ایک کہانی بڑی پرانی

User Rating: 2 / 5

Star ActiveStar ActiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ایک کہانی بڑی پرانی
ام محمد رانا
نمرہ کا اپنے بہن بھائیوں میں آٹھواں اور آخری نمبر تھا نمرہ کی پیدائش اس وقت ہوئی جب چوتھا اور بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹا بھائی بھی آٹھویں جماعت میں تھا۔ 45سالہ آسیہ تو نمرہ کی پیدائش پر ایسے شرمندہ تھیں جیسے ان سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوگیا جس سے وہ تائب ہوچکی تھیں لیکن اس میں نہ تو نمرہ صاحبہ کی غلطی تھی کہ وہ اپنی والدہ کی رضا کے بغیر ہی اس دنیا میں تشریف لائی اور نہ ہی آسیہ کو اتنا شرمسار ہونے کی ضرورت تھی کیونکہ یہ تو اللہ کی دین ہے۔ 45سال کی کیا بات ہے وہ جو بانجھ ہونے کے باوجود 100سال کی عمر میں اولاد سے نواز سکتاہے اس کی قدرت کسی کی مرضی یا خواہش کے تابع کوئی تھوڑتی ہے سوادھر نمرہ دومہینے کی ہوئی تو ا سکی بڑی دو بہنوں نے بھی نمرہ کو خالہ کی سند دے دی تھی۔
آسیہ بیگم نے بڑے آرام سے تیسرے نمبر والی ریحانہ سے کہہ دیا تھا ”اٹھاﺅ اس کو لے جاﺅ اور سنبھالو میرے پاس نہ لے کر آنا“ تو اس دن سے ریحانہ ہی نمرہ کی ماں بن گئی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے ریحانہ کی جان نمرہ میں ہے۔ نمرہ کے رونے کی آواز سنتے ہی ریحانہ کا دل گھبرانے لگ جاتا وہ اپنے سارے کام چھوڑکر اسے گود میں لے کر بیٹھ جاتی۔
جوں جوں نمرہ بڑی ہوتی جارہی تھی اپنی توتلی باتوں اور معصوم حرکتوں سے گھر والوں کی آنکھوں کا تارابن گئی تھی سوائے نمرہ کے ابا جی اشرف علی کے۔لیکن ایک دن یہ عقدہ بھی کھل ہی گیا گھر میں کوئی بھی نہیں تھا اور ریحانہ ڈیرے پہ لسی بھیجنے کے لیے جارہی تھی۔ نمرہ صحن میں کھیل رہی تھی ابا جی نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی جب نگاہ کچھ کھوجنے میں ناکام رہی تو ابا جی نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جھٹ نمرہ کو گود میں اٹھایا اور اس کے نرم نرم گالوں پر بوسوں کی بوچھاڑ کردی اور پھر جیب میں سے کاٹھے بیروں کی مٹھی بھر کر نمرہ کی جھولی میں ڈال دی۔
قدموں کی آہٹ سنتے ہی اشرف علی فٹا فٹ نمرہ کو گود سے اتارنے لگے تو دیکھا سامنے آسیہ بیگم کھڑی تھیں۔ آسیہ بیگم اشرف علی کی کیفیت سمجھ چکی تھیں دونوں ایک دوسرے کودیکھ کر قہقہہ لگا کر ہنس پڑے اشرف علی کی شریر سی ہنسی سے آسیہ بیگم نے شرمیلے سے انداز میں ہنس کر منہ دوسری طرف پھیر لیا تھااور ایک لحظہ کے بعد دونوں نمرہ کو یوں پیار کررہے تھے جیسے وہ کہیں سے سفر سے آئے ہوں یا پھر جیسے نمرہ طویل گمشدگی کے بعد ان کی آغوش میں آئی ہو۔
نمرہ اس اچانک افتاد پرروہانسی ہوگئی اور اس کی متلاشی نگاہیں ریحانہ کو ڈھونڈرہی تھیں اور ریحانہ یہ منظر رسوئی کے طاق میں سے دیکھ کر محظوظ ہورہی تھی۔ اشرف علی اورآسیہ بیگم کو نمرہ سے پیار کرتے دیکھ کر ریحانہ کا دل بھی بے قابو ہورہا تھا کہ وہ تھی ہی اس کی لاڈلی۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر ریحانہ بھی صحن میں اباجی کے پاس پہنچ کئی اس سے پہلے کہ اشرف علی اور آسیہ بیگم طوطا چشمی کرتے تو ریحانہ نے دور سے آوز دے کر کہا اباجی آج سورج مغرب سے نکل آیا ہے یا پھر میری آنکھیں مجھے دھوکہ دے رہی ہیںامی جی آپ تو مان لیں آپ نے بھی نمرہ کی بہت حق تلفی کی ہے لیکن اب میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ یہ بھی آپ دونوں کی توجہ ومحبت وشفقت کی ایسی حق دار ہے جیسے ہم باقی چاروں بہنیں اورتینوں بھائی ہیں۔ ریحانہ نے اشرف علی اور آسیہ بیگم سے یہ وعدہ لے لیا کہ آئندہ وہ نمرہ کو اتنا پیار کریں گے کہ پچھلی کوتاہیوں کا ازالہ بھی ہوجائے۔
اب نمرہ سارے گھر والوں کا کھلونا تھی اشرف علی تو جب تک اپنی روٹی کا پہلا لقمہ نمرہ کو نہ کھلالیتے تب تک خود کھانا حرام سمجھتے اور آسیہ بیگم کی تو نمرہ گویا کہ دم تھی ہر وقت پیچھے پیچھے پھیرتی رہتی۔ نمرہ پانچ سال کی ہوئی تو ریحانہ اور بڑے بھائی عرفان کی شادی ہوگئی۔ریحانہ کی رخصتی کے وقت رورو کر آنکھیں سوج گئی تھیںاس کی عقل یہ بات تسلیم کرنے سے قاصر تھی کہ وہ کیسے نمرہ کے بغیر رہے گی جب کہ نمرہ یہ دیکھ دیکھ کر تالیاں بجا رہی تھی کہ اس کی آپی دلہن بنی بیٹھی تھی یہ تو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ آپی اسے چھوڑ کرچلی جائے گی۔
وہ تو اپنی خوشی میں پھولے نہ سما رہی تھی کہ آپی بھی دلہن بنی ہوئی اور بڑے بھیا بھی روپوں کے اتنے زیادہ ہار پہنے ہوئے اور پھولوں والی گاڑی میں ایک پیاری سی دلہن لے کر آئے تھے۔ دلہن دیکھ کر وہ بھی لہنگا لینے کی ضد کرنے لگی تو بڑی آپا شبانہ نے اپنی بیٹی کا لہنگا پہنا کر نمرہ کودلہن بنا کر ریحانہ کے پہلو میں بٹھا دیا۔ نمرہ تھوڑی ہی دیر میں لہنگے کے جھنجھٹ سے اکتا گئی تو فرزانہ نے اسے ہلکے پھلکے کپڑے پہنائے اور وہ سارادن تھکی ہونے کے باعث سوگئی۔
شام سات بجے جب نمرہ نے آنکھ کھولی تو اسے یاد آیا کہ آپی ریحانہ دلہن بنی ہوئی تھیں۔وہ بھاگی بھاگی ساتھ والے کمرے میں گئی تو کمرے میں صرف بڑے بھیا کی دلہن دیکھ کر رونے لگ گئی کہ آپی کہاں گئی ہیں آپی مجھے بھی ساتھ لے کر جائیں۔ نمرہ کو جب چپ کرواتے کرواتے سب کی آنکھیں اشکبارہوگئیں کہ اللہ نے یہ کیسا دستور بنایا ہے کہ اپنے ہاتھوں اپنے جگر کا ٹکڑا ہم دوسروں کو سونپ دیتے ہیں۔
اب نمرہ کی موجیں پہلے جتنی نہیں رہی تھیں، اسکی آپی جو چلی گئی تھیں اور پھر اب وہ بڑی ہورہی تھی، سکول مدرسہ کی پڑھائی نے بھی خاصا وقت لے لیا تھا، ادھر فرزانہ کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانا پڑتا تھا۔ نمرہ کو ایسے لگنے لگاجیسے اس کے پیارومحبت کی قاتل اس کی بھابھی ہیں۔ اس کا معصوم ذہن یہ سوچتا تھا کہ بھابھی آئی ہیں تو آپی گئی ہیں بھابھی کے آنے کی وجہ سے آپی کے لیے گھر میں جگہ نہیں تھی اس لیے آپی کو بھیج دیا گیا اوررہی سہی کسر بھابھی کے بیٹے ارسل نے پوری کردی تھی اب سارے گھر والے ارسل کو اٹھائے اٹھائے پھرتے۔ ارسل تو نمرہ کو بھی اچھا لگتاتھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اس کے لاشعور میں بیٹھ گئی تھی کہ اب وہ لاڈلی نہیں رہی۔
وقت گزرتا رہا درمیان میں کئی واقعات رونما ہوئے جنہوں نے نمرہ کو حد درجہ سنجیدہ اور کم گو بنا دیا تھا جن میں سب سے زیادہ المناک واقعہ اس کے ابا جی کی اچانک موت تھی۔ اب سب بہن بھائی اپنے آپ میں مگن تھے فرزانہ بھی بیاہ کر چلی گئی اور کامران اورعمران بھی شادی کے بندھن میں بندھ گئے تھے۔ نمرہ بی۔اے کر کے فارغ ہوچکی تھی گھر کی صفائی ستھرائی، کھانابنانا، کپڑے برتن وغیرہ دھونا سارا کام اب نمرہ کی ذمہ داری تھا بھابھیاں چھوٹے چھوٹے بچوں والی تھیں اور پھر اگر ایک کا کام نمرہ کرتی تھی تو دوسرے کہتی کہ کیوں ہماری یہ کچھ نہیں لگتی؟ وہ بھی نمرہ کے سر تھوپ دیتی اور تیسری بھی بھلا کیوں پیچھے رہتی؟
ستم کی بات یہ تھی کہ اتنا کرنے کے باوجود بھی کوئی بھابھی نمرہ سے خوش نہیں تھی کہ وہ ان کی ساری فرمائشیں پوری نہ کرپاتی تھی اور بھائی بھی تب تک ہی راضی رہتے ہیں جب تک انہیں بھابھیاں راضی رہنے دیں ورنہ مرد کوورغلانااوراپنی پٹی پہ لگانا عورتوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتاہے۔ کوئی تو صرف زبان پہ ہی یقین کرلیتاہے، کسی کو رودھوکر منوالیاجاتا ہے اور اگر پھربھی کوئی اکڑارہے تو بی بی کسی نہ کسی وقت کوئی مشاہدہ کرواکر اپنا حامی بناہی لیتی ہے۔ الا ماشاءاللہ
آسیہ بیگم حالات کی زد میں آکراس قدر مجبور ہوگئی تھیں کہ وہ سارا کچھ دیکھتے سمجھتے ہوئے بھی بیٹوں کوکچھ نہیں کہہ سکتی تھیں۔ اسی عمر میںبڑی بیٹیاں دودوبچوں کی مائیں بن چکی تھیں لیکن نمرہ کی شادی کا بھائیوں کے دل میں کبھی خیال تک نہیں آیاتھا۔آسیہ بیگم بیٹوں کی توجہ اس طرف دلانا چاہتیں تو وہ بات ٹال جاتے۔ نمر ہ کی بہنیں جب سسرال سے آتیں تو نمرہ کو لگتا کہ اس کی بے رونق زندگی میں بھی کوئی خوشی کی سا عت ہے وہ اپنے دل کے پھھولے بہنوں کے سامنے پھوڑ لیتی۔ اگر بہنیں نمر ہ کی شادی کا ذکر کرتیںیاکہیں رشتہ کروانے کی کوشش کرتیں تو بھائی ناراض ہوتے کہ ہم مرگئے ہیں کہ اب غیر آکے ہماری بہن کا بیاہ کریں! ادھر بھابھیاں جہاں بھی رشتہ دیکھنے جاتیں توکسی کا گھر اچھا نہ لگتا، کہیں لڑکے کا کاروبار پسند نہ آتا، کہیں مالی حالات پسند نہ آتے اور کہیں لڑکے کی شکل میں کیڑے نکالے جاتے۔
نمرہ کے بھائیوں کے مالی حالات بہت اچھے تھے اس لیے ان کی مطابقت کے رشتے آتے تو بھابھیاں کہتیں کہ زیادہ کھاتے پیتے گھر دیں گے تو ان کے حساب سے جہیز بھی دینا پڑے گا کسی متوسط گھرانے میںشادی کریں گے تو ہماری برتری بھی قائم رہے گی اور جہیز بھی کم دینا پڑے گا۔
(باقی آئندہ شمارے میں)