اہل سنت کی نشانیاں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اہل سنت کی نشانیاں
مولانا عابد جمشید
امت کے بڑے بڑے محسنین میں ان کاشمارہوتاہے انہوں نے بہترین زمانوں میں سے دوسرازمانہ پایایعنی وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے شاگردتھے دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجئے کہ وہ تابعی تھے۔ انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے علم دین سیکھااوراس علم کومرتب اورسہل انداز میں امت کے سامنے پیش کیا۔ وہ قرآن وسنت کے معانی کی تہہ تک پہنچتے اوراس سے عقائد ومسائل کے انمول موتی نکال کرعام مسلمانوں تک پہنچاتے۔بڑے بڑے علماءاورفقیہ ان کی شاگردی اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔
شاید ہی کوئی ایسا عالم ہوجس نے ان کی مدح سرائی نہ کی ہوان کا نام نامی اسم گرامی” نعمان“ اوروالد گرامی کانام ”ثابت“ تھا لیکن وہ اپنے اصل نام کی بجائے ”ابو حنیفہ“کے نام سے زیادہ مشہورہوئے۔ انہیں امامِ اعظم بھی کہاجاتاہے ان کو امام اعظم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل السنت کے وہ چارامام جن کی قرآن وحدیث کی روشنی میں مدون کی ہوئی فقہ کواللہ تعالی نے قبولیت سے نوازا، توان چاروں ائمہ میں علم اوررتبے کے لحاظ سے وہ سب سے بڑے تھے۔
اہل السنت کے ان چارائمہ کے نام یہ ہیں:”امامِ اعظم ابوحنیفہ ؒ ،امامِ مالک بن انسؒ، امام ِشافعیؒ اور امامِ احمد بن حنبلؒ۔ “اللہ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں۔امام ابوحنیفہ ؒنے اپنی پوری زندگی دین کی خدمت کرتے ہوئے گزاری آپ نے کئی کتب تحریرفرمائیں جن میں سے” کتاب الآثار “ اور ”الفقہ الاکبر“ زیادہ مشہورہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے علماءکی ایک بہت بڑی جماعت کو تیار کیا جنہوں نے علم دین کوپوری دنیا میں خوب پھیلایا۔
جب آپ مرض الموت میں مبتلاہوئے توآپ نے اپنے شاگردوں اورساتھیوں کوجمع کیااوران سے مخاطب ہوکرفرمایا:” جوشخص یہ چاہتا ہے کہ اس کاشماراہل السنت والجماعت سے ہوتواسے چاہیے کہ اپنے اندربارہ عادات یانشانیاں پیداکرلے۔جوشخص ان بارہ نشانیوں کی پابندی کرے گا وہ کبھی گمراہ ہوکر بدعتی اورنفس کاپچاری نہ بنے گا۔“
اس کے بعد امام ابوحنیفہ نے بارہ نشانیوں کو ترتیب واربتلایا اوران کے شاگردوں نے ان کو لکھ کرمحفوظ کرلیا۔ہم اس مضمون میں ان بارہ خصلتوںکاذکرکریں گے ا ورآسان اورسادہ الفاظ میں ان کی مختصر سی تشریح بھی کریں گے۔ہماری معززمائیں،بہنیں اوربیٹیاں ان بارہ علامات کواچھی طرح یادکرلیںاوراپنے اندر ان کوپیداکرنے کی کوشش کریں تاکہ قیامت کے دن ہمارا شمار سفیدچہروں والے اس مبارک گروہ میں ہوجن کو اللہ تعالی کے حبیب جناب محمد ﷺکی شفاعت اورحوض کوثرسے سیرابی نصیب ہوگی۔ یہ گروہ اہل السنت والجماعت کاہوگا جب کہ بدعتی گروہوں کواس متبرک حوض سے دھتکاردیاجائے گا۔توآئیے! ان بارہ علامات کی طرف:
1: ”ایمان“ زبان سے اقراراوردل سے تصدیق کانام ہے :
پہلی بات یہ اپنے ذہن میں بٹھا لیں کہ ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اقرار کیاجائے اوردل سے اس کو سچا مانا جائے اورایمان درج ذیل چیزوں پرلانا ہے۔ اللہ تعالی پر ، اس کے رسولوں پر،اس کے فرشتوں پر، اس کی نازل کردہ کتابوں پر، قیامت کے دن پر اور تقدیر پر۔ جس طرح صرف زبان سے کہہ دینا کافی نہیں اسی طرح صرف دل میں ایمان کو چھپاکررکھنا اورزبان سے اس کے برخلاف بات کہنا ہرگز ہرگز درست نہیں۔
آج کل کئی لوگ یورپی ممالک کاویزایاشہریت حاصل کرنے کے لیے کاغذات میں خودکوقادیانی ظاہرکرتے ہیںاورمتعلقہ ملک کے سفارت خانے میں انٹرویوکے وقت یاان ممالک کے ائیرپورٹس پر خودکوقادیانی بتاتے ہیں۔ یادرکھیے! یہ انتہائی سنگین غلطی ہے اوراس کاارتکاب کرنے والے لوگ مسلمان نہیں رہ سکتے۔ کیوں کہ قادیانی ختم نبوت کے انکار اورنبی کریمﷺ کی شان مبارک میں گستاخیوں کی وجہ سے مسلمان نہیں بلکہ مرتدہیں۔اللہ تعالی تمام مسلمانوں کوایمانی غیرت عطافرمائیں۔
2: ایمان اوراعمال کاباہمی تعلق:
یادرکھیے !ایمان اوراعمال کاآپس میں گہرا تعلق ہے۔ایمان کااظہار،اعمال کے ذریعے ہی ہوتاہے۔ ایمان کی مثال پودے کی جڑ اورتنے کی ہے جب کہ اس سے پھوٹنے والی شاخیں اعمال سمجھ لیجئے ایمان اورصحیح عقائد کے بغیرکوئی بھی نیک عمل قابل قبول نہیں ہوتا۔اگرکوئی شخص اعمال میں کوتاہی کرے تواس کوکافر کہنا درست نہیں۔ گناہ کرنے سے انسان اسلام سے خارج نہیںہوتاالبتہ نیک اعمال سے ایمان میں مضبوطی اورگناہوں کی وجہ سے اس میں کمزوری آجاتی ہے۔ اس بات کویقینی بنائیں کہ علمائے اہل السنت والجماعت کے عقائد سے آگاہی حاصل کریں اوراس پرفتن دور میں جوباطل نظریات اورعقائدپھیلائے جارہے ہیں ان سے بچنے کا پورا پورا اہتمام کریں۔اعمال میں کمی کوتاہی کی معافی توہوسکتی ہے لیکن اگرعقائد درست نہ ہوں تونہ اعمال قبول ہوں گے اورنہ ہی نجات ملے گی۔
3: تقدیر پرایمان:
اہل السنت والجماعت کاعقیدہ ہے کہ اچھی اوربری تقدیر دونوں اللہ ہی کی طرف سے ہیں۔ ازل سے لے کرابد تک جو کچھ ہونے والا ہے اللہ تعالی نے یہ سب کچھ ”لوح محفوظ“ میں لکھ دیاہے۔ انسان کی پیدائش سے موت تک کے تمام حالات اس کی تقدیر میں لکھے جاچکے ہیں لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ انسان مجبور اوربے اختیار ہے اورجوکچھ اس کی تقدیرمیں لکھاجاچکاہے اس نے وہی کرناہے اس لیے انسان اگرکوئی گناہ کاکام کرے تو اس کاکوئی قصور نہیں۔جیساکہ بعض لوگ تقدیر کواپنے گناہوں اوربرائیوں کے لیے آڑ بناتے ہیں اورکہتے ہیں کہ جی! ہماراکیاقصور؟ جو تقدیر میں لکھاہواتھا ہم نے وہی کیاہے۔
یادرکھیے!یہ سخت گمراہ کن عقیدہ ہے اللہ تعالی نے دنیاکوامتحان اورآزمائش کی جگہ بنایا ہے اورنیکی اوربدی دونوں کوپیداکرکے انسان کواختیاردیاہے کہ وہ خواہ نیک اعمال کرے خواہ برے۔ لیکن اللہ تعالی نے یہ بھی بتلادیاہے کہ نیک اعمال کرنے والوں کومیری رضانصیب ہوگی اور برائی کاارتکاب کرنے والے پر میری ناراضگی اورغضب نازل ہوگا۔
اب آپ عقیدہ تقدیر کومختصراًیوں سمجھیں کہ اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو پیدا کیا اور اپنے لامحدود و بے مثال اورازلی وابدی علم سے یہ جان لیاکہ کون کون ساانسان کیاکیاعمل کرے گا؟پھراسی چیزکوتقدیرمیں لکھ دیاگیا۔انسانوں پر نیک اعمال بجالانااوربرے اعمال سے بچنا لازمی اورضروری ہے اور تقدیر پر بھروسہ کرکے بیٹھے رہنادرست نہیں۔
مسئلہ تقدیر کی حقیقت اسی قدرہے اسے اچھی طرح ذہن نشین کرلیںاوراسے ہی کافی سمجھیں،اس میں مزید بحث اورکھوج کریدنہ کریں۔ نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق تقدیر کے مسئلہ میں زیادہ بحث سے گمراہی اورایمان کی تباہی کے راستے کھلتے ہیں۔(جاری ہے )