رشتہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
رشتہ
فردوس بی بی 'فیصل آباد
عائشہ اورا س کی بہنوں کی تربیت بہت مذہبی ماحول میں ہوئی تھی۔ وہ چار بہنیں تھیں اور ان کاباپ دل کامریض تھا۔ دومرتبہ دل کا دورہ پڑنے کے بعد اب بوڑھے اورکمزور دل میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ تیسرا جھٹکا برداشت کرسکے۔آسیہ بیگم یعنی عائشہ کی ماں ایک باہمت خاتون تھی وہ محلے کی عورتوں کے کپڑے سیتی اور اس طرح گھر کاچولہا جلتا۔
وہ اپنی بیٹیوں کی شادی کے سلسلے میں بہت پریشان رہتی تھی سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ کوئی اچھا رشتہ ہی نہیں ملتاتھا اوراگرملتاتووہ لوگ غریب سمجھ کر رشتہ جوڑنے پرآمادہ ہی نہیں ہوتے تھے۔آج آسیہ بیگم گھر آتے ہی صفائی میں مصروف ہوگئیں اس کی محلے دار پروین نے ایک رشتے کے متعلق بتایا تھاا ورآسیہ بیگم نے انہیں شام کاٹائم دے دیا وہ صفائی کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹیوں کوہدایات بھی جاری کررہیں تھیں۔
آسیہ بیگم خوش ہوتے ہوئے”دیکھو فاطمہ بیٹی!آنے والے مہمانوں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں رہنی چاہیے۔ پروین بتارہی تھی کہ بہت امیر لوگ ہیں اورلڑکا باہر ملک سے آیاہے آنیوالے مہمانوں کو عائشہ پہلی نظر میں ہی بہت اچھی لگی۔ اگلے دن جب امی ابولڑکے کو دیکھ کرآئے تو وہ بھی بہت خوش تھے۔ لڑکامتاثر کن حدتک خوبصورت تھا اورکماتا بھی بہت تھا اورخوشی کی بات یہ تھی کہ وہ لوگ بغیر جہیز کے عائشہ کو اپنی بہو بنانے کے لیے تیارتھے۔ یوں خوشی خوشی منگنی کردی گئی۔
کچھ دنوں کے بعد عائشہ کی ہونے والی ننداپنی چچازاد بہن آمنہ کوعائشہ سے ملوانے کے لیے لائی عائشہ جب آمنہ سے ملی تو اسے حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی کیونکہ آمنہ عائشہ کی پرانی سہیلی نکلی۔ آمنہ نے خوش ہوتے ہوئے بتایا۔
عائشہ، سائم میرے انہی تایا کابیٹا ہے جن کے متعلق میں نے تمہیں بتایا تھاکہ انہوں نے ایک انگریز عورت سے شادی کی تھی۔ عائشہ نے حیرانگی سے پوچھا”توکیا یہ اسی انگریز عورت کابیٹاہے“آمنہ یقین دلاتے ہوئے۔”تواورکیا؟تبھی تواتنا خوبصورت ہے“ مہمانوں کے جانے کے بعد عائشہ نے عشاءکی نماز پڑھی اتنے میں فون بج اٹھا امی نے جلدی سے فون اٹھایا تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعدعائشہ سے بولیں ”بیٹی سائم کافون ہے اوروہ تم سے بات کرنا چاہتاہے۔ لوبات کرو“عائشہ حیرانگی سے ”مگرامی.... میرامطلب ہے کہ....امی بات کاٹتے ہوئے۔ ”کوئی بات نہیں بیٹی آج کل دورہی ایساہے۔ بات کرلو مگر احتیاط سے ایسا نہ ہو کہ اسے تمہاری کوئی بات بری لگے اوررشتہ ہاتھ سے جاتارہے“کان سے فون لگاتے ہی لڑکے کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی السلام علیکم کی جگہ اس نے گڈنائیٹ کہااورپھر نہ جانے کن ایکٹروں اورکیسی کیسی فلموں کے نام لیتا رہا یہ بھی پوچھا کہ تمہارے پسندیدہ ایکٹرز(اداکار)کون سے ہیں۔ پھربولا”تم میری کسی بات کاجواب کیوں نہیں دے رہی؟“کیاتم خوش نہیں ہو؟جواب میں عائشہ بولی:”میں آپ سے صرف ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں اگر آپ کوبرا نہ لگے“ہاں ضرور پوچھو۔ عائشہ سوالیہ اندازمیں ”آپ کے ابو مسلمان ہیں اورامی عیسائی آپ کا مذہب کیاہے؟جواب میں لڑکے نے کہا”دیکھوعائشہ میں مذہب وغیرہ کے چکروں سے دوررہ کر زندگی گزارنا پسند کرتاہوں۔ ویسے بھی اس ملک میں مسلمان کہلواکرمیں اپنا مستقبل خراب نہیں کرسکتا۔ ویسے بھی دنیا بہت ترقی کرچکی ہے۔ اب ایسی باتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا چلو دفع کرو اس بات کو۔ میرے پاس تمہارے لیے خوشخبری ہے۔ میں تمہارے لیے موبائل فون فو ن بھیج رہا ہو۔ عائشہ کو اس بے ہودہ گفتگو پر شدید غصہ آرہا تھا۔
اس نے ساری رات بے چینی میں گزاردی۔ عائشہ نے اپنی امی سے کہا کہ آج کے بعد وہ ہرگز فون پر بات نہیں کرے گی۔ مگر اسے اس وقت اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہاتھا جب اس نے ابو کوامی سے کہتے ہوئے سنا۔
”آخر مسئلہ کیاہے اس کے ساتھ؟کیا روز ایک آدھ گھنٹہ بات نہیں کرسکتی؟ اپنے بیمار بوڑھے باپ اورچھوٹی بہنوں کا نہیں توکم ازکم اپنی بڑھتی ہوئی عمر کاہی خیال کرے۔عائشہ نے اپنی خالہ کی بیٹی اسوہ کو بلایااورصورت حال سے آگاہ کیا۔
اسوہ بولی ”دیکھوعائشہ خالوجان ٹھیک کہتے ہیں لڑکااتنے اچھے خاندان کا ہے۔“ ”کیا اچھا خاندان“ عائشہ غصے سے بولی” آخر کسے سمجھتی ہوتم اچھا خاندان کسی سیاسی خاندان کوجودولت کے لالچ میں اپنے بڑوں کی قربانیوں کوفراموش کرچکے ہیں۔ اس ملک کو حاصل کرنے کا مقصد بھول گئے ہیں۔ یااس خاندان کو جوبے ضمیر ہوچکے ہیں اورخوبصورت گھروں میں رہتے ہوئے اپنی خواہشوں کے پودوں کو غریبوں کے خون سے سیراب کرتے ہیں اوردولت کے لالچ وگھمنڈ میں اندھے ہوچکے ہیں ان کے نزدیک عزت وبڑائی کامعیار صرف پیسہ ہے۔“بولوکیاتعریف کرتی ہو تم اچھے خاندان کی۔ اسوہ سمجھاتے ہوئے دیکھو عائشہ!دنیا بدل چکی ہے ترقی ہورہی ہے۔ تم بھی خود کو بدلو”جواب میں عائشہ بولی دنیا بدل گئی ہے یا معاشرے کاتوازن بگڑ گیاہے لباس اور حلیہ بدل گیا ہے مگر اندر وہی انسان تمام تربرائیوں میں ترقی کے ساتھ موجود ہے۔ مردوں کاغیرت سے اورعورتوں کاشروحیاءسے رشتہ ٹوٹ رہاہے۔
ہرکام کا مقصد بجائے خدا کی رضا کے صرف دولت کمانا ہے۔ بچوں کے دلوں میں والدین اوراساتذہ کے لیے کوئی عزت نہیں رہی۔ وہ اپنے ان بڑوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں جنہوں نے انہیں زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا۔ بچوں کے اس رویے کی وجہ سے بڑوں کے دل سے شفقت ختم ہوتی جارہی ہے۔ دنیا کی کشتی گناہوں کے سمندر میں ڈوب رہی ہے اورانسان تباہی کی طرف جارہاہے۔ شاید تم ٹھیک ہی کہتی ہو۔ ہر برائی میں ترقی ہورہی ہے۔ اسوہ بولی عائشہ تم ان سب کو بدل نہیں سکتی۔“عائشہ فیصلہ کن انداز اپناتے ہوئے”تویادرکھو میں ان جیسی بھی نہیں بن سکتی“اسوہ غصے سے یہ کہتی ہوئی چلی گئی”جوتمہارے دل میں آئے کرو۔“عائشہ نے اپنی سہیلی آمنہ سے سب کچھ کہہ ڈالااوراگلی صبح لڑکے کے گھر والے آکررشتے سے انکارکرگئے۔
ایک سال گزرنے کے بعدامی نے ایک ایسے لڑکے کے متعلق بتایا جوغریب تھا مگر شریف اورنیک سیرت تھا۔ امی بولی”بیٹی وہ پانچ وقت کانمازی ہے۔ خوددارہے اورسب سے بڑھ کر اللہ پہ توکل کرنے والا ہے۔ غریب ہے پھر بھی اللہ کاشکراداکرتاہے۔فرمانبردارہے مگر سائم جیسا امیراورخوبصورت نہیں ہے۔ ہم تمہاری قسمت نہیں بدل سکتے۔ جواب میں عائشہ بولی”امی جان خوبصورتی کاکیاہے وہ ہمیشہ نہیں رہتی ایک ہی بیماری میں ختم ہوسکتی ہے اوررہی بات دولت کی اس سے بڑھ کر بے وفاکوئی نہیں اوریہ آنے جانے والی چیز ہے اصل چیز تو نیک سیرت ہوناہے جوآخرت میں بھی کامیابی کا باعث ہے اورخوش گوار زندگی کاراز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔
شادی کے بعد جب عائشہ نے آکر امی اوراسو ہ کوبتایاکہ ان لوگوں نے جان بوجھ کرخود کوغریب ظاہر کیاتھا۔ تاکہ لالچی لوگوں سے بچ سکیں۔ عمر(عائشہ کاشوہر)اوراس کے گھر والے بہت پیارکرنے والے ہیں میں بہت خوش ہوں تواسوہ کویوں لگا جیسے عائشہ اپنی جیت کی کہانی سنارہی ہو۔