موت کے مسلسل صدمات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
موت کے مسلسل صدمات
اللہ تعالیٰ اہل حق علماء کرام کا سایہ ہمارے اوپر تادیر قائم رکھیں۔ گزشتہ دو تین ماہ میں مشاہیر علماء کرام رحمہم اللہ کی مسلسل اموات نے پوری امت مسلمہ کو صدمے سے دوچار کر کے رکھ دیا ہے۔ اس موقع پر ہمیں کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟ آئیے جانتے ہیں۔
کسبی غم سے بچیں:
صدمے کے وقت غم سے دوچار ہونا ایک بہت بڑی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن غور کیا جائے تو غم کی دو قسمیں نظر آتی ہیں: ایک کو ”طبعی“ جبکہ دوسرے کو” کسبی“ کہتے ہیں ۔
طبعی غم کی وجہ سے انسان کی شان عبدیت ظاہر ہوتی ہے اور اس پر صبر کرنے کی وجہ سے اجر و ثواب ملتاہے ۔ اس کی مدت بہت کم ہوتی ہے تھوڑے ہی عرصے میں کم ہوتا ہوتا زائل ہو جاتا ہے ۔ جبکہ کسبی غم یعنی جو خود سوچ سوچ کر اور صدمے کا تذکرہ کر کر کے بڑھایا جائے وہ زیادہ ہوتا رہتا ہےاس سے مایوسی پیدا ہوتی ہے جسے شریعت میں بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے ۔
شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ جب انسان پر کوئی صدمہ آئے اور اس کی وجہ سے وہ طبعی غم میں مبتلا ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وہ صبر سے کام لے ۔ اللہ کے فیصلے پر دل و جان سے راضی رہے۔طبعی غم کو بڑھاوا نہ دے یعنی اس سوچ میں نہ پڑ جائے کہ ہائے اب کیا ہوگا؟ بے صبری نہ کرے۔ سینہ کوبی اور ماتم نہ کرے اورہر ایسے قول و فعل سے خود کو بچائے جس کی شریعت میں ممانعت ہو ۔
استرجاع کا اہتمام کریں:
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے جو خاص انعامات عطا فرمائے ہیں ان میں ایک نعمتِ استرجاع
)اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (
بھی ہے ۔ایک حدیث مبارک میں ہے کہ میری امت کو ایک ایسی چیز دی گئی ہے جو پہلے امتوں میں کسی کو نہیں دی گئی اور وہ چیز مصیبت اور صدمے کے وقت
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
کا پڑھنا ہے۔ اگر کسی کو یہ نعمت استرجاع دی جاتی تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو دی جاتی جس وقت کہ انہوں نے اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی میں
يَاأَسَفَا عَلٰى يُوسُفَ
فرمایا تھا۔
جب کوئی مصیبت اور صدمہ پیش آئے تو زبان کو
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
پڑھنے میں مشغول رکھا جائے جبکہ دل اور دماغ کو ان الفاظ کے معانی کے تصور میں مشغول رکھا جائے ۔
اِنَّا لِلّٰہِ
کا معنی اور عام فہم مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مالک ہیں اور ہم اس ذات کی ملکیت میں ہیں ۔ جب انسان اس بات کا پختہ یقین اپنے دل و دماغ میں بٹھا لیتا ہے اور زبان سے ان کلمات کی ادائیگی کرتا ہے تو غم کم ہو کر دھیرے دھیرے زائل ہو جاتا ہے ۔
وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
یہ کلمات مزید تسلی دینے والے ہیں کہ جس ذات کی مفارقت اور جدائی کا تمہیں صدمہ پہنچا ہےجہاں وہ گیا ہے وہاں تم بھی پہنچ جاؤ گے ۔ صدمے سے ملنے والی یہ جدائی دائمی اور ابدی نہیں ہے بلکہ عارضی ہے ۔
جو شخص حکم استرجاع پر عمل پیرا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کے لیے تین وعدے فرمائے ہیں :
1: ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی مسلسل نوازشیں اور خصوصی عنایتیں ہیں۔
2: ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت برستی ہے ۔
3: ایسے لوگ ہدایت یعنی سیدھے راستے پر ہیں ۔
وہ بندہ جس پر اللہ کی خصوصی عنایت ہو ، اس پر رحمت الہیہ بھی برس رہی ہو اور مزید یہ کہ وہ ہدایت پر بھی ہو اب اس کو نہ تو شیطان اور نہ ہی نفس اسے گمراہی میں ڈالے گا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہے ۔
رضا بالقضاء پر عمل کریں:
صدمہ ملنے پر یہ سوچیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ فیصلہ تھا جو ہو کر ہی رہنا تھا۔ لہٰذا مخلوق کو یہ حق نہیں کہ وہ خالق کے فیصلوں کے بارے یہ کہتا پھرے کہ اس صدمے اور مصیبت کے لیے کیا ہم ہی رہ گئے تھے؟ اس کے جانے کا ابھی وقت ہی کہاں آیا تھا؟ ۔ اللہ نے ہم پر ہی یہ صدمہ اور مصیبت کیوں نازل کی؟
یہ الفاظ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور قضاءپر اعتراض ہیں ۔ ایسے الفاظ زبان سے بالکل نہیں نکالنے چاہیے انسان کے ایمان کو ضائع کر دیتے ہیں ۔ صدمے کی وجہ سے انسان پر دکھ کا احساس ہوتا ہے ہر انسان اسے محسوس کرتا ہے لیکن عام انسان اور ایک مسلمان انسان میں فرق یہ ہوتا ہے کہ مسلمان اپنی ذات کو خدا کے سپرد کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے اور قضاء پر راضی رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جو بھی حکم دیں گے وہ مجھے منظور ہے جبکہ عام انسان ہر بات پر یہ سوچنے لگ جاتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟مسلمان صدمے کے وقت قوت ایمانی کے ساتھ کہتا ہے اللہ کی مرضی۔ جبکہ عام انسان کا ذہن اس ایمانی قول کی طرف نہیں جاتا اور وہ یہ سوچتا رہتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ جب انہیں کوئی وجہ نہیں ملتی تو وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ آج پوری دنیا میں غیر مسلم لوگوں میں خودکشی کی شرح زیادہ پائی جاتی ہے۔ وجہ یہی ہے وہ صدمے کو اللہ کا فیصلہ نہیں سمجھتے اور سمجھ لیں تو اس پر دل و جان سے راضی نہیں ہوتے ۔
جبکہ مسلمان کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ صدمے کو اللہ کا فیصلہ سمجھ کر اس پر راضی ہو جاتا ہے ۔زبان حال وقال سے قرآن کریم کی اس آیت پر عمل پیرا ہوتا ہے:
قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللہُ لَنَا ۚ ہُوَ مَوۡلٰىنَا ۚ وَ عَلَی اللہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ
سورۃ التوبہ ، رقم الآیۃ: 51
ترجمہ: فرما دیجیئے کہ ہم کو وہی معاملہ )صدمہ (پیش آ سکتا ہے جواللہ نے فیصلے کے طور پر ہمارے لیے لکھ دیا ہے وہی ہمارا آقا ہے اور اللہ ہی پر ایمان والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔
نعم البدل کی دعا کریں:
صدمے اور مصیبت کے وقت میں شریعت نے چند ایسے کلمات سکھلائے ہیں جن کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ نعم البدل عطا فرماتے ہیں ۔
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَاقَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أصَابَتْهُ مُصِيبَةٌفَلْيَقُلْ:إنَّاللهِ وَإِنَّا إلَيْهِ رَاجِعُونَ اَللَّهُمَّ عِنْدَكَ أَحْتَسِبُ مُصِيبَتي فآجِرْني فِيهَا وَأَبْدِلْنِي بِهَا خَيْراً مِنْهَا۔ فَلَمَّا مَاتَ أَبُوسَلَمَةَ قُلْتُهَا فَجَعَلْتُ كُلَّمَا بَلَغْتُ أبْدِلْنِي خَيْراً مِنْهَا۔ قُلْتُ فِي نَفْسِي: وَمَنْ خَيْر مِنْ أَبِي سَلَمَةَ؟۔۔۔ الخ
موارد الظمآن، رقم الحدیث :1282
ترجمہ: ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو کوئی مصیبت ) صدمہ (پہنچے تو اسے چاہیے کہ وہ یہ پڑھے:جس کا مفہوم یہ ہے کہ بے شک ہم اللہ کی ملکیت میں ہیں اور یقیناً ہم نے اسی کی طرف لوٹ جانا ہے اے اللہ میں آپ سے اپنی اس مصیبت کا ثواب چاہتا ہوں ، مجھے اس کا اجر عطا فرما اور مجھے اس کا نعم البدل عطا فرما۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب میرے شوہر حضرت ابو سلمہ وفات پاگئے تو میں نے یہ دعا مانگی لیکن دعا کے آخری الفاظ کہتے ہوئے دل رکتا تھا میں دل میں کہتی بھلا ابو سلمہ سے کون بہتر ہو سکتا ہے۔
الفاظ نبوت کی تاثیر دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نےآپ رضی اللہ عنہا کو ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا نعم البدل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں عطا کیا ،آپ ازواج مطہرات میں شامل ہو کر ام المومنین کے درجے پر فائز ہوئیں ۔
صدمے سے دوچار بندہ اللہ سے نعم البدل کی قوی امید لگا کر دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کا غم ہلکا کر دیتے ہیں اور بہترین نعم البدل عطا فرماتے ہیں ۔
علماء حق کی موت کے مسلسل واقعات ہمیں دین پر مزید ڈٹے رہنے کا سبق دیتے ہیں، مایوسی کو دل سے نکال کرتوکل علی اللہ کو جگہ دیجیے اور دینی کاموں میں عزم و ہمت کے ساتھ آگے بڑھیئے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات ،25 جون ،2020ء