر کسی اور نے ظلم کیا تو بدلہ لینے کے بجائے ظالم کو معاف کر دیا ۔ اتنی بات ارشاد فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: جس بندے کے بارے میں آپ نے ساری گفتگو فرمائی ہے اس کو کیا اجر ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کے جواب میں قرآن کریم کا حصہ تلاوت فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے :انہی لوگوں کے لیے امن ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
بڑی مصیبت پر بڑا اجر:
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: إِنَّ عِظَمَ الجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ البَلَاءِ وَإِنَّ اللهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَط۔
جامع الترمذی، رقم الحدیث :2396
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ثواب کے زیادہ ہونے کا مدار آزمائش کی سختی پر ہے جس قدر سخت آزمائش ہو گی اسی قدر زیادہ ثواب ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت فرماتے ہیں تو اس کو آزمائشوں میں مبتلا کر دیتے ہیں جوشخص اللہ کے اس فیصلے پر )صبر کر کے (راضی رہا تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہو جاتے ہیں اور جو شخص اللہ کے فیصلے پر ناراض ہوا تو اللہ بھی اس پر ناراض ہو جاتے ہیں ۔
تھکن ،تکلیف، رنج ،اذیت اور غم:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا هَمٍّ وَلَا حُزْنٍ وَلَا أَذًى وَلَا غَمٍّ حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا إِلَّا كَفَّرَ اللهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث :5641
ترجمہ: حضرت ابو سعید خُدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کبھی مؤمن بندے کو زیادہ تھکن پہنچتی ہے، یا تکلیف پہنچتی ہے ، یا رنج پہنچتا ہے یا اذیت پہنچتی ہے یا غم پہنچتا ہےیہاں تک کہ کانٹا لگنے جیسی معمولی تکلیف ہی کیوں نہ ہو )یعنی کوئی جسمانی یا روحانی تکلیف پہنچتی ہے (تو اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف فرما دیتے ہیں ۔
بخار سے گناہ معاف:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ اللهَ لَيَبْتَلِي عَبْدَهُ بِالسَّقَمِ حَتَّى يُكَفِّرَ ذَلِكَ عَنْهُ كُلَّ ذَنْبٍ۔
المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث :1286
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اپنے)مؤمن(بندےکو بیماریاں دےکر آزماتے ہیں یہاں تک کہ ان بیماریوں کی وجہ سے تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔
درد و تکالیف پر گناہ معاف :
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: أَتَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَجَرَةً فَهَزَّهَا حَتَّى تَسَاقَطَ مِنْ وَرَقِهَا بِمَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَتَسَاقَطَ ثُمَّ قَالَ: الْأَوْجَاعُ وَالْمُصِيبَاتُ أَسْرَعُ فِي ذُنُوبِ بَنِي آدَمَ مِنِّي فِي هَذِهِ الشَّجَرَةِ۔
شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث :9398
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے پاس تشریف لائے اس کی ٹہنی پکڑ کر زور سے ہلائی تو جس قدر اللہ نے چاہا اس کے پتے جلدی سے گرنے لگے۔ اس کےبعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے اس درخت کو ہلانے سے پتے اس قدر تیزی سے نہیں گرے جس قدر تیزی سے ابن آدم کے گناہ اس وقت جھَڑ تے ہیں جس وقت ان پر درد اور مصائب آتے ہیں ۔
بخار کو برا مت کہو:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أُمِّ السَّائِبِ أَوْ أُمِّ الْمُسَيَّبِ فَقَالَ:مَا لَكِ؟ يَا أُمَّ السَّائِبِ أَوْ يَا أُمَّ الْمُسَيَّبِ تُزَفْزِفِينَ؟ قَالَتْ : الْحُمَّى لاَ بَارَكَ اللهُ فِيهَا فَقَالَ: لاَ تَسُبِّي الْحُمَّى فَإِنَّهَا تُذْهِبُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ كَمَا يُذْهِبُ الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ.
صحیح مسلم، رقم الحدیث :6662
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت ام سائب یا ام المسیب رضی اللہ عنہا کے پاس بغرض عیادت تشریف لے گئے۔ وہ بخار کی شدت کی وجہ سے کپکپا رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیابات ہے کیوں اس قدر کپکپا رہی ہو ؟انہوں نے عرض کی بخار ہے )یہ بخار ایسی چیز ہے کہ ( اللہ اس میں برکت نہ دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بخار کو برا مت کہو!کیونکہ یہ بنی آدم سےاس کی خطاؤں کو اس طرح دور کر دیتا ہے جس طرح آگ کی بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کر دیتی ہے ۔
بخار باعث مغفرت ہے:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّمَا مَثَلُ الْعَبْدِ الْمُؤْمِنِ حِينَ يُصِيبُهُ الْوَعْكُ أَوِ الْحُمَّى كَمَثَلِ حَدِيدَةٍ تَدْخُلُ النَّارَ فَيَذْهَبُ خَبَثُهَا وَيَبْقَى طِيبُهَا
المستدرک علی الصحیحین ، رقم الحدیث :1288
ترجمہ: حضرت عبدالرحمٰن بن ازہر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مؤمن بندے کو جب بخار ہو جائے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے زنگ آلود لوہے کو آگ میں ڈالا جائے تو اس کا زنگ دور ہو جاتا ہے اور عمدہ حصہ باقی رہ جاتا ہے ۔) اسی طرح مومن بندے کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور نیکیاں باقی رہ جاتی ہیں(
سردرد پر بلندی درجات اور گناہوں سے معافی:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صُدَاعُ الْمُؤْمِنِ أَوْ شَوْكَةٌ يُشَاكُهَا أَوْ شَيْءٌ يُؤْذِيهِ يَرْفَعُهُ اللهُ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ دَرَجَةً وَيُكَفِّرُ بِهَا عَنْهُ ذُنُوبَهُ
شعب الایمان للبیہقی ،رقم الحدیث :9409
ترجمہ: حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مؤمن بندے کو جب سر میں درد ہوتا ہے یا کوئی کانٹا چبھتا ہے یا پھر کوئی ایسی چیز جس کی وجہ سے اسے تکلیف ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اس کی وجہ سے اس بندے کا جنت میں ایک درجہ بلند فرمائیں گے اور ان کی وجہ سے اس کے گناہوں کو معاف فرمائیں گے ۔
مرگی سے گناہ معاف:
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمْ قَالَ: مَا مِنْ عَبْدٍ يُصْرَعُ صَرْعَةً مِنْ مَرِضٍ إِلَّا بَعَثَهُ اللهُ مِنْهَا طَاهِرًا۔
المعجم الکبیر للطبرانی ، رقم الحدیث :7485
ترجمہ: حضرت ابواُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بندہ مرگی کے مرض کی وجہ سے گر جائے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو اس مرض کی وجہ سے گناہوں سے پاک کر کے اٹھائیں گے ۔
اہل ایمان کے لیے طاعون باعث رحمت :
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّاعُونِ فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ عَذَابٌ يَبْعَثُهُ اللهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَأَنَّ اللهَ جَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيدٍ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث :3474
ترجمہ: ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے پوچھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتلایا کہ طاعون گزشتہ قوموں کے لیے باعث عذاب تھا جس نافرمان قوم پر اللہ تعالیٰ چاہتے اس بیماری کو مسلط فرما دیتے تھے ۔ اور اب اللہ تعالیٰ نے اس بیماری کو ایمان والوں کے لیے رحمت بنا دیا ہے جو شخص بھی طاعون کے مرض میں مبتلا ہو پھر وہ صبر کرتے ہوئے اور اللہ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اپنے شہر / گاؤں میں ٹھہرا رہے اور یہ یقین کر لے کہ وہی ہوگا جو اللہ نے لکھ دیا ہے تو اس کے لیے شہید کی طرح اجر و ثواب ہے ۔
کرونا وائرس میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں:
طاعون ایک متعدی مرض ہے جیسا کہ آج کل کرونا وائرس ایک متعدی مرض کی صورت میں پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے ۔ ایسے موقع پر احتیاطی تدبیر وہی ہے کہ انسان سفر نہ کرے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں نہ جائے کیونکہ اگر یہ جانے والا شخص خود اس مرض کا شکار ہے تو اس کی وجہ سے یہ مرض دوسروں تک بھی منتقل ہوجائے گا اور اگر اس جانے والے شخص کو یہ مرض لاحق نہیں تو ہو سکتا ہے جس علاقے میں یہ جائے وہاں کسی کو یہ مرض ہو جو اس کی طرف منتقل ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ تمام امراض سے محفوظ فرمائے، عافیت والا معاملہ فرمائے لیکن وہ ذات جب اپنے مومن بندوں کو امراض و مصائب میں مبتلاکرتی ہے تو یہ بھی ان کے حق میں بہتر ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آزمائشوں سے بچا کر اسلام والی زندگی ایمان والی موت نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات ،28مئی ،2020ء