ہماری مائیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ہماری مائیں
رضوانہ خلیل'ملتان
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
آپ کا نام ہند، ام سلمہ کنیت، قریش کے خاندان مخزوم سے ہیں سلسلہ نسب یہ ہے:
ہندبنت ابی امیہ سہیل بن المغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم
آپ کی والدہ بنو فراس قبیلہ سے تھیں اور ان کا سلسلہ نسب یہ ہے:
عاتقہ بنت عامربن ربیعہ بن مالک بن جذیمہ بن علقمہ بن جذل الطعان ابن فراس۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے والد بہت فیاض تھے سفر میں جاتے تو تمام قافلے والوں کی کفالت خود کرتے اس لیے” زاد الراکب“ کے خوبصورت لقب سے مشہور تھے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان ہی کی آغوش تربیت میں نہایت نازونعمت سے پرورش پائی۔
آپ کا نکاح عبداللہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ سے ہوا جوابوسلمہ کے نام سے مشہور تھے اورحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے چچازاد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے۔ آغازنبوت میں اپنے شوہر کے ساتھ مسلمان ہوئیں، اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔حبشہ میں کچھ زمانہ تک ایام کرکے مکہ واپس آئیں اور یہاں سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔
ہجرت مدینہ کا سبق آموز واقعہ:
ہجرت کا واقعہ نہایت عبرت انگیز ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ہمراہ ہجرت کرنا چاہتی تھیں ان کا بچہ سلمہ بھی ساتھ تھالیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے قبیلہ نے مزاحمت کی تھی اس لیے حضرت ابوسلمہ ان کو چھوڑ کرمدینہ چلے گئے تھے اور یہ اپنے گھر واپس آگئیں تھیں۔ادھر سلمہ کوابو سلمہ کے خاندان والے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے چھین لے گئے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی تکلیف میں اور اضافہ ہوگیا چنانچہ روزانہ گھبراکر گھر سے باہر نکل جاتیں اور ابطح نامی جگہ میں بیٹھ کررویا کرتی تھیں سات آٹھ دن تک یہ حالت رہی اور خاندان کے لوگوں کواحساس تک نہ ہوا۔ایک دن ابطح سے ان کے خاندان کا ایک شخص نکلا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو روتے ہوئے دیکھا تو اس کا دل بھر آیا۔گھر آکر لوگوں سے کہا کہ اس غریب پر کیوں ظلم کررہے ہواس کو جانے دو اور اس کا بچہ اس کے حوالے کردو۔اس شخص کی یہ مخلصانہ کوشش کام آگئی اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو جانے کی اجازت مل گئی۔چنانچہ اپنے بچے کو گود میں لیکراونٹ پر سوار ہوگئیں اور مدینے کا راستہ لیا۔
چونکہ وہ بالکل تنہا تھیں، کوئی مرد ساتھ نہ ساتھ نہ تھا،مقام تنعیم میں عثمان بن طلحہ(کلیدبرادرکعبہ)کی نظر پڑی تو بولے کہ کدھر کا قصد ہے؟ فرمایا مدینہ کا۔پوچھا کوئی ساتھ بھی ہے؟ جواباً فرمایاخدااور یہ بچہ۔عثمان نے کہا تم تنہا نہیں جاسکتیں میں لیکر چلوں گا یہ کہہ کر اونٹ کی پکڑی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اونٹ پر بیٹھنے کا کہا اور سفر شروع ہوگیا،راستہ میں جب کہیں ٹھہرتاتو اونٹ کو بٹھاکر کسی درخت کے نیچے چلاجاتااورحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اتر پڑتیں، روانگی کا وقت آتاتو اونٹ پرکجاوہ رکھ کرہٹ جاتااور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہتا سوار ہو جاوحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا شریف النفس انسان کہیں نہیں دیکھا۔ بہر کیف مدینہ پہنچ گئے وہاں حضرت ام سلمہ اپنے شوہرکے پاس چلی گئیںاور عثمان واپس مکہ چلا گیا۔
وفات حضرت ابوسلمہ اورنکاح ثانی:
کچھ زمانہ تک شو ہرکا ساتھ رہا۔حضرت ابو سلمہ بڑے شہ سوار تھے، بدر اور احد میں شریک ہوئے غزوہ احد میں چندزخم کھائے جن کے صدمے سے جانبرنہ ہوسکے۔چنانچہ جمادی الثانی سن 4ھ میں زخموں کی تاب نہ لاکر راہی راہ وفاہوگئے۔ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا حاملہ تھیں۔وضع حمل کے بعدعدت گذارنے کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام نکاح لیکر حاضر ہوئے اس پرحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے کچھ عذر ہیں۔
(1 ) میں سخت غیورعورت ہوں (2 ) صاحب عیال ہوں(3 ) میری عمرزیادہ ہے۔
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تمام اعذار خندہ پیشانی کے ساتھ قبول فرمائے۔چناچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے عمر سے کہا میرا نکاح حضورصلی اللہ علیہ وسلام سے میرا نکاح کرو۔ شوال سن4 ھ کے اخیر میںیہ تقریب انجام پائی۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کواپنے شوہر حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی جدائی کی وجہ سے جو صدمہ پہنچا تھا خداوند قدوس نے اس کو ابدی مسرت سے تبدیل کردیا۔
فضل وکمال:
علمی حیثیت میںاگر چہ تمام ازواج مطہرات بلندمرتبہ تھیں تاہم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اورحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا ان میں کوئی جواب نہ تھا۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نہایت زاہدانہ زندگی بسرکرتی تھیں ایک مرتبہ ایک ہار پہناجس میں سونے کا کچھ حصہ شامل تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتراض کیاتو اس کو اسی وقت توڑڈالا۔ ہر مہینے میں تین دن پیر،جمعرات اور جمعہ کا روزہ رکھتی تھیں،ہروقت ثواب کی تلاش میں رہتی تھیں۔ سخاوت میں اپنی مثال آپ تھیں اس کے علاوہ کئی صفات کی جامع تھیں۔
وفات:
جس سال حرہ کا واقعہ ہوایعنی 63ھ میں اسی سال حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی اس وقت ان کی عمر8 4 برس تھی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔
اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین