جنتی شخص کی تین علامتی

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

 

جنتی شخص کی تین علامتی 
اللہ تعالیٰ نے فرمانبرداروں کے لیے جنت اور نافرمانوں کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے ۔ جنت کیسے حاصل ہو گی اور جہنم سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں جابجا ملتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی جہنم سے بچنے کی تلقین فرماتے اور کبھی جنت کی نعمتوں کو اپنانے کی ترغیب دیتے۔ذیل میں ایک حدیث مبارک مختصر سی تشریح کے ساتھ ذکر کی جا رہی ہے۔
عَنْ ثَوْبَانَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ مَاتَ وَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ ثَلَاثٍ: الكِبْرِ وَالغُلُولِ وَالدَّيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ۔
جامع الترمذی، رقم الحدیث:1572
ترجمہ: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص تکبر، خیانت اور قرض سے بری ہونے کی حالت میں دنیا سے رخصت ہووہ جنت میں داخل ہو گا ۔
تکبر کسے کہتے ہیں؟
اچھا لباس، اچھی گاڑی ، اچھی رہائش وغیرہ استعمال کرنا نہ زُہد کے خلاف ہے اور نہ ہی تکبر کی علامت ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو استعمال کر کے اللہ کا شکر ادا کرنا شریعت میں مطلوب ہے۔
تکبر سے بچیں:
حق بات کے باوجود اس کو قبول نہ کرنا اور اپنی غلط بات پر ڈٹے رہنا مزید یہ کہ لوگوں کو حقیر اور خود کو عقل کل سمجھنا تکبرکہلاتا ہے ۔ اس سے بچنا ضروری ہے ۔
اچھا جوتی کپڑا استعمال کرنا تکبر نہیں:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ : إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً قَالَ: إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ.
صحیح مسلم ،رقم الحدیث :178
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا ۔ یہ بات سن کر ایک شخص نے عرض کی کہ بندہ اس بات کو اپنے لیے پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں ، جوتا اچھا ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوتی کپڑے کے اچھا ہونے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات حسن و جمال والی ہے اور حسن و جمال کو پسند بھی فرماتی ہے ۔ ہاں البتہ تکبر یہ ہے کہ انسان حق بات کا انکار کرے اور مخلوق خدا کو اپنے سے حقیر و کمتر سمجھے۔
متکبر انسان کتے اور خنزیر سے بدتر:
عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: أَيُّهَا النَّاسُ تَوَاضَعُوا فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ تَوَاضَعَ لِلهِ رَفَعَهُ اللهُ فَهُوَ فِي نَفْسِهِ صَغِيرٌ وَفِي أَعْيُنِ النَّاسِ عَظِيمٌ وَمَنْ تَكَبَّرَ وَضَعَهُ اللهُ فَهُوَ فِي أَعْيُنِ النَّاسِ صَغِيرٌ وَفِي نَفْسِهِ كَبِيرٌ حَتَّى لَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِمْ مِنْ كَلْبٍ أَوْ خِنْزِيرٍ۔
شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث :7790
ترجمہ: حضرت عابس بن ربیعہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے یہ بات ارشاد فرمائی : لوگو!تواضع و انکساری اختیار کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے کہ جو شخص اللہ کو راضی کرنے کے لیے تواضع و انکساری اختیار کرے گا اللہ رب العزت اس شخص کو بلندیاں عطا فرمائیں گے وہ خود کو بے حیثیت سمجھتا ہو گا جبکہ لوگوں کی نظروں میں اس کی بڑی عظمت اور حیثیت ہوگی ۔ اور جو شخص تکبر اختیار کرے گا اللہ رب العزت ایسے شخص کو لوگوں کی نظروں میں حقیر و بے حیثیت بنادیں گے جبکہ وہ خود کو بہت بڑا سمجھتا رہے گا ایسا شخص لوگوں کی نظروں میں کتے اور خنزیر سے زیادہ بے حیثیت ہو کر رہ جائے گا ۔
خیانت سے بچیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس حالت میں دنیا سے رخصت ہو کہ وہ خیانت سے بری اور پاک صاف ہو تو ایسا شخص جنت میں داخل ہو گا ۔ خیانت اور کسی کا حق دبانا ایسا بڑا گناہ ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کی نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں ۔ کل بروز قیامت ایسے شخص کی نیکیاں حق داروں کو دے دی جائیں گی اور اس کا نامہ اعمال نیکیوں سے خالی ہو جائے گا ۔ اللہ کی پکڑ اس پر پڑے گی جس سے یہ بچ نہیں سکے گا ۔
خیانت کی چادر :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ فَلَمْ نَغْنَمْ إِلَّا الأَمْوَالَ الْمَتَاعَ وَالثِّيَابَ فَأَهْدَى رَجُلٌ مِنْ بَنِي الضَّبِيبِ يُقَالُ لَهُ رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلاَمًا أَسْوَدَ يُقَالُ لَهُ: مِدْعَمٌ فَتَوَجَّهَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى وَادِي الْقُرَى حَتَّى إِذَا كُنَّا بِوَادِي الْقُرَى بَيْنَمَا مِدْعَمٌ يَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ سَهْمٌ فَأَصَابَهُ فَقَتَلَهُ فَقَالَ النَّاسُ: هَنِيئًا لَهُ الْجَنَّةُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كَلَّا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَخَذَ يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا.
السنن الکبریٰ للنسائی، رقم الحدیث :4750
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم فتح خیبر والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ مال غنیمت میں ہمیں سونے چاندی کے بجائے سامان ، کھانے پینے کی اشیاء اور کپڑے وغیرہ ملے ۔قبیلہ بنو ضبیب کے ایک شخص رفاعہ بن زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کالے رنگ کا غلام ہدیہ کیا جس کا نام مدعم تھا ۔جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم وادی قریٰ کی جانب سفر کی تیاری میں مشغول ہوئے تو مدعم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سامان سفر تیار کر رہا تھا اچانک انجانی سمت سے ایک تیر آ کر اسے لگا اور وہ مر گیا ۔ لوگوں نے کہا کیسا خوش نصیب انسان ہے اسے جنت کی خوشخبری ہو کہ شہادت نصیب ہوئی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرگز ایسی بات نہیں جیسے تم کہہ رہے ہو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے وہ چادر جو جنگ خیبر والے دن مال غنیمت میں سے اس نے خیانت کرتے ہوئے لی تھی وہ اس کے جسم پر آگ بن کر لپٹی ہوئی ہے۔
قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے بچیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس حالت میں دنیا سے رخصت ہو کہ اس کے ذمےکسی کا قرض ادا کرنا نہ ہو تو ایسا شخص جنت میں داخل ہو گا ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ۔
شعب الایمان للبیہقی،رقم الحدیث :5155
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: مومن کی روح قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے نہ وہ جنت پہنچ پاتی ہے اور نہ ہی صالحین کے زمرہ میں شامل ہو پاتی ہے یہاں تک کہ اس کی طرف سے قرض ادا کر دیا جائے ۔
قرض لے کر واپس نہ کرنا ، ٹال مٹول سے کام لینا ، قرض خواہ سے وعدے پر وعدے کرتے جانا ، اسباب و وسائل کے موجود ہونے کے باوجود قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرنا ہمارے معاشرے کا حصہ بن کر رہ گیا ہے ۔ بعض نام نہاد دین دار کہلانے والے لوگ بھی اس جرم سے اپنی حفاظت نہیں کر پا رہے ۔ یاد رکھیں کہ یہ ایسا جرم ہے کہ کوئی بھی نیکی اس کی معافی کا ذریعہ نہیں بن سکتی یہاں تک کہ شہادت والی باسعادت موت بھی مل جائے کہ جس سے باقی گناہ معاف ہوجاتے ہیں لیکن یہ جرم شہادت والی موت سے بھی معاف نہیں ہوتا ۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يُغْفَرُ لِلشَّهِيدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلَّا الدَّيْنَ ۔
مسند احمد،رقم الحدیث :7051
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شہید کی مغفرت کرتے ہوئے اس کا ہر گناہ معاف کر دیا جاتا ہے سوائے قرض کے کہ وہ معاف نہیں ہوتا ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات ،18 جون ،2020ء