لیکن تو چیز ہے دیگری

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
لیکن تو چیز ہے دیگری
عبدالمنعم فائز "کراچی
علامہ اقبال نے مسو لینی سے ملاقات کی۔ گفتگو کے دوران علامہ اقبال نے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پالیسی کا ذکر کیا کہ شہر کی آبادی میں غیر ضروری اضافے کے بجائے دوسرے شہر آباد کیے جائیں۔ مسولینی یہ سن کر مارے خوشی کے اچھل پڑا۔ کہنے لگا ” شہری آبادی کی منصوبہ بندی کا اس سے بہتر حل دنیا میں موجود نہیں ہے۔ “
آج سے چودہ سو سال پہلے مکہ کے اس دریتیم نے حکم دیا تھا کہ مدینہ کی گلیاں کشادہ رکھو گلیوں کو گھروں کی وجہ سے تنگ نہ کرو۔ ہر گلی اتنی کشادہ ہو کہ دولدے ہوئے اونٹ آسانی سے گزر سکیں۔ آج دنیا 14 سو سال بعد اس حکم پر عمل کر رہی ہے۔ شہروں میں تنگ گلیوں کو کشادہ کیا جارہا ہے۔
محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ مدینہ کے بالکل درمیان میں مرکزی مارکیٹ قائم کی جائے۔ اسے ”سوق مدینہ “ کا نام دیا گیا آج کی تہذیب یافتہ دنیا کہتی ہے جس شہر کے درمیان مارکیٹ نہ ہو وہ ترقی نہیں کر سکتا۔ نبی امی نے کہا تھا ” یہ تمہاری مارکیٹ ہے اس میں ٹیکس نہ لگاﺅ “ آج دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مارکیٹ کو ٹیکس فری ہونا چاہئے۔ دنیا بھر میں ڈیوٹی فری مارکیٹ کا رجحان فروغ پارہا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذخیرہ اندوزی سے منع کیا۔ آج دنیا اس حکم پر عمل کرتی تو خوراک کا عالمی بحران کبھی پیدا نہ ہوتا۔ آپ نے فرمایا تھا سود اور سٹے سے نفع نہیں نقصان ہوتا ہے ، آج عالمی مالیاتی بحران نے اس کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ کل کے ارب پتی آج کشکول گدائی لیے پھر رہے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ کو منع کیا کہ درختوں کو نہ کاٹو۔ کوئی علاقہ فتح ہوتو بھی درختوں کو آگ نہ لگاﺅ۔ آج ماحولیاتی آلودگی دنیا کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ گلیشئرز پگھل رہے ہیں گرمی بڑھ رہی ہے یہ سب کچھ درختوں اور جنگلات کی کمی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ایک شخص نے مدینہ کے بازار میں بھٹی لگالی۔ حضرت عمر ؓ نے اس سے کہا تم بازار کو بند کرنا چاہتے ہو؟ شہر سے باہر چلے جاﺅ۔ آج دنیا بھر میں انڈسٹریل علاقے شہروں سے باہر قائم کیے جا رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے باہر ”محی النقیع“ نامی سیر گاہ بنوائی۔ وہاں پیڑ پودے اس قدر لگوائے کہ وہ تفریح گاہ بن گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی وہاں آرام کے لیے تشریف لے جاتے۔ آج صدیوں بعد ترقی یافتہ شہروں میں پارک قائم کیے جارہے ہیں۔ شہریوں کی تفریح کے لیے ایسی تفریح گاہوں کو ضروری سمجھا جا رہا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے مختلف قبائل کو جمع کرکے ”میثاقِ مدینہ “ تیار کیا۔ 52 دفعات پر مشتمل یہ معاہدہ دراصل مدینہ کی شہری حکومت کا دستور العمل تھا۔ اس معاہدے نے جہاں شہر کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہیں خانہ جنگیوں کو ختم کرکے مضبوط قوم بنادیا۔ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی خانہ جنگی ہے۔ مختلف شہر اور صوبے اس آگ میں جل رہے ہیں اس آگ کو بجھانے کے لیے معاہدے ہو ں گے۔
مدینہ میں مسجد نبوی کے صحن میں ہسپتال بنایا گیا تاکہ مریضوں کو جلد اور مفت علاج مہیا ہو۔ آج ترقی یافتہ ممالک میں علاج حکومت کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ ماہانہ چیک اپ مفت کیے جاتے ہیں۔ مسجد نبوی کو مرکزی سیکرٹریٹ کا درجہ حاصل تھا۔ مدینہ بھر کی تمام گلیاں مسجد نبوی تک براہِ راست پہنچتی تھیں تاکہ کسی حاجت مند کو پہنچنے میں دشواری نہ ہو۔ آج ریاست کے سربراہ اعلیٰ کی رہائش گاہ میں اس بات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔
آپ اس نبی امی کی سیرت دیکھیں اور دنیا میں نام کمانے والے حکمرانوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں آپ کو محسوس ہوگا چہ نسبت خاک رابا عالم پاک۔ دنیا میں غلغلہ ہے مارٹن لو تھر کی انقلابی جدوجہد کا۔ غریبوں ، مظلوموں اور امریکا کے سیاہ فام باشندوں کو اس نے جینے کا شعور دیا۔ اس نے کالے انسانوں کی غلامی ختم ہونے کا خواب دیکھا اور پھر اس خواب کو پورا کر دکھایا لیکن آگے بڑھنے سے پہلے آئےے عرب کی سرزمین پر جنم لینے والے اس آمنہ کے لعل کی سیرت کو دیکھیں۔ اس نے جاہل ، خونخوار اور وحشی قوم کو تہذیب، اخلاق اور تابندہ روایات کا درس دیا۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے سے لوگ چند سالوں میں قیصر و کسریٰ کے حکمران بن گئے۔ دنیا کی وہ ترقی یافتہ حکومتیں ان کے زیر نگیں آگئیں۔ کل کے غلام چند سالوں میں ہی حکمران بن بیٹھے۔
لوگ متاثر ہیں نیلسن منڈیلا کی طویل اور صبر آزما جدو جہد سے وہ اپنی قوم کا نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے برسوں گزارنے کے باوجود وہ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹا۔ اس کے سامنے ڈالروں کے ڈھیر لگا دیئے گئے مگر وہ اس کے موقف میں لچک نہ آئی۔ آئےے! ہم کچھ دیر کو عرب کی سر زمین پر چلتے ہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شعب ابی طالب میں قید کر دیا گیا۔ کھانا بند کر دیا گیا۔ اپنوں سے دور کر دیا گیا۔ پتے اور پتھر چبانے پر مجبور کیا گیا۔ عربوں کی ساری دولت قدموں میں ڈھیر کرنے کا لالچ دیا گیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لمحے کو بھی ان پیش کشوں پر غور نہیں کیا۔
آج لینن اور کارل مارکس کی معاشی حکمت عملیوں کا چرچا ہے۔ شہرہ ہے ان کی غریب نوازی کا مگر یہ ”غریب نواز“ خود تو محلوں میں رہائش پذیر رہے۔ آئےے ! عرب کے اس بادہ نشین کا حال دیکھیے جسے سونے کے پہاڑ پیش کیے گئے مگر اس نے کہا میں تو ایک دن کھانا کھا کر شکر اور دوسرے دن بھوکا رہ کر صبر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ کچے مکان اور جھونپڑے میں سویا، اس کا بستر کھجور کی چھال سے بنا ہوا تھا۔
آفاقہا گردیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری