عاشوراء …فضائل واحکام اور غلط نظریات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عاشوراء …فضائل واحکام اور غلط نظریات
اللہ تعالیٰ نے ماہِ محرم کو فضیلت بخشی ہے یہ عبادات کا مہینہ ہے حدیث مبارک میں اس مہینے کی حرمت کے پیش نظر اسے شھر اللہ یعنی اللہ کا مہینہ قرار دیا گیا ہے ۔ جس طرح کعبۃ اللہ کے تقدس کے پیش نظر اسے بیت اللہ یعنی اللہ کا گھر قرار دیا گیا ہے ۔ اس مہینے میں ایک دن عاشوراء )دسویں محرم ( کا ہے شریعتِ اسلامیہ میں اس دن کی بہت اہمیت ہے۔ سب سے بنیادی چیز اعتدال ہوتی ہے، اسی راہ اعتدال پر چلنے سے وہ تمام فضائل حاصل ہوتے ہیں جو شریعت نے متعین فرمائے ہیں۔
محرم کے روزے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ۔
صحیح مسلم ، رقم الحدیث : 1982
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان المبارک کے مہینے کے علاوہ باقی مہینوں میں سے سب سے زیادہ فضیلت والے روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں ۔
عاشوراء کا روزہ:
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ…قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ.
صحیح مسلم ، رقم الحدیث : 1976
ترجمہ: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ یوم عاشوراء )دسویں محرم ( کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔
عاشوراء اور اہل اسلام:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ…وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ كَانَ مَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ لَا يَصُومُهُ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث : 3831
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی )ہجرت سے پہلے( عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (ہجرت فرما کر (مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے )مسلمانوں کو بھی( عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا لیکن جب رمضان کے روزے فرض کردیے گئے )تو اب وہی فرض ہیں اور عاشوراء کے روزے کی فرضیت ختم ہو گئی( اب جو عاشوراء کا روزہ رکھناچاہے رکھے اور جوچھوڑنا چاہے چھوڑ دے۔ )یعنی اس دن کے روزے کا فرض ہونے والا حکم منسوخ ہوگیا البتہ اس کا مستحب ہونا اب بھی باقی ہے ،یہ منسوخ نہیں ہوا (
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:كُنَّا نَصُومُ عَاشُورَاءَ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ رَمَضَانُ وَكَانَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحُثُّنَا عَلَيْهِ وَيَتَعَهَّدُنَا عَلَيْهِ فَلَمَّا افْتُرِضَ رَمَضَانُ لَمْ يَحُثَّنَا رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَتَعَهَّدْنَا عَلَيْهِ وَكُنَّا نَفْعَلُهُ.
صحیح ابن خزیمہ، رقم الحدیث :2083
ترجمہ: حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے ہمیں عاشوراء )دسویں محرم کے دن)کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے اور اس کی ترغیب بھی دیتے تھےاس کے بعد جب رمضان )کا روزہ رکھنا(فرض کردیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عاشوراء کے روزے کی ترغیب نہیں دی جبکہ ہم پھر بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔
فائدہ: مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا مسلمان رمضان المبارک کے روزوں کے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء )دسویں محرم (کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔
عاشوراء اور مشرکین مکہ:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ .
صحیح البخاری، رقم الحدیث : 3831
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہےکہ زمانہ جاہلیت میں قریشِ )مکہ(عاشوراء)دسویں محرم( کے دن کا روزہ رکھتے تھے ۔
فائدہ: یہاں یہ بات اچھی طرح ملحوظ رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ روزہ قریش کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نہیں رکھتے تھے بلکہ شریعت کا حکم سمجھ کر رکھتے تھے جس طرح بیت اللہ کا طواف، صفااور مروہ کے درمیان سعی اس وجہ سے نہیں کرتے تھے کہ یہ کام قریش کرتے ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یہ شریعت کے احکام ہیں ۔اسی طرح عاشوراء )دسویں محرم( کا روزہ اس وجہ سے نہیں رکھتے تھے کہ قریش رکھتے ہیں بلکہ اس وجہ سے رکھتے تھے کہ شرعاً ابتداء اسلام میں یہ روزہ رکھنے کا حکم ہے ۔
عاشوراء اور یہودِ مدینہ:
عَنْ أَبِي مُوسٰى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَإِذَا أُنَاسٌ مِنَ الْيَهُودِ يُعَظِّمُونَ عَاشُورَاءَ وَيَصُومُونَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْنُ أَحَقُّ بِصَوْمِهِ فَأَمَرَ بِصَوْمِهِ۔
صحیح البخاری ،رقم الحدیث : 3942
ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں پر یہودی لوگ دسویں محرم کی عظمت کے پیش نظر اس دن روزہ رکھا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم )اہل اسلام(اس دن روزہ رکھنے کے زیادہ حق دار ہیں چنانچہ آپ نے )بامر الہٰی ( روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
فائدہ: اسلام بذات خود ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، ہر پہلو سے اپنے اندر جامعیت و کمال رکھتا ہے اپنی اسی جامعیت اور کمال کے پیش نظر اپنے ماننے والوں کوالگ سے اپنی شناخت عطا کرتا ہے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی شکل و صورت ، عبادات و معاملات ،طرزِ معاشرت ، اخلاقیات ،تہذیب و تمدن اور ان کے کلچر کی مشابہت سے سختی سے روکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ یہود بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں تو آپ علیہ السلام نے اہل اسلام کو تاکیدی حکم دیا کہ تم یہود کی موافقت کے بجائے ان کی مخالفت کرو ۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَقُولُ حِينَ صَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ قَالَ فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
صحیح مسلم، رقم الحدیث: 1916
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےدسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:اے اللہ کے رسول! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں۔ (یعنی آپ ہمیں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیتے ہیں اور عاشوراء کے روزہ جیسی عبادت میں ان کی مخالفت کے بجائے موافقت ہورہی ہے۔) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آئندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں تاریخ کا روزہ )بھی ساتھ (رکھیں گے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے۔
فائدہ: اس لیے حدیث پاک کے مطابق عاشوراء کے روزے کے ساتھ نویں یا پھر گیارہویں محرم کا روزہ ملانا چاہیے تاکہ یہود و نصاریٰ کی مشابہت لازم نہ آئے ۔
عاشوراء کے روزے پر اعتراض:
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ پر آج کل یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ان میں تعارض ہے جس کی وجہ سے یہ روایات قابل عمل نہیں ہیں تعارض کی صورت یہ ہے کہ صحیح البخاری میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارک سے معلوم ہوتا ہے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کاحکم مدینہ منورہ پہنچے کے بعد ہجرت کے پہلےسال دیا گیا ۔
صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری سال عاشوراء کے دن روزہ رکھنےکا حکم دیا۔ دونوں احادیث میں تعارض ہے پہلی حدیث میں ہجرت کے پہلے سال جبکہ دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری سال کا واقعہ معلوم ہورہا ہے ۔
جواب:
مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد دوسال تک عاشوراء کا روزہ فرض ہونے کی وجہ سے رکھا گیا۔ 2ہجری میں رمضان کی فرضیت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہود اس دن روزہ رکھتے ہیں۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ یہ ہماری نجات کا دن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جو کام خلافِ شریعت نہ ہوں اور ان سے اہل کتاب کو قریب کرنے کا موقع میسر ہو سکتا ہوتو آپ وہ عمل فرما لیتے تھے۔ جیسے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا ۔کچھ عرصہ یوں ہی چلتا رہا جب ان سےقرب کا اِمکان ختم ہوگیاتب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی مخالفت کا حکم دیا ۔
اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! آپ نے عاشوراء کے روزہ کی ترغیب بھی دی ہے اور یہود کی مخالفت کا حکم بھی دیا اس دن تو یہود روزہ رکھتے ہیں تو ہم کیا کریں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآئندہ ہم اس کےساتھ ایک روزہ اور ملالیں گے تاکہ یہود کی مخالفت بھی ہوجائے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے محبت کا اظہار بھی ہوجائے۔توجب روزہ رکھا ہے وہ پہلے کی بات ہے اور جب مخالفت کا حکم دیا ہے وہ بالکل آخر کی بات ہے اس لیے تعارض نہیں۔
عاشوراء اور اہل و عیال پر وسعت:
عاشوراء کے دن شریعت کا دوسرا حکم یہ ہے کہ اہل و عیال پر وسعت سے خرچ کیا جائے ، اس کی برکت سے اللہ کریم رزق کی تنگی سے نجات عطا فرماتے ہیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ وَأَهْلِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ۔
شعب الایمان للبیہقی ،رقم الحدیث: 3515
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دسویں محرم والے دن اپنے گھر والوں پر وسعت سے خرچ کرے گا تو اللہ تعالیٰ سارا سال اس)کے رزق میں اور اس کے مال( پر وسعت فرمائے گا ۔
عاشوراء سے متعلق چند غلط نظریات:
امام علی بن محمد ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ )م: 963ھ (فرماتے ہیں :
من صام يوم عاشوراءكتب الله له عبادة ستين سنة بصيامها وقيامها ومن صام يوم عاشوراء أعطى ثواب عشرة آلاف ملك ومن صام يوم عاشوراء أعطى ثواب ألف حاج ومعتمر ومن صام يوم عاشوراء أعطى ثواب عشرة آلاف شهيد ومن صام يوم عاشوراء كتب الله له أجر سبع سموات ومن أفطر عنده مؤمن في يوم عاشوراء فكأنما أفطر عنده جميع أمة محمد ومن أشبع جائعا في يوم عاشوراء فكأنما أطعم جميع فقراء أمة محمد وأشبع بطونهم ومن مسح على رأس يتيم رفعت له بكل شعرة على رأسه درجة في الجنة خلق الله السموات يوم عاشوراء والأرض كمثله وخلق القلم يوم عاشوراء واللوح كمثله وخلق جبريل يوم عاشوراء وملائكته يوم عاشوراء وخلق آدم يوم عاشوراء وولد إبراهيم يوم عاشوراء ونجاه الله من النار يوم عاشوراء وفدى إسماعيل يوم عاشوراء وغرق فرعون يوم عاشوراء ورفع إدريس يوم عاشوراء وتاب الله على آدم يوم عاشوراء وغفر ذنب داود يوم عاشوراء وأعطى الملك سليمان يوم عاشوراء وولد النبي يوم عاشوراء واستوى الرب على العرش يوم عاشوراء ويوم القيامة يوم عاشوراء (ابن الجوزي) من حديث ابن عباس وفيه حبيب ابن أبي حبيب وهو آفته۔
تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الشنیعۃ الموضوعۃ ، الرقم: 16

1.

دسویں محرم والے دن جو شخص روزہ رکھے اس کو ساٹھ سال تک دن کے روزے اور رات کی نفلی عبادت کرنے کا ثواب ملے گا۔

2.

دسویں محرم والے دن جو شخص روزہ رکھے اس کو دس ہزار فرشتوں )کی عبادت( کے برابر ثواب ملے گا ۔

3.

دسویں محرم والے دن جو شخص روزہ رکھے اس کو ایک ہزار حج کرنے والوں اور عمرہ کرنے والوں کے برابر ثواب ملے گا ۔

4.

دسویں محرم والے دن جو شخص روزہ رکھے اس کو دس ہزار شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا۔

5.

دسویں محرم والے دن جو شخص روزہ رکھے اس کو سات آسمانوں) کی وسعت( کے برابر ثواب ملے گا ۔

6.

دسویں محرم والے دن جو شخص کسی مومن کا روزہ افطار کرائے اس کو تمام امت محمدیہ کے روزے افطار کرانے کا ثواب ملے گا۔

7.

دسویں محرم والے دن جو شخص کسی بھوکے کو کھانا کھلائے اسے امت محمدیہ کے سارے فقراء کو پیٹ بھر کر کھلانے کا ثواب ملے گا۔

8.

دسویں محرم والے دن جو شخص کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے اس کے لیے ہر ہر بال کے بدلے جنت میں ایک ایک درجہ بلند ہوگا ۔

9.

دسویں محرم والے دن اللہ تعالیٰ نے ساتوں آسمان تخلیق فرمائے ۔

10.

دسویں محرم والے دن اللہ تعالیٰ نے ساتوں زمینیں تخلیق فرمائیں ۔

11.

دسویں محرم والے دن اللہ تعالیٰ نےقلم ِ تقدیر کو پیدا فرمایا۔

12.

دسویں محرم والے دن اللہ تعالیٰ نےلوح محفوظ کو وجود بخشا۔

13.

دسویں محرم والے دن اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل کو پیدا فرمایا۔

14.

دسویں محرم والے دن اللہ تعالیٰ نےباقی فرشتوں کو پیدا فرمایا۔

15.

دسویں محرم والے دن اللہ تعالیٰ نےحضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔

16.

دسویں محرم والے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے۔

17.

دسویں محرم والے دن اللہ تعالیٰ نےان کو نارِ نمرود سے نجات عطا فرمائی۔

18.

دسویں محرم والے دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے جنت سے مینڈھا لایا گیا۔

19.

دسویں محرم والے دن فرعون سمندر میں غرق ہوا ۔

20.

دسویں محرم والے دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔

21.

دسویں محرم والے دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ۔

22.

دسویں محرم والے دن اللہ تعالیٰ نےحضرت داؤد علیہ السلام کی مغفرت فرمائی۔

23.

دسویں محرم والے دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت عطا ہوئی ۔

24.

دسویں محرم والے دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔

25.

دسویں محرم والے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہوئے۔
یہ حدیث ابن الجوزی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے موضوعات )من گھڑت احادیث( میں ذکر کی ہے اور اس کے من گھڑت ہونے کی وجہ حبیب بن ابی حبیب نامی شخص ہے ۔
مذکورہ بالا من گھڑت حدیث کے بعد امام علی بن محمد بن علی بن عبدالرحمٰن ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ )م:963ھ(فرماتے ہیں :
وهو اليوم الذي أخرج فيه نوحا من السفينة وهو اليوم الذي أنزل الله فيه التوراة على موسى وفيه فدى الله إسماعيل من الذبح وهو اليوم الذي أخرج الله فيه يوسف من السجن وهو اليوم الذي رد الله على يعقوب بصره وهو اليوم الذي كشف الله عن أيوب البلاء وهو اليوم الذي أخرج الله فيه يونس من بطن الحوت وهو اليوم الذي فلق الله فيه البحر لبني إسرائیل وهو اليوم الذي غفر الله لمحمد ذنبه ما تقدم وما تأخر وفي هذا اليوم عبر موسى البحر وفي هذا اليوم أنزل الله التوبة على قوم يونس فمن صام هذا اليوم كان له كفارة أربعين سنة وأول يوم خلق الله من الدنيا يوم عاشوراء وأول مطر نزل من السماء يوم عاشوراء وأول رحمة نزلت من السماء يوم عاشوراء فمن صام يوم عاشوراء فكأنما صام الدهر وهو صوم الأنبياء۔۔۔ومن اغتسل يوم عاشوراء لم يمرض إلا مرض الموت … ومن عاد مريضا يوم عاشوراء فكأنما عاد مرضى ولد آدم كلهم (ابن الجوزي) من حديث أبي هريرة رضي الله عنه وقال رجاله ثقات فالظاهر أن بعض المتأخرين وضعه وركبه على هذا الإسناد
تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الشنیعۃ الموضوعۃ ، الرقم: 17

1)

دسویں محرم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کو بچایا۔

2)

دسویں محرم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات عطا فرمائی ۔

3)

دسویں محرم کو اللہ تعالیٰ نےحضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے جنت سے مینڈھا بھیجا ۔

4)

دسویں محرم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو قید سے رہائی عطا فرمائی ۔

5)

دسویں محرم کو اللہ تعالیٰ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس لوٹائی ۔

6)

دسویں محرم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری دور فرمائی ۔

7)

دسویں محرم کو اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا۔

8)

دسویں محرم کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیےدریا میں راستے پیدا کیے ۔

9)

دسویں محرم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلی پچھلی سب خطائیں معاف فرمائیں ۔

10)

دسویں محرم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریا عبور کیا ۔

11)

دسویں محرم کو اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول فرمائی ۔

12)

دسویں محرم کو جو شخص روزہ رکھے گاوہ اس کے چالیس سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا ۔

13)

دسویں محرم کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کو تخلیق فرمایا ۔

14)

دسویں محرم کو آسمان سے سب سے پہلے بارش نازل ہوئی ۔

15)

دسویں محرم کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوئی۔

16)

دسویں محرم کو روزہ رکھنے والا شخص ایسا ہے جیسےساری زندگی روزہ رکھا ہو ۔

17)

دسویں محرم کا روزہ انبیاء کرام علیہم السلام کا روزہ ہے ۔

18)

دسویں محرم کو غسل کرنے والا موت کے علاوہ ہر مرض سےبچا رہے گا۔

19)

دسویں محرم کوجس شخص نے کسی بیمار کی تیمارداری کی اس نے تمام اولاد آدم کے بیماروں کی عیادت کی۔
امام ابن الجوزی نے اس کو موضوعات )خودساختہ من گھڑت احادیث (میں ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ، ظاہر یہ ہے کہ بعد والے کچھ لوگوں نے یہ باتیں از خود بنا ئیں اور ان کے ساتھ یہ سند جوڑ دی ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ماہ محرم اور بالخصوص یوم عاشوراء کی قدر کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات،27اگست ، 2020ء