ڈرائیور مینیجر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ڈرائیور مینیجر
صبا خان'گکھٹر منڈی
پروفیسر آفتاب کی پیشانی پر بل پڑے ہوئے تھے ان کا ڈرائیور ابھی تک نہیں آیا وہ وقت کی پابندی کے لیے مشہور تھے کسی جگہ پہنچنے کا جو وقت مقرر ہوتا وہ اس سے ایک سیکنڈبھی لیٹ پہنچنا پسند نہیں کرتے تھے۔ آج انہیں ایک اہم میٹنگ میں جانا تھا شام پانچ بجے کا وقت طے تھا پونے پانچ بج چکے تھے اور ان کے خیال میں راستہ بیس منٹ کا تھا گویا اس وقت تک وہ پانچ منٹ تولیٹ ہوہی چکے تھے۔
آخر ڈرائیور کی صورت نظر آئی اس نے ہارن بجایا تو وہ باہر کی طرف دوڑ پڑے جلدی سے کار میں بیٹھے اور بولے:” ہم میٹنگ کے وقت سے پانچ منٹ لیٹ پہنچیں گے ان پانچ منٹوں کی وجہ سے آج مجھے جو شرمندگی اٹھانی پڑے گی اس کے ذمے دار تم ہوگے۔ تم اچھی طرح جانتے ہو میں وقت کا کتنا پابند ہوں اس کے باوجود تم پندرہ منٹ لیٹ آئے ہو میں نے تمہیں پہلے بتا دیا تھاک ہ مجھے پانچ بجے پہنچنا ہے اورتم میرے پاس ساڑھے چار بجے پہنچ جانا لیکن تم پونے پانچ بجے سے بھی تیس سیکنڈ بعد پہنچے ہو اب میں تمہیں اور کیا کہوں؟تمہیں ملازمت سے فارغ کرتا ہوں،تو تمہارے چھوٹے چھوٹے بچوں کا خیال آتاہے ،کیونکہ غلطی تمہاری ہے اور سزا ملے گی تمہارے بچوںکو۔“
وہ یہاں تک کہہ کر خاموش ہوگئے ڈرائیور نے ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا بس پوری توجہ سے گاڑی چلاتا رہا جب انہوں نے دیکھا کہ اس نے ان کی باتوں کے جواب میں یہ تک نہیں کہا کہ” سرمجھے افسوس ہے“تو انہیں اورغصہ آنے لگا ، بولے:” تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا؟“
ڈرائیور اب بھی خاموش رہا اس کی پوری توجہ گاڑی چلانے کی طرف تھی انہوں نے جھلا کر کہا” خیر! میٹنگ سے فارغ ہوکر تم سے بات کروں گا۔“ مگر ڈرائیور اب بھی کچھ نہ بولا اس کی نظریں سڑک پر تھیں پھر گاڑی رک گئی۔ انہوںنے چونک کر دیکھا وہ میٹنگ ہال کے سامنے پہنچ چکے تھے انہوں نے گھڑی پر نظر ڈالی تو انہیں خوشگوار حیرت کا ایک جھٹکا لگا پانچ بجنے میں چند سیکنڈ باقی تھے۔ کچھ کہے بغیر وہ بلا کی تیزی سے کار سے نکلے اور اندر کی طرف دوڑ پڑے جب وہ ہال میں داخل ہوئے تو گھڑیاںپورے پانچ بجا رہی تھیں اور تمام لوگ انہیں آج بھی تعریفی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
میٹنگ سے فارغ ہوکر وہ کار میں آبیٹھے ڈرائیور نے گھر کا رخ کیا اب دونوں خاموش تھے۔ یہ خاموشی پروفیسر آفتاب کو چبھنے لگی آخر انہوں نے کہا”تمہاری خاموشی پر اسرار سی ہے جو مجھے الجھن میں مبتلا کر رہی ہے آخر کچھ تو بولو!میں تسلیم کرتا ہوں تم نے لیٹ پہنچنے کے باوجود مجھے میٹنگ ہال میں وقت پر پہنچایا اس کے لیے میں تمہارا جتنا شکریہ اداکروں کم ہے تم نے مجھے شرمندگی سے بچالیا لیکن یہ بھی توسوچو تمہیں کتنی تیز ڈرائیونگ کرنا پڑی تیز ڈرائیونگ بہرحال خطرناک ہے وقت سے پہلے روانہ ہونے کا بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ڈرائیونگ سکون سے ہوتی ہے کیا اب تم بتانا پسند کروگے تم لیٹ کیوں ہوگئے تھے؟“یہ کہہ کروہ خاموش ہوگئے اور ڈرائیور کے جواب کا انتظارکرنے لگے۔
آخر ڈرائیور کے ہونٹ ہلے” آپ کا اصول اگر وقت کی پابندی ہے تو میرا اصول دکھی انسانیت کی خدمت ہے میری چھے سال کی ملازمت کے دوران کبھی کہیںلیٹ نہیں پہنچے اگر آج آپ لیٹ پہنچتے تو کوئی آپ کو شرمندہ نہ کرتا کیونکہ سب آپ کے اصول کو جانتے ہیں خود ہی سمجھ لیتے کہ آج ضرور کوئی ناخوشگوار معاملہ ہوا ہوگا،لہذاسب لوگ آپ سے ہمدردی کرتے۔ یہ اور بات ہے کہ میں نے آپ کو پھر بھی وقت پر پہنچادیا اور میں اپنا کام بھی کر گزرا۔“
“ وہی تو میں جاننا چاہتا ہوں آخر تم لیٹ کیوں ہوئے؟“ وہ جھنجھلا کر بولے
”ایک لڑکے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا وہ اپنی موٹر سائیکل پر جارہا تھا کہ سامنے سے آنے والی ایک کار سے ٹکراگیا اس کے سرپر چوٹ آئی تھی۔ پیشانی سے خون بہہ رہا تھا اور کوئی اسے ہسپتال لے جانے کے لیے تیار نہیں تھا میں نے اس کے پاس گاڑی روک لی۔ میرے سامنے دوراستے تھے ،ایک یہ کہ میں بھی دوسروں کی طرح آگے بڑھ جاﺅں دوسرا یہ کہ اسے ہسپتال پہنچا دوںلیکن اس صورت میں، میں آپ کے پاس لیٹ پہنچتااورآپ کی ڈانٹ ڈپٹ سننا پڑتی اور اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ آپ مجھے ملازمت سے ہی نکال دیتے۔
میں اس وقت اپنی بوڑھی ماں کا علاج کروارہا ہوں وہ ٹی بی کی مریضہ ہے علاج پر کافی پیسے خرچ ہورہے ہیں ملازمت چھوٹنے کی صورت میں وہ علاج متاثر ہوسکتاتھا۔ لیکن دوسری طرف وہ لڑکا تھا اور اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا آخر میں نے فیصلہ کر لیا کہ لڑکے کو ہسپتال لے کر جاﺅں زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ آپ لیٹ ہوجائیں گے سو میں نے لڑکے کو ہسپتال پہنچا دیا پھر آپ کی طرف دوڑپڑا میری کوشش یہی تھی کہ کسی طرح آپ کو بھی وقت پر پہنچادوں سو اللہ تعالی نے مدد فرمائی اور میں اپنی کوشش میںکامیاب ہوگیا میں نے اس وقت آپ کی کسی بات کا جواب اس لیے نہیں دیا کہ میں ڈرائیونگ پر پوری توجہ دے رہا تھا اور جواب دینے کی صورت میں میرا دھیان بٹ سکتاتھا ،اس طرح آپ کو وقت پر پہنچانے میںکامیاب ہوگیا یوں میرے دونوں مقصد پورے ہوگئے ،اب آپ چاہیں تو مجھے ملازمت سے فارغ کردیں۔“
وہ خاموش ہوگیا آخری جملہ کہتے وقت اسکی آواز بھراگئی تھی۔
چند لمحے تک آفتاب صاحب خاموش رہے شاید سوچ رہے تھے اس سے کیا کہیں،آخر انہوں نے کہا
”نہیں!میں تمہیں ملازمت سے نہیں نکال سکتا کیونکہ لیٹ پہنچنے کے باوجود تم نے مجھے تو وقت پر پہنچادیا تھا اور تم بلاوجہ لیٹ بھی نہیں پہنچے لیکن ملازمت سے تو نکانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بس تم کچھ محسوس نہ کرو۔ ارے ! تم آج کس راستے سے جارہے ہو؟“
”سر! پہلے ہسپتال جاﺅں گا آخر اس بے چارے کا حال بھی تو معلوم کرنا ہے اسے خون وغیرہ کی ضرورت نہ ہو یہ سب بھی تو دیکھنا ہوگا۔“
”تم ایسا ضرور کرو مگر پہلے مجھے گھر پہنچادو۔“
”سر! اب ہم ہسپتال کے قریب ہیں آپ کا زیادہ وقت نہیں لگے گا۔“
آفتاب صاحب کا منہ بن گیا تاہم انہوں نے منہ سے کچھ نہ کہاآخر وہ ہسپتال پہنچ گئے کار کا انجن بند کرکے ڈرائیور نیچے اترا۔
”آپ بھی تشریف لائیے سر“
”نہیں بھئی! بس تم جلدی سے ہوآﺅ پیسوں کی ضرورت پیش آئی تو مجھے بتا دینا میں دے دوں گا۔“
”نہیں سر! میری درخواست ہے آپ ساتھ چلیے“
”بھئی میں کیاکروں گا؟”
”اس طرح آپ بھی دکھی انسانیت کی خدمت میں حصہ لیں گے۔” ڈرائیور مسکرادیا آفتاب صاحب نے جھلا کر کہا”اچھابابا“
دونوں ہسپتال کی اوپر والی منزل پر پہنچے اورپھر ایک پرائیویٹ کمرے کے سامنے پہنچ گئے۔” یہ کیاتم نے لڑکے کو پرائیویٹ روم میں داخل کروادیا؟“ آفتاب صاحب نے حیرت سے کہا۔” جی ہاں“ ڈرائیور بولا
”یہ تم نے کیاکیا؟اتنے اخراجات کا بل کون ادا کرے گا؟“
اس نے سپاٹ لہجے میں کہا:”آپ !“
آفتاب صاحب نے جواب دیا:”حد ہوگئی بھئی میں کیوں اداکروں گا؟“
”خیر! آپ آئیں توسہی“ یہ کہہ کر وہ اندر داخل ہوگیا اس کے پیچھے آفتاب صاحب بھی منہ بناتے ہوئے اندرداخل ہوگئے اور پھر زور سے اُچھلے۔ ان کے سامنے ان کا بیٹا زخمی حالت میں بستر پرپڑا تھا” میرا بچہ....یہ....یہ تم نے کیا کیا ....؟تم نے مجھے اس وقت کیوں نہ بتایا؟“
” اگر اس وقت آپ کو بتا دیتا تومیٹنگ میں آپ نہ جاسکتے جب کہ وہ میٹنگ آپ کے لیے بہت اہم تھی اور یہاں آکر آپ صرف بیٹھے رہنے کے سوا کچھ نہ کرسکتے تھے میںنے ڈاکٹر صاحبان کو بتا دیا تھا کہ یہ آپ کے بیٹے ہیں اور انہوں نے بھی اطمینان دلادیا تھا کہ ان کی حالت خطرناک نہیں ہیں معمولی چوٹیں ہیں پھر جب آپ میٹنگ میں تھے تو میں اس دوران برابر فون پر چھوٹے صاحب سے ان کی حالت پوچھتا رہاہوں آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں۔”
”یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں ابو!یہ بہت اچھے انسان ہیں انہوں نے یہ کام بہت خوبی سے انجام دیا ہے۔”
”اور سر! اگر ان کی حالت ذرابھی نازک ہوتی تو میں آپ کو میٹنگ میں لے جانے کی بجائے سیدھا یہاں لاتا لیکن جب میں نے دیکھا کہ آپکی یہاں ضرورت نہیں تو میں آپ کو وہاں لے گیا۔ یہاں بیٹھ کر سوائے گھبرانے کے آپ کوئی کام نہ کرتے۔“
چند لمحے تک آفتاب صاحب ڈرائیور کو حیرت بھری نظروں سے دیکھتے رہے آخر انہوں نے کہا” تم حیرت انگیز ہو میں نے آج تک تمہارے اندر جھانکنے کی کوشش نہیں کی ہم لوگ انسانی پیشوں کی نسبت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں اور بس۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ایک معمولی پیشے والا انسان بھی اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک ہوسکتاہے اور اس کی صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھانا نہ صرف اس کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ اپنے ساتھ بھی زیادتی ہے لہذا آج سے تم میرے ڈرائیور نہیںمیری کمپنی کے ایک ذمے دار عہدے دار ہو، میں تمہیں اپنا مینیجر مقرر کرتا ہوں اور میںواقعی تم سے معافی چاہتا ہوں، میں نے تمہیں بہت سخت الفاظ کہے۔”
اس نے مسکرا کر کہا” کوئی بات نہیں سر!آپ یہ بھی تو دیکھیے کہ ان سخت جملوںکا بدلہ مجھے کتنا اچھا ملا ہے !“
آفتاب صاحب نے آگے بڑھ کراسے گلے سے لگالیا