غیرمقلدین کے مؤقف اور شبہات کی حقیقت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

غیرمقلدین کے مؤقف اور شبہات کی حقیقت

محترم قارئین! سابقہ صفحات میں آپ نے ملاحظہ کر لیا کہ نماز تراویح بیس رکعات ہی ہیں، لیکن غیر مقلدین اس متوارث عمل کو چھوڑ کر آٹھ رکعات پر اکتفاء کرتے ہیں۔ ہم بتوفیق اللہ ان کے خود ساختہ موقف اور دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔

 دلیل نمبر1:

غیر مقلدین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو بڑے زور و شور سے پیش کرتے ہیں کہ اس سے آٹھ رکعت تراویح ثابت ہے۔ روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلمہ بن عبد الرحمن نے ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز رمضان میں کیسی ہوتی تھی؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نےجواب دیا:’’ماکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ یصلی اربعا فلاتسئل عن حسنھن وطولھن ثم یصلی اربعا فلاتسئل عن حسنھن وطولھن ثم یصلی ثلاثا‘‘ (صحیح بخاری )

کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔ پہلے چار رکعتیں پڑھے ، پس کچھ نہ پوچھو کتنی حسین و لمبی ہوتی تھیں، اس کے بعد پھر چار رکعت پڑھتے ، کچھ نہ پوچھو کتنی حسین اور لمبی ہوتی تھیں، پھر تین رکعت وتر  پڑھتے تھے ۔

جواب نمبر1:

اس روایت سے آٹھ رکعت تراویح  پر استدلال باطل ہے، اس لیے :

1: اس میں’’رمضان وغیررمضان‘‘میں ہمیشہ گیارہ رکعت پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ تراویح صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے ،غیررمضان میں نہیں۔ حدیث کے جملہ’’ماکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ ‘‘سے یہی بات سمجھ میں آرہی ہے۔

اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس سے وہ نماز مراد ہے  جو رمضان اور غیر رمضان دونوں میں پڑھی جاتی ہے اور وہ نمازِ تہجد ہے [وضاحت آگے آ رہی ہے]

2: اس حدیث میں گیارہ رکعت تنہا پڑھنے کا ذکر ہے نہ کہ جماعت کے ساتھ اورتراویح جماعت سے پڑھی جاتی ہے۔

3: اس میں ایک سلام سے چار رکعت کا ذکر ہے جبکہ تراویح ایک سلام سے دو دو رکعت پڑھی جاتی ہیں۔

جواب نمبر2:

محدثین کے نزدیک بھی یہ حدیث تراویح کے متعلق نہیں ۔ کیونکہ عام طور پر حضرات محدثین کا طرز یہ ہے کہ تہجد کے لیے ’’باب قیام اللیل‘‘ اور تراویح کےلیے ’’باب  قیام رمضان‘‘ قائم کرتے ہیں۔

ذیل میں ایک جدول  بنایا جا رہا ہے جس میں اس بات کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد میں فرق ہے جو لوگ اس کو ایک سمجھتے ہیں وہ کم علمی کا شکار ہیں اور  سخت غلطی پر ہیں ۔

ملاحظہ فرمائیے!

نام کتاب

باب تہجد

باب تراویح

صحیح بخاری

باب فضل قیام اللیل

باب فضل من قام رمضان

صحیح مسلم

باب صلوۃ اللیل

باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التروایح

سنن ابی داؤد

باب فی صلوۃ اللیل

باب قیام شھر رمضان

جامع ترمذی

باب فی فضل صلوۃ اللیل

باب  ماجاء فی قیام شھر رمضان

سنن نسائی

کتاب قیام اللیل

ثواب من قام وصام

سنن ابن ماجہ

باب ماجاء فی قیام اللیل

باب  ماجاء فی قیام شھر رمضان

موطا امام مالک

با ب فی صلوۃ اللیل

باب فی قیام رمضان

موطا امام محمد

با ب فی صلوۃ اللیل

باب قیام شھر رمضان

مشکوۃ شریف

با ب فی صلوۃ اللیل

باب قیام شھر رمضان

ریاض الصالحین

باب فضل قیام اللیل

باب استحباب قیام رمضان وھو التراویح

صحیح ابن حبان

فصل قیام اللیل

فصل فی التراویح

مجمع الزوائد

با ب فی صلوۃ اللیل

قیام رمضان

سنن کبری للبیہقی

با ب فی صلوۃ اللیل

باب فی قیام شھر رمضان

جمع الفوائد

صلوۃ اللیل

قیام رمضان والتراویح وغیر ذالک

قیام اللیل للمروزی

با ب فی صلوۃ اللیل

قیام رمضان

بلوغ المرام

صلوۃ التطوع

قیام رمضان

حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کی مذکورہ روایت کو محدثین نے باب صلوۃ اللیل (یعنی تہجد کے باب)  میں ذکر فرمایا ہے ۔

جدول ملاحظہ ہو !

نام کتاب باب

صحیح بخاری

ج1ص154 کتاب التہجد

صحیح مسلم

ج1ص254باب صلاۃ اللیل وعددرکعات النبی ﷺفی اللیل

سنن ابی داؤد

ج1ص189باب صلاۃ اللیل

جامع ترمذی

ج1ص98 باب صلاۃ اللیل

موطاامام مالک

ص99باب فی صلوۃ اللیل

سنن النسائی

ج1ص237 کتاب قیام اللیل

زاد المعاد لابن القیم

ص  125قیام اللیل

حضرات محدثین کا اس حدیث کو قیام اللیل(یعنی تہجد کے باب) میں ذکر کرنا دلیل ہے کہ یہ تہجد سے متعلق ہے نہ کہ تراویح کے متعلق۔

جواب نمبر 2 پر اعتراض:

اس کو امام بخاری ’’باب فضل من قام رمضان‘‘اور امام محمد’’باب قیام شھر رمضان‘‘میں بھی لائے ہیں ۔معلوم ہوا کہ یہ تراویح کے متعلق ہے ۔

جواب:

امام بخاری اور امام محمد اس روایت کو تہجد اور قیام رمضان وغیرہ میں لائے تاکہ ثابت  کریں کہ تہجد جس طرح غیر رمضان میں پڑھی جاتی ہے اسی طرح رمضان میں بھی پڑھی جاتی ہے۔

فائدہ: غیر مقلدین کا  خود بھی اس روایت پر عمل نہیں،کیونکہ رمضان اور غیر رمضان  میں تین رکعات وتر کا ذکر ہے لیکن یہ لوگ ایک  وتر پڑھتے ہیں ۔

دلیل  نمبر2:

غیر مقلدین آٹھ رکعت تراویح پر یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں:

عن جابر بن عبداللہ قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی شھر رمضان ثمان رکعات واوتر ،فلما کانت القابلۃ اجتمعنا فی المسجد ورجونا ان یخرج ،فلم نزل  فیہ حتی اصبحنا ثم دخلنا،فقلنا یا رسول اللہ اجتمعنا البارحۃ فی المسجد ورجونا ان تصلی بنا فقال انی خشیت ان یکتب علیکم (المعجم الصغیر للطبرانی)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں رمضان  کی ایک رات میں آٹھ رکعتیں اور تین وتر پڑھائے۔ جب دوسری رات ہوئی  تو ہم مسجد میں جمع ہو گئے۔ ہم اس امید میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائیں گے ، ہم اسی انتظار میں بیٹھے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے تو ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ ! ہم  رات کو اس امید پر جمع ہوئے تھے کہ آپ ہمیں نماز پڑھائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مجھے اس بات کا خوف تھا کہ یہ نماز تم پرکہیں  فرض نہ ہو جائے۔[اس لیے نہیں پڑھائی]

یہی روایت صحیح ابن خزیمہ ،صحیح ابن حبان اور قیام اللیل للمروزی میں بھی موجود ہے

جواب:

مذکورہ کتب میں یہ روایت دو سندوں سے آتی ہے ۔

1:اسحاق  – ابوالربیع - یعقوب قمی -عیسی بن جاریۃ  -  جابر بن عبداللہ

2:محمد بن حمید الرازی  -  یعقوب قمی - عیسی بن جاریۃ  -  جابر بن عبداللہ

ان دونوں طریق میں درج ذیل  رواۃ ضعیف  و مجروح ہیں۔

عیسیٰ بن جاریہ :

حضرت جابر بن  عبداللہ سے نقل کرنے والے صرف ایک راوی ہیں عیسی بن جاریہ ،انہی پر اس روایت کا مدار ہے ، ابن خزیمہ کے حاشیہ پر اس کے بارے میں لکھا ہے:عیسی بن جاریہ فیہ لین۔ (صحیح ابن خزیمۃ ج1ص531)

ترجمہ: عیسیٰ بن جاریہ میں کمزوری ہے۔

دیگر محدثین نے بھی اس پر جروح کی ہیں:

1: امام یحیٰ بن معین:لیس بذاک عندہ مناکیر[یہ شخص قوی نہیں نیز اس کے پاس منکر روایات  پائی جاتی ہے]

2: امام نسائی: منکرالحدیث [اس کی حدیث میں نکارت پائی جاتی ہے]

3: امام ابوداؤد:منکرالحدیث [اس کی حدیث میں نکارت پائی جاتی ہے]

4: امام نسائی:متروک الحدیث [اس کی روایات کو محدثین نے ترک کر دیاہے]

5: امام ا بن عدی:احادیثہ غیرمحفوظۃ[اس کی احادیث غیر محفوظ ہیں]

6: امام ساجی: ضعفاء میں شمار کیا۔

7: امام عقیلی: ضعفاء میں شمار کیا۔

(میزان الاعتدال ج3 ص312، تہذیب التہذیب ج5ص192،193)

یعقوب قمی :

 یہ راوی دونوں سندوں میں موجود ہے۔ اس کا نام یعقوب بن عبداللہ القمی ہے۔یہ بھی مجروح راوی ہے ۔ امام دار قطنی فرماتے ہیں:لیس بالقوی ۔ (میزان الاعتدال ج5ص178)

یہ حدیث میں قوی نہیں ہے۔

یہ روایت ضعیف، متروک اور صحیح روایات کے مقابلے میں نا قابل حجت  ہے۔

 دلیل نمبر3:

حدثنا عبد الاعلی حدثنا یعقوب عن عیسی بن جا ریۃ حدثنا جا بر بن عبد اللہ قال جا ء ابی ابن کعب الی رسو ل اللہ   صلی اللہ علیہ و سلم فقا ل یا رسول اللہ   صلی اللہ علیہ و سلم ان کا ن منی اللیلۃ شئی  یعنی فی رمضا ن قال وما ذاک یا ابی قال: نسوۃ فی دا ری قلن انا لا نقرأالقرآ ن فنصلی بصلا تک قال فصلیت بھن  ثمان  رکعات ثم او ترت قال فکا ن شبہ الرضا ء ولم یقل شیئا ۔ (مسند ابی یعلی)

ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! آج رات میرے ساتھ ایک بات پیش آئی یعنی رمضان میں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اے ابی! وہ کیا بات ہے؟، حضرت ابی نے کہا: میرے گھر میں عورتیں تھیں، انہوں نے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھ سکتیں، اس لیے ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گی، پس میں نے انہیں آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے۔ تو یہ رضا کی مثل ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ نہیں فرمایا۔

جواب نمبر1:

 اس سند میں وہی عیسی بن جا ریہ اور یعقوب القمی موجود ہیں،  جو سخت مجرو ح اور ضعیف  ہیں۔ ان پر جر ح ہم ما قبل میں ذکر کر آئے ہیں۔ لہذا یہ روایت سخت ضعیف  ہونے کی وجہ سے قابل استدلال  نہیں ۔

جواب نمبر2:

اس روایت کے تمام طرق جمع کر یں تو کئی قرا ئن ملتے ہیں کہ یہ مضطرب ہے

1: یہ روایت تین کتا بو ں میں ہے۔ مسند احمد میں سرے  سے "رمضا  ن''  کا لفظ ہی نہیں ، مسند ابی یعلی میں'' یعنی رمضا ن ''کا لفظ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فہم راوی ہے نہ کہ  روایت ، قیا م اللیل مروزی میں ''فی رمضا ن''  کا لفظ ہے جو یقیناً کسی تحتا نی راوی کا ا دراج ہے۔ جب اس روایت میں ''فی رمضا ن'' کا لفظ ہی مدر ج ہے تو اسے تراویح سے کیا تعلق رہا ؟

2: مسند ابی یعلی اور قیام اللیل للمروزی سے ظا ہر ہو تا ہے کہ یہ واقعہ خو د  حضرت ابی بن کعب کا ہے جبکہ مسند احمد کی روایت میں الفا ظ ہیں: عن جا بر عن ابی بن کعب قال جا ء رجل الی النبی   صلی اللہ علیہ و سلم  الخ۔۔ [حضرت جابر حضرت ابی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا ]جس سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ واقعہ کسی اور کا ہے، حضرت ابی بن کعب کا نہیں ۔

3: سب سے بڑھ کر یہ کہ آٹھ رکعت پڑ ھنےوالا یہ کہتا ہے: ''انہ کا ن منی اللیلۃ شئی''[رات مجھ سے یہ کام سرزد ہو گیا]  اورعملت اللیلۃ عملاً [میں نے آج رات ایسا عمل کیا] ۔معلوم ہو اکہ اس نے اسی  رات آٹھ پڑھیں تھیں اس سے پہلے معمول آٹھ کا  نہیں تھا، اس لئے تو اس نے کہا کہ میں نے یہ انو کھا کا م کیا ہے۔ یہی  وجہ ہے کہ آپ   صلی اللہ علیہ و سلم خا موش رہے کہ جب یہ خود اس کام کو انو کھا سمجھ رہا ہے تو خوا ہ مخوا ہ  اس کی تر دید کیو ں کی جا ئے ۔

 دلیل نمبر4:

 سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں۔ (موطا امام مالک)

جواب1:

امر اول:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کی تراویح کے ناقل  یہ راوی ہیں:

نمبر شمار راوی تعداد رکعت ماخذ

1

السائب بن یزید

تفصیل آگے

۔۔۔۔

2

یزید بن رومان

23[مع الوتر]

موطا امام مالک

3

عبدالعزیز بن رفیع

20

مصنف ابن ابی شیبہ

4

ابی بن کعب

20

مسند احمد بن منیع

5

یحیی بن سعید

20

مصنف ابن ابی شیبہ

6

محمد بن کعب القرظی

20

قیام اللیل للمروزی

7

حسن بصری

20

سنن ابی داؤد

یہ تمام رواۃ بیس رکعت تراویح ہی روایت کرتے ہیں، رہے سائب بن یزید تو ان کی روایت کی تفصیل درج ذیل ہے:سائب بن یزید کے تین شاگرد ہیں:

نمبر شمار راوی تعداد رکعات ماخذ

1

یزید بن خصیفہ

20

السنن الکبری ٰ

2

حارث بن عبدالرحمن ابی ذہاب

23[مع الوتر]

مصنف عبدالرزاق

3

محمد بن یوسف

تفصیل آگے

۔۔۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سائب بن یزید کے تین شاگردوں میں سےیزید بن خصیفہ بیس اور حارث بن عبدالرحمن ابی ذہاب تیئس[مع الوتر] نقل کرتے ہیں ، البتہ محمد بن یوسف نے دو باتوں میں اختلاف کیا ہے ۔

1: یزید بن خصیفہ اور حارث بن عبدالرحمن ابی ذہاب قاریوں کی تعداد نہیں بتاتے لیکن محمد بن یوسف  نے بتائی ہے کہ دو تھے؛ ابی بن کعب  اور تمیم داری ۔

2: اول الذکر دو راوی تراویح بیس ہی نقل کرتے ہیں لیکن اس نے تراویح کی تعداد  گیارہ، تیرہ اور اکیس نقل کی ۔

 محمد بن یوسف کے شاگردوں کی تفصیل کچھ یوں  ہے۔

نمبر شمار راوی تعداد رکعات ماخذ

1

امام مالک

11

موطا امام مالک

2

یحیی بن سعید القطان

11

مصنف ابن ابی شیبہ

3

عبدالعزیز بن محمد الدَّرَاوَرْدِی

11

سعید بن ابی منصور

4

محمد بن اسحاق

13

قیام اللیل للمروزی

5

داؤد بن قیس وغیرہ

21

مصنف عبدالرزاق

اس سے واضح ہوتا ہے کہ محمد بن یوسف کے پانچوں شاگردوں کے بیانات  عدد وکیفیت کے لحاظ سے باہم مختلف ہیں کہ۔۔۔

1: پہلے تین شاگرد گیارہ نقل کرتے ہیں اور محمد بن اسحاق تیرہ ،جبکہ پانچواں شاگرد داؤد بن قیس اکیس رکعات نقل کرتا ہے۔

2: امام مالک کی روایت میں گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم ہے عمل کا ذکر نہیں ،یحیی القطان کی روایت میں حکم کا ذکر نہیں ،عبدالعزیز بن محمد کی روایت میں گیارہ رکعت تو ہیں لیکن نہ حکم ہے اور نہ ابی بن کعب اور تمیم داری کا ذکر ۔محمد بن اسحاق کی روایت میں تیرہ رکعت کا ذکر ہے لیکن نہ حکم ہے اور نہ ابی وتمیم کا ذکر،اور داؤد بن قیس کی روایت میں حکم تو ہے لیکن گیارہ کی بجائے اکیس کا ذکر ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ محمد بن یوسف کی یہ روایت شدید مضطرب ہے اور اضطراب فی المتن وجہ ضعف ہوتا ہے:والاضطراب يوجب ضعف الحديث۔ (تقریب النووی مع شرحہ التدریب: ص234)

ترجمہ: اضطراب روایت کو ضعیف بنا دیتا ہے۔

لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔

جواب2:

امام مالک کا اپنا عمل اس کے خلاف ہے ،علامہ ابن رشد لکھتے ہیں:واختار مالک فی احد قولیہ ۔۔۔۔۔القیام بعشرین رکعۃ۔ (بدایہ المجتہد ج1ص214)

امام مالک رحمہ اللہ نے ایک قول میں  بیس رکعت تراویح کو اختیار فرمایا ہے۔

اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ راوی کا عمل اگر اپنی روایت کے خلاف ہو تو اس بات کی دلیل ہے کہ روایت ساقط ہے۔ (المنار مع شرحہ نور الانوار:  ص190)

جواب3:

روایت کے راوی سائب بن یزید کا اپنا عمل اس کے خلاف ہے کیونکہ ان سے بسند صحیح مروی ہے:عن السائب بن یزید قال کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب بعشرین رکعۃ والوتر۔(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی: ج2ص305کتاب الصلوۃ)

ترجمہ: حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر کے زمانے میں بیس رکعت تروایح اوروترپڑھتے تھے۔

فائدہ: چونکہ یہ روایت تمام رواۃ کی مرویات کے خلاف تھی اس لیے علماء نے اس کے بارے میں دو موقف اختیار کیے ہیں ۔ [۱] ترجیح [۲] تطبیق

ترجیح : اس روایت (گیارہ رکعت)کو راوی کا وہم قرار دے کر مرجوح قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:ان الاغلب عندی ان قولہ احدی عشرۃ وھم. (الزرقانی شرح موطا:  ج1ص215)

ترجمہ: میرے نزدیک  غالب (راجح ) یہی ہے کہ راوی کا قول ”احدی عشرۃ“ [گیارہ رکعت]وہم ہے۔

تطبیق: بعض حضرات نے تطبیق دینے کی کوشش کی ہے ۔مثلاً:

1: علامۃ بدر الدین عینی:

 لعل ھذا کان من فعل عمر اولا ثم نقلھم الی ثلاث وعشرین۔ (عمدۃ القاری:  ج8ص246)

ترجمہ: ممکن ہے یہ( گیارہ رکعت) حضرت عمر کا پہلے کا عمل ہو جو تئیس رکعات (بیس تراویح اور تین وتر) تک جا پہنچا ہو۔

2: ملا علی قاری:

وجمع بینھمابانہ وقع اولا (ای احدی عشرۃ رکعۃ فی زمان عمر)ثم استقر الامر علی العشرین فانہ المتوارث۔ (المرقاۃ علی المشکوۃ ج3ص194)

ترجمہ: ان دونوں میں تطبیق یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ یہ پہلے کا عمل ہو، پھر بیس رکعت پر معاملہ ٹھہر گیا ہو اور یہی عمل امت میں متواتر  و متوارث چلا ہے۔

3: علامہ محمد بن علی النیموی:

وجمع البیھقی بینھما کانوا یقومون باحدی عشرۃ ثم قاموا بعشرین واوتروا بثلاث وقدعد وا ماوقع فی زمن عمر کالاجماع۔ ( حاشیۃ آثارالسنن ص221)

ترجمہ: امام بیہقی نے ان میں تطبیق یوں دی کہ (ممکن ہے) پہلے یہ لوگ گیارہ پڑھتے ہوں، پھر بیس رکعت تراویح اور تین وتر پر کاربند رہے ہوں۔