ائمہ اربعہ, مشائخ عظام, حرمین شریفین اور بیس رکعات تراویح

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 

ائمہ اربعہ اور بیس رکعات تراویح

نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک سنتوں اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے مقدس طریقوں کی حفاظت وتدوین  جس جامعیت اور تفصیل کے ساتھ حضرات ائمہ اربعہ نے فرمائی ہے یہ مقام امت میں کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ اسی لیے پوری امت ان ہی کی رہنمائی میں پاک سنتوں پر عمل کررہی ہے،یہ تمام ائمہ بیس رکعات کے قائل تھے،  تفصیل پیش خدمت ہے۔

امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت:

امام اعظم فی الفقہاء اما م ابوحنیفہ اور آپ کے تمام مقلدین بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں۔

1: علامہ ابن رشد اپنی مشہور کتاب بدایۃ المجتہد میں لکھتے ہیں:

فاختار ۔۔۔ابو حنیفۃ۔۔۔ القیام بعشرین رکعۃ سوی الوتر۔ (ج1ص214)

امام ابوحنیفہ کے ہاں قیام رمضان بیس رکعت ہے، وتر علاوہ ہیں۔

2: امام قاضی خان حنفی اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں:عن ابی حنیفۃ قال القیام فی شھررمضان سنۃ۔۔۔۔۔کل لیلۃ سوی الوتر عشرین رکعۃ خمس ترویحات ۔ (فتاویٰ قاضی خان ج1ص112)

امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ رمضان میں ہررات بیس رکعت یعنی پانچ ترویحے وتر کے علاوہ  پڑھنا سنت ہے ۔

3: علامہ ابن عابدین شامی جو فقہ حنفی کے عظیم محقق ہیں، فرماتے ہیں:

( قولہ وعشرون رکعۃ) وھوقول الجمھور وعلیہ عمل الناس شرقاوغربا. (رد المحتار ج2ص495)

بیس رکعات ہی جمہور کاقول ہے اوراسی پر شرقا غربا پوری امت کا عمل ہے ۔

امام مالک بن انس:

امام مالک نے ایک قول کے مطابق بیس رکعت تراویح کو مستحسن کہا ہے۔ علامہ ابن رشد فرماتے ہیں:واختار مالک فی احد قولیہ ۔۔۔القیام بعشرین رکعۃ. (بدایہ المجتہد ج1ص214)

ترجمہ: امام مالک رحمہ اللہ نے ایک قول میں  بیس رکعت تراویح کو اختیار فرمایا ہے۔ دوسرا قول چھتیس کا ہے جن میں بیس تراویح اور سولہ نفل تھیں تفصیل گزر چکی ۔

امام محمد بن ادریس شافعی:

ائمہ اربعہ میں سے مشہور امام ہیں، آپ فرماتے ہیں:

احب الی عشرون ۔۔۔۔۔وکذالک یقومون بمکۃ۔ (قیام اللیل ص159)

مجھے بیس رکعت تراویح پسند ہے، مکہ میں بھی بیس رکعت پڑھتے ہیں۔

دوسرے مقام پرارشاد  فرماتے ہیں:وھکذا ادرکت ببلدنا بمکۃ یصلون عشرین رکعۃ۔ (جامع الترمذی ج1ص166 باب ما جاء في قيام شهر رمضان)

میں نے اپنے شہر مکہ میں لوگوں کوبیس رکعت نماز تراویح پڑھتے پایا ہے ۔

مشہور شافعی عالم محقق العصر امام نووی دمشقی فرماتے ہیں:اعلم ان صلوۃ التراویح سنۃ باتفاق العلماء وھی عشرون رکعۃ۔ (کتاب الاذکار: ص226)

تراویح باتفاق علماء سنت ہے اوریہ بیس رکعت ہے ۔

امام احمد بن حنبل:

آپ بیس رکعت تراویح کے قائل تھے۔ چنانچہ فقہ حنبلی کے ممتاز ترجمان امام ابن قدامہ لکھتے ہیں:والمختار عندابی عبداللہ (احمد بن حنبل)فیھا عشرون رکعۃ وبھذا قال الثوری وابوحنیفۃ والشافعی۔ (المغنی ج1ص802)

ترجمہ: مختار قول کے مطابق امام احمد بن حنبل بیس رکعت کے قائل تھے اور یہی مذہب  امام سفیان ثوری ،امام ابوحنیفہ اورامام شافعی کا ہے۔

مشائخ عظام اور بیس رکعت تراویح

امت مسلمہ میں جو مشائخ  گزرے ہیں ان کا عمل، اخلاق اور حسنِ کردار اس امت کے لیے قابل اتباع ہے، ان کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو وہ بھی بیس رکعت پر عمل پیرا نظر آتے ہیں جو یقیناً رشد وہدایت کی دلیل ہے۔

1: شیخ ابو حامد محمد غزالی م 505ھ:

التراویح وھی عشرون رکعۃ وکیفیتھا مشھورۃ وھی سنۃ موکدۃ ۔ (احیاء العلوم ج1ص123)

ترجمہ: تراویح بیس رکعات ہیں جن کاطریقہ مشہور ہے اور یہ سنت مؤکدہ ہیں۔

2: شیخ عبدالقادر جیلانی م561ھ:

آپ علوم اسلامیہ کے ہر فن میں بے بدل عالم ،تصوف وسلوک کے مشہور امام تھے اپنی مشہور کتاب غنیۃ الطالبین میں تراویح سے متعلق تحریر فرماتے ہیں :

صلوۃ التراویح سنۃ النبی وھی عشرون رکعۃ،(ص :267،268)

تراویح کی نماز نبی  صلی اللہ علیہ و سلم  کی سنت مبارکہ  ہے اور  بیس رکعت ہے

3: شیخ امام عبدالوہاب شعرانی م973ھ:

آپ مشہور محدث ،فقیہ اور سلسلہ تصوف میں ایک خاص مقام کے مالک تھے۔ اپنی مشہور زمانہ کتاب ”المیزان الکبریٰ“ میں تحریر فرماتے ہیں:التراویح فی شھر رمضان عشرون رکعۃ۔ (ص153)

ترجمہ: تروایح رمضان میں بیس رکعت ہے۔

حرمین شریفین اور بیس رکعات تراویح

اسلام کے دو مقدس حرم؛ حرم مکہ وحرم مدینہ میں چودہ سوسال سے بیس رکعت سے کم تراویح پڑھنا ثابت نہیں بلکہ بیس رکعت ہی متوارث ومتواتر عمل رہا ہے۔چنانچہ مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے سابق قاضی شیخ عطیہ سالم نے مسجد نبوی میں نماز تراویح کی چودہ سوسالہ تاریخ پر’’التراویح اکثر من الف عام‘‘ کے نام سے ایک مستقل کتاب تالیف فرماکر ثابت کیا ہے کہ چودہ سوسالہ مدت میں بیس رکعت متواتر عمل ہے، اس سے کم ثابت نہیں۔جامعہ ام القری مکہ مکرمہ کی طرف سے” کلیۃ الشریعۃ والدراسات الاسلامیۃ“ مکہ مکرمہ کے استاذ شیخ محمدعلی صابونی کا ایک رسالہ ”الھدی النبوی الصحیح فی صلوۃ التراویح“ کے نام سے شائع کیا گیا ہے جس میں شیخ صابونی نے عہد خلافت راشدہ سے لے کر عہد حکومت سعودیہ تک مکہ مکرمہ ومسجد حرام میں ہمیشہ بیس رکعات تراویح پڑھے جانےکا ثبوت دیا ہے۔

خلاصہ کلام:

مذکورہ احادیث وآثار، حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم  وتابعین رحمہم اللہ کے افعال ، ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ کے اقوال سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے۔

(1)۔۔۔آپ علیہ السلام نے لوگوں کوقیام رمضان کی بہت ترغیب دی، خود بھی پڑھتے رہے، تین دن اس کی جماعت کرائی اورامت کے لیے اسے مسنون قراردیا۔

(2)۔۔۔آنحضرت  صلی اللہ علیہ و سلم  سے بیس رکعت ثابت ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت جابر بن عبداللہ کی احادیث سے ظاہرہے۔ چونکہ ان روایات کو امت کی تلقی بالقبول حاصل ہے اس لیے یہ صحیح لغیرہ کے درجہ میں ہیں۔

(3) ۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد خلفاء راشدین میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر ہمیشگی فرمائی اوربیس رکعت پر امت کو جمع کیا۔ تمام مہاجر وانصار صحابہ کی موجودگی میں اس پر اجماع ہوگیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی بیس رکعت ہی پڑھی جاتی رہی۔

(4)۔۔۔دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اورحضرات تابعین بھی بیس رکعت تراویح کے قائل وفاعل رہے۔

(5)۔۔۔ائمہ اربعہ رحمہ اللہ اوران کے مقلدین بیس رکعت ہی پڑھتے چلے آرہے ہیں،گویا یہ عملا متوارث ومتواترہے۔

(6)۔۔۔بلاداسلامیہ خصوصاً مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ،  بصرہ وکوفہ وغیرہ میں بیس رکعت ہی پڑھی جاتی رہی ہے۔

(7)۔۔۔امت مسلمہ کے مشائخ وبزرگان بیس رکعت پر ہی عمل پیرارہے۔

(8)۔۔۔عرصہ چودہ سوسال سے اسلام کے عظیم مراکز حرمین شریفین میں بیس رکعت ہی پڑھائی جاتی ہیں اورآج بھی رمضان المبارک کی بہاروں میں بیس رکعت ہی پڑھی جاتی ہے۔