عقیدۂِ ختمِ نبوت اور یومِ تحفظِ ختمِ نبوت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عقیدۂِ ختمِ نبوت اور یومِ تحفظِ ختمِ نبوت
اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لیے انبیاء و رسل علیہم السلام کا جو سلسلہ شروع فرمایا تھا اس کا اختتام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت پر فرمایا ۔ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے جو انبیاء و رسل کی تعداد متعین تھی وہ تعداد حضور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے سے پوری ہوچکی ہے اب کسی ایسے نبی کی نبوت کا قائل ہونا جس سےتعداد میں اضافہ ہو یہ ختم نبوت کے عقیدہ کے منافی ہے اور کفر ہے ۔
عقیدہ ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اگر اس پر ایمان نہ ہوا یا اس میں تردد ہوا تو ایسا شخص کسی طور مسلمان نہیں کہلا سکتا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر بے حد شفیق ومہربان تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنے والے اہم فتنوں سے امت کو آگاہ فرمایا، ان سے بچنے کی صورتیں ارشاد فرمائیں، امت کی راہنمائی کےلئےصحابہ کرام بالخصوص خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے طریقے پہ چلنے کا حکم فرمایا ،نئے پیش آنے والے مسائل میں فقہاء عظام اور علماء کرام کی طرف رجوع کا حکم دیا۔
قرب قیامت پیش آنے والے حالات سے امت کو آگاہ فرمایا ۔ حضرت امام محمد مہدی کے پیداہونے،نام، والدہ کا نام،خلافت وغیرہ کے بارے بتایا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا ، دجال کو قتل کرنا ، یہودیت وعیسائیت کو ختم کرکے اسلام کو دنیا میں غالب کرنا ، نکاح کرنا، روضہ رسول پہ حاضرہوکے سلام عرض کرنا ،وفات اور ان کے جائے مدفن وغیرہ کو تفصیل سے بیان فرمایا جن کا تذکرہ احادیث صحیحہ میں موجود ہے ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی راہنمائی کے لئے یہ سب کچھ کیا لیکن کسی ایک حدیث میں بھی اشارتاً یہ نہیں فرمایا کہ میرے بعد فلاں نام کا آدمی فلاں علاقے میں فلاں زمانہ میں نبی بن کر آئے گا جس پہ ایمان لانا ضروری ہوگا بلکہ اس کے برعکس جھوٹے مدعیان نبوت کے بارے آگاہ فرمایا کہ کچھ لوگ خود کونبی سمجھیں گے حقیقت میں وہ کذاب اور دجال ہوں گے ۔جس سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی تاویل وتخصیص کے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی مرسل ہیں آپ کے بعد کسی قسم کی نئی نبوت کی قطعاً ضرورت نہیں ہےاس لیے جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئی نبوت کا دعویٰ کرے تو اس کا اسلام سے بالکل تعلق نہیں ۔ چند دلائل ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ عقیدہ ختم نبوت پر ایمان مضبوط رہے ۔
عقیدہ ختم نبوت قرآن کریم سے ثابت ہے:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا
سورۃ الاحزاب ،رقم الآیۃ: 40
ترجمہ: ) حضرت( محمد)صلی اللہ علیہ وسلم( تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اورسلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں اورا للہ تعالیٰ ہر چیز کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔
عقیدہ ختم نبوت احادیث سے ثابت ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم قَالَ اِنّ مَثَلِیْ وَمَثَلَ الْاَنْبِیَائِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلِ بَنٰی بَیْتَاً فَاَحْسَنَہٗ وَاَجْمَلَہٗ اِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ مِنْ زَاوِیَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُوْنَ بِہٖ وَیَتَعجَّبُوْنَ لَہٗ وَیَقُوْلُوْنَ ہَلَّا وُضِعَتْ ھٰذِہِ اللَّبِنَۃُ قَالَ فَانَا اللَّبِنَۃُ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث:3535
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسو ل اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص نے بہت ہی خوبصورت مکان بنایا مگر اس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے اس کے گرد چکر لگانے لگے اور تعجب سے کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہیں لگا دی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نبوت والے محل کے کونے میں چُھوٹی ہوئی آخری اینٹ ہوں اور نبیوں کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث : 3455
ترجمہ: قوم بنی اسرائیل کی راہنمائی ورہبری ان کے انبیاء کرام علیہم السلام فرمایا کرتے تھے جب بھی ان انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کوئی نبی وفات پا جاتے تو ان کی جگہ دوسر ے نبی تشریف لے آتے اورمیرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا البتہ امت کی رہبری کے لئے بڑی تعداد میں خلفاء ہوں گے ۔
عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلٰى تَبُوكَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا فَقَالَ أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ قَالَ أَلَا تَرْضٰى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسٰى إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4416
ترجمہ: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کی طرف تشریف لے جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ علی! آپ مدینہ میں رہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یارسول اللہ کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جائیں گے ؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے علی ! کیاآپ اس بات پہ راضی نہیں کہ آپ کا تعلق مجھ سے ایسے ہوجیسے حضرت ہارون علیہ السلام کاتعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا۔ )ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نبی تھے (لیکن میرے بعد کوئی نیا نبی نہیں۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِانْقَطَعَتْ فَلَارَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَانَبِیَّ۔
جامع الترمذی ، رقم الحدیث : 2272
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رسالت اورنبوت کاسلسلہ یقیناً ختم ہوچکاہے۔ اس لیے میرے بعد نہ کوئی صاحبِ شریعت رسول پیدا ہوگا اورنہ کوئی نیا نبی آئے گا ۔
عَنْ مُحَمَّد بنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِم عَنْ أَبِيْهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إنَّ لِيْ أَسْمَاءاَنَا مُحَمَّدٌ وَاَنَا اَحْمَدُ وَاَنَا الْمَاحِي الَّذِیْ یَمْحُواللہُ بِیَ الْکُفْرَ وَ اَنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُالنَّاسُ عَلٰی قَدَمَیَّ وَاَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ۔
جامع الترمذی، رقم الحدیث : 2840
ترجمہ: حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے کئی نام ہیں: میں محمدہوں،احمدہوں،میں ماحی ہوکہ اللہ میرے ذریعے کفرمٹادیں گے،میں حاشرہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائیں جائیں گے اورمیں عاقب ہوں میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا ۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم رحمہ اللہ ) م:405ھ( نے حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے ایک طویل حدیث نقل کی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک لمبے خطبہ کا ذکر ہے اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے فتنے کا ذکر کیا۔ اس میں ایک جملہ یہ بھی فرمایا:
وَإِنِّی آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتُمْ آخِرُ اْلأُمَمِ
المستدرک علی الصحیحین ، رقم الحدیث: 8620
میں انبیاء میں سے آخری نبی ہوں میرے بعد نیا نبی نہیں اور تم امتوں میں سے آخری امت ہو تمہاری بعد کوئی امت نہیں ۔
عَنْ عَائِشۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَمَسْجِدِيْ خَاتَمُ مَسَاجدِ الْأَنْبِيَاءِ
کنز العمال ،رقم الحدیث: 34994
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں محمد؛ انبیاء میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد انبیاء کی مساجد میں سے آخری مسجد ہے ۔
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ …سَيَكُونُ فِى أُمَّتِى ثَلاَثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِىٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لاَ نَبِىَّ بَعْدِى.
جامع الترمذی، رقم الحدیث : 2219
ترجمہ: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں تیس ایسے کذاب پیداہوں گے جو خود کو نبی سمجھیں، نبوت کا دعویٰ کریں گے جبکہ میں آخری نبی ہوں میرے کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا ۔
عقیدہ ختم نبوت اجماع سے ثابت ہے :
امام ابو حامد محمد بن محمد الغزالی رحمہ اللہ (م:505ھ) فرماتے ہیں:
اِنَّ الْاُمَّۃَ فَہِمَتْ مِنْ ہٰذَااللَّفْظِ وَمِنْ قَرَائِنِ اَحْوَالِہٖ اَنَّہٗ اَفْہَمَ عَدْمَ نَبِیٍّ بَعْدَہٗ اَبَدًا… وَاَنَّہٗ لَیْسَ فِیْہِ تَاْوِیْلٌ وَلَاتَخْصِیْصٌ فَمُنْکِرُ ہٰذَا لَا یَکُوْنُ اِلَّامُنْکِرَالْاِجْمَاعِ
الاقتصادفی الاعتقاد: ص123
ترجمہ: امت کے تمام اہل اسلام نےقرآن میں مذکور لفظ(خاتم النبیین) سے یہی عقیدہ سمجھا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نیا نبی ہوگا اور نہ ہی کوئی نیا رسول ہوگا اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل وتخصیص نہیں لہٰذا اس کامنکر اجماع کامنکرہوگا۔
فائدہ: یہاں تاویل و تخصیص والی بات کا مطلب یہ ہے کہ لفظ خاتم النبیین کا کوئی اور معنی مراد نہیں لیا جا سکتا ہے۔
امام ابوالفضل عیاض بن موسیٰ مالکی رحمہ اللہ (م:544ھ) فرماتے ہیں:
لِاَنَّہُ اَخْبَرَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنَّہ خاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَانَبِیَّ بَعْدَہُ وَاَخْبَرَ عَنِ اللہِ تَعَالٰی اَنَّہ خاتَم النَّبِیِّیْنَ وَاَنَّہُ اُرْسِلَ کَافَّۃً لِّلنَّاسِ واَجْمعتِ الاُمَّۃُ علٰیٰ حَمْلِ ھٰذَالْکَلَامِ عَلٰی ظَاہِرِہ واَنَّہُ مَفْہُوْمہُ الْمُرَاد بہ دُونَ تَاوِیل وَلَا تَخْصِیْص فَلَا شَکَّ فِی کُفْرِ ھٰؤُلاء الطَّوَائِفِ کُلِّہَا قَطْعًا اِجْمَاعاً وَسَمْعاً.
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ، فصل فی بیان ماھو من المقالات کفر
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے یہ فرمایا ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نیا نبی نہیں آ سکتا ۔ اور اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں اور یہ کہ آپ کو تمام انسانیت کا نبی بناکر بھیجا گیا اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ اس کلام سے جو ظاہری معنی سمجھ میں آ رہا ہے وہی مراد ہےاس کے علاوہ کوئی اور معنی مراد لینے کی قطعاً گنجائش نہیں ۔ اس لیے جو شخص اس )عقیدہ ختم نبوت ( کا انکار کرے اس کے کافر ہونےمیں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں اور یہ قطعی اور اجماعی عقیدہ ہے ۔
امام احمد بن محمد ابن حجر مکی رحمہ اللہ )م:974ھ (فرماتے ہیں :
مَنِ اعْتَقَدَ وَحْيًا مِنْ بَعْدِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ كَافِرًا بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِيْنَ۔
الفتاوی الفقھیۃ الکبریٰ، کتاب الانتباہ لتحقیق عویص مسائل الاکراہ
ترجمہ: جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور نئے نبی پہ وحی آتی ہے اس کے کافر ہونے پر اجماع ہے یعنی امت محمدیہ کے تمام مسلمان متفق اور متحد ہیں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں ۔
امام نور الدین ملاعلی قاری رحمہ اللہ)م:1014ھ ( فرماتے ہیں :
دَعْوَی النُّبُوَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کُفْرٌ بِالْاِجْمَاعِ۔
شرح الفقہ الاکبر، ص: 202
ترجمہ: ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرنا کفر ہے اس بات پر اجماع ہے یعنی امت محمدیہ کے تمام مسلمان متفق اور متحد ہیں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں ۔
مفتی بغدادابوالثنا ء شہاب الدین سید محمود بن عبداللہ آلوسی )م: 1270ھ) فرماتے ہیں :
وَكَوْنُهُ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ مِمَّا نَطَقَ بِهِ الْكِتَابُ وَصَدَعَتْ بِهِ السُّنَّةُ وَأَجْمَعَتْ عَلَيْهِ الْأُمَّةُ فَيُكَفَّرُ مُدَّعِي خِلَافَهُ وَيُقْتَلُ اِنْ أَصَرَّ۔
تفسیر روح المعانی آیت ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ”خاتم النّبیین“ ہونا ان عقائد میں سے ہے جس پر قرآن وسنت کے واضح دلائل موجود ہیں اورپوری امت کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پہ اجماع ہےیعنی امت محمدیہ کے تمام مسلمان متفق اور متحد ہیں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں ۔ جو شخص اس عقیدہ کا منکر ہو تو وہ کافر ہےایساشخص اگر توبہ نہ کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی نے آئینی طور پر قادیانیوں کوکافر قرار دیا:
پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی اس لیے اس ملک میں کسی طور پر منکرین ختم نبوت کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔ جب کبھی بھی منکرین ختم نبوت نے اس ملک کی سلامتی اور اس کی اسلامی حیثیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی اور ملک میں قادیانیت کی تبلیغ کر کے عوام کو مرتد بنانے کی کوشش کی تب اسلامیان پاکستان نے ان کے مذموم مقاصد کی ہر پلیٹ فارم پر دلائل کے ساتھ تردید کی ہے کیونکہ ان کے رگ و ریشے میں کلمہ طیبہ اپنی حقیقت و معنویت کے ساتھ موجود ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اس کلمہ کے الفاظ و معانی اور حقیقت میں رد وبدل کر سکے؟ یہاں کے مسلمان غربت، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری اور اقتصادی بحرانوں کو سہہ سکتے ہیں۔ لیکن اسلامی نظریات بالخصوص ناموس رسالت اور ختم نبوت جیسے عظیم الشان اور حساس موضوع پر مداہنت سے کام نہیں لے سکتے۔ حکمت کے نام پر بے حمیتی کا کسی طور پر اظہارنہیں کر سکتے۔ اس دعوے کی ایک دلیل 7 ستمبر 1974ء کا وہ تاریخ ساز فیصلہ ہے جو عوامی طاقت نے جمہوری و سیاسی زبان سے صادر کیا۔ اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ :
پاکستان کے سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں 22 مئی 1974ءکو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے کچھ طلبہ معلوماتی و تفریحی سفر کے لیے چناب نگر کے راستے پشاور جا رہے تھے کہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر قادیانیوں نے اپنا کفریہ لٹریچر تقسیم کرنے کی کوشش کی، جس پر طلبہ نےاس لٹریچر کو لینے سے انکار کیا اور ایمانی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ختم نبوت زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے۔
طلبہ کا یہ قافلہ 29 مئی کو واپس ہونے لگا تو نشتر آباد اسٹیشن)جو کہ چناب نگر اسٹیشن سے پہلے آتا ہے(پر قادیانی اسٹیشن ماسٹر نے چناب نگر کے قادیانی اسٹیشن ماسٹر کو بتلایا کہ فلاں بوگی طلبہ کی ہے۔ چنانچہ خلافِ ضابطہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر گاڑی روک لی گئی سینکڑوں مسلح افراد جس میں قادیانیوں کے قصر خلافت کے معتمدین،تعلیم الاسلام کالج کے طلباء، اساتذہ اور بعض قادیانی دکانداروں نے لاٹھیوں سریوں، ہاکیوں، کلہاڑیوں اور برچھیوں کے ساتھ حملہ کر کے 30 نہتے طلبہ کو شدید زخمی دیا۔ قادیانی اپنے ساتھ بازاری فطرت کی تین سو کے قریب عورتیں بھی لائے جب قادیانی غنڈے مسلمان طلبہ کو مارتے تو وہ رقص کرتیں اور تالیاں بجاتیں۔ دریں اثنا نشتر میڈیکل کالج یونین کے صدر ارباب عالم کو اتنے زور سے مارا کہ وہ بے ہوش گئے۔ اِس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردِعمل ہوا۔
30 مئی کو لاہور اور دیگر شہروں میں ہڑتال ہوئی۔ 31 مئی کو اس سانحے کی تحقیقات کے لیے صمدانی ٹربیونل کا قیام عمل میں آیا۔ 3 جون کو مجلس عمل کا پہلا اجلاس راولپنڈی میں منعقد ہوا۔ 9 جون کو مجلس عمل کا کنوینیئر لاہور میں مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کو مقرر کیا گیا۔ 13 جون کووزیر اعظم نے نشری تقریر میں بجٹ کے بعد مسئلہ قومی اسمبلی کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔ 14 جون کو ملک گیر ہڑتال ہوئی۔ 16 جون کو مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا فیصل آباد میں اجلاس ہوا جس میں حضرت بنوری کوامیر منتخب کیا گیا۔ 30 جون کو قومی اسمبلی میں متفقہ قراردادپیش ہوئی جس پر غور کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی میں تبدیل کردیا گیا۔ 24 جولائی کو وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ جو قومی اسمبلی کا فیصلہ ہوگا وہ ہمیں منظور ہوگا۔ 5 اگست سے23 اگست تک وقفوں وقفوں سے مکمل گیارہ دن مرزاناصر پرقومی اسمبلی میں جرح ہوئی۔
20 اگست کوصمدانی ٹربیونل نے اپنی رپورٹ سانحہ ربوہ کے متعلق وزیر اعلیٰ کو پیش کی۔22 اگست کورپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی گئی۔ 24 اگست کووزیر اعظم نے فیصلہ کے لیے7ستمبر کی تاریخ مقرر کی۔ 27، 28 اگست کولاہوری گروپ پرقومی اسمبلی میں جرح ہوئی۔ یکم ستمبر کولاہور شاہی مسجد میں ملک گیر ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی۔ 5، 6 ستمبر کو اٹارنی جنرل نے قومی اسمبلی میں عمومی بحث کی اور مرزائیوں پرجرح کا خلاصہ پیش کیا۔ 6 ستمبر کو آل پارٹیز مجلس تحفظ ختم نبوت کی راولپنڈی میں وزیراعظم سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ اس ساری کارروائی میں قومی اسمبلی نے اڑھائی ماہ کے عرصے میں 28 اجلاس بلائے اور 96گھنٹوں پر مشتمل نشستیں ہوئیں۔
تمام مسالک کی مذہبی وسیاسی قیادت نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس میں کردار ادا کیا خصوصاً مفکر اسلام مولانا مفتی محمود اور آپ کے رفقاء کار نے قادیانیوں کا لٹریچر جمع کیا، مولانا سید محمد یوسف بنوری، مولانا محمد حیات، مولانا عبدالرحیم اشعر، مولانا تاج محمود، مولانا محمد شریف جالندھری جیسے اکابر نے دن رات ایک کر کے قادیانی کے مذہبی و سیاسی عزائم پر مبنی لٹریچر اکٹھا کیا۔ اس محنت میں قادیانیوں کی مذہبی حصے کی ترتیب و تدوین مفتی محمد تقی عثمانی )سابق جسٹس سپریم کورٹ وفاقی شرعی عدالت (نے جبکہ سیاسی حصے کی ترتیب مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ )سابق ممبر سینٹ آف پاکستان( نے اپنے ہاتھوں سے کی۔
7 ستمبرکو قومی اسمبلی میں دستور کی دفعہ 106 میں قادیانی و لاہوری گروپ کو اقلیتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا، اور دفعہ 260 میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا جس میں یہ طے کیا کہ” ہر فرد جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مدعی نبوت کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔ “ مرکزی وزیر قانون جناب عبدالحفیظ پیرزادہ نے بل پیش کیا۔ ان کے بعد مفکر اسلام مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے اٹھے اور بل کی مکمل تائید کی اور اس اقدام پر وزیر اعظم اور ارکان حزب اقتدار کو خراج تحسین پیش کیا۔ تقریبا ً پانچ بجے سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی نے قائد ایوان ذوالفقار علی بھٹو کو اظہار خیال کی دعوت دی۔ بھٹو صاحب نے آدھ گھنٹے کے لگ بھگ تقریر کی اس کے بعد بل کی ووٹنگ کا مرحلہ شروع ہوا۔
مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے 130 ووٹ آئے اور قادیانیوں کی حمایت میں ایک ووٹ بھی نہ آیا۔چنانچہ قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے یہ بل پاس کیا اور مرزائیوں کو ہمیشہ کےلیے غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ 7 ستمبر 1974ء شام 7:30 بجے سینٹ کا اجلاس ہوا، مرکزی وزیر قانون جناب عبدالحفیظ پیرزادہ نے قومی اسمبلی کا منظور شدہ بل سینٹ میں پیش کیا۔
ایوان میں دوبار رائے شماری ہوئی۔ قومی اسمبلی کی طرح سینٹ میں بھی سارے ووٹ مرزائیوں کے خلاف آئے اور ایک ووٹ بھی ان کے حق میں نہ آیا۔ بالآخر 7 ستمبر رات 8:00 بجے ریڈیو پاکستان نے یہ خبر نشر کی کہ مرزائیوں کو قومی اسمبلی اور سینٹ نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ہے۔ یہ اعلان سننا تھا کہ لوگ خوشی کے مارے سڑکوں پر نکل آئے، ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیں۔ اس فیصلے نے جہاں اہلیان پاکستان کے دینی جذبات کی مکمل ترجمانی کی وہاں پر پوری دنیا کے مسلمانوں میں اسلامیان پاکستان کی قدر کو بھی بڑھا دیا کہ پاکستان کے مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر کسی کو ڈاکے ڈالنے کی قطعا اجازت نہیں دے سکتے۔
موجودہ حکومت ملک سے دہشت گردی اور تخریب کاری کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے۔تو اسے حالات و مشاہدات کے پیش نظر قادیانیوں کی اسلام وملک دشمن سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھنی ہوگی تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اہلیان وطن کےاسلامی اساسی عقائد کا تحفظ برقرار رہے اور ان کے جان ومال اور عزت و آبرو کا تحفظ بھی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ختم نبوت اور ختم نبوت کے صدقے ملنے والے وطن کی حفاطت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات،03ستمبر ، 2020ء