رونا رلانا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
رونا رلانا
پطرس بخاری
ایک امریکن ادبی نقاد ایک مقام پرلکھتاہے کہ”ہر مرد ایک ہنسوڑاجانورہے اورعورت ایک ایسا حیوان ہے جو اکثر رونی شکل بنائے رہتاہے۔“
مصنف کی خوش طبعی نے اس فقرے میں مبالغے اور تلخی کی آمیزش پیداکردی ہے اور چونکہ وہ خود مرد ہے اس لیے شاید عورتوں کو اس سے کُلی اتفاق بھی نہ ہولیکن بہر حال موضوع ایسا ہے جس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔
میرے ایک دوست کا مشاہدہ ہے کہ عورتوں کی باہمی گفتگو یا خط وکتابت میں موت یا بیماری کی خبروں کا عنصر زیادہ ہوتاہے نہ صرف یہ بلکہ ایسے واقعات کے بیان کرنے میں عورتیں غیرمعمولی تفصیل اور رقت انگیزی سے کام لیتی ہیں۔ گویاناگوار باتوں کو ناگوارترین پیرائے میں بیان کرناان کا نہایت پسندیدہ شغل ہے ان سے وہ کبھی سیر نہیں ہوتیں۔ ایک ہی موت کی خبر کے لیے اپنی شناساﺅں میں سے زیادہ سے زیادہ سامعین کی تعداد ڈھونڈ ڈھونڈ کرنکالتی ہیں۔ ایسی خبر جب بھی نئے سرے سے سناناشروع کرتی ہیں ایک نہ ایک تفصیل کا اضافہ کردیتی ہیں اور ہر بار نئے سرے سے آنسو بہاتی ہیں اورپھر یہ بھی ضروری نہیں کہ موت یا بیماری کسی قریبی عزیزکی ہو۔ کوئی پڑوسی ہو، ملازم ہو، ملازم کے ننھیال یا سہیلی کے سسرال کاواقعہ ہو،گلی میں روزمرہ آنے جانے والے کسی خوانچہ والے کابچہ بیمارہو، کوئی اڑتی اڑاتی خبرہوکوئی افواہ ہو، غرضیکہ اس ہمدردی کا حلقہ بہت وسیع ہے۔”سارے جہاں کادرد ہمارے جگر میں ہے۔“
نہ صرف یہ بلکہ رقت انگیز کہانیوں کے پڑھنے کاشوق عورتوں کو بہت زیادہ ہوتاہے اور اس بارے میں سبھی اقوام کاایک ہی ساحال ہے۔ غیرممالک میں بھی رُلانے والی کہانیاں ہمیشہ نچلے طبقہ کی عورتوں میں بہت مقبول ہوتی ہے۔ گھٹیا درجے کے غم نگار مصنفین کو اپنی کتابوں کی قیمت اکثر عورتوں کی جیب سے وصول ہوتی ہے۔ وہ بھی عورتوں کی فطرت کو سمجھتے ہیں۔ کہانی کیسی ہی ہو اگراس کا ہر صفحہ غم والم کی ایک تصویر ہے تو اس کی اشاعت یقینی ہے اور عورتوں کی آنکھوں سے آنسو نکلوانے کے لیے ایسے مصنفین طرح طرح کی ترکیبیں کرتے ہیں۔ کبھی ایک پھول سے بچے کوسات آٹھ سال کی عمر میں ہی مار دیتے ہیں اوربستر مرگ پر توتلی باتیں کرواتے ہیں۔ کبھی کسی یتیم کورات کے بارہ بجے سردی کے موسم میں کسی چوک میں بھوکااورننگاکھڑا کردیتے ہیں اوربھی رقت دلانی ہوتو اسے” سید“بنادیتے ہیں۔ یہ بھی کافی نہ ہوتواسے بھیک مانگتاہوادکھادیتے ہیں کہ” میری بوڑھی ماں مررہی ہے۔ دواکے لیے پیسے نہیں ، خداکے نام پرکچھ دیتے جاﺅ۔“کبھی کسی سگھڑ خوبصورت نیک طینت لڑکی کوچڑیل سی ساس کے حوالے کرا دیا،یاکسی بدقماش خاوند کے سپرد کر دیا اور کچھ بس نہ چلا توسوتیلی ماں کی گودمیں ڈال دیا اوروہاں دل کی بھڑاس نکال لی۔ پڑھنے والی ہیں کہ زاروقطاررورہی ہیں اور بار بار پڑھتی ہیں اور بار بار روتی ہیں۔
خودعورتوں کی تصنیفات اکثر ہچکیوں میں لپتی ہوئی اورآنسوﺅں میں لتھڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں جوکتابیں عورتوں نے لکھیں۔ اکثرمیں نزع، بیماری، دق سل، خودکشی،زہر، ظلم وتشددایک نہ ایک چیز کاسماں باندھ دینا گویافرض جانا۔ہاں کوئی کروشیایاکھانا پکانے کی کتاب ہوتو اوربات ہے۔آخر یہ مصیبت کیاہے؟یہ بات بات پر صف ماتم بچھ جانا کیا معنی؟ باربارسوچتاہوں کہ آخر امریکن نقادنے کیاغلط کیا؟ جل کے کہاسہی لیکن بری بات کیاکہی؟
کسی گھر میں موت واقع ہوجائے توزنانے اورمردانے کامقابلہ کیجئے۔ مردوں کاماتم تو صاف دکھائی دیتاہے۔ بیچارے گھر کے باہر بیٹھے ہیں۔ سر نیچا کئے چپ چاپ اانکھیں کچھ سرخ ہیں۔ کبھی کبھی آنسو بھی ٹپک پڑتے ہیں یاکسی نہ کسی انتظام میں مصروف ہیں چہرے پر تھکن اور اداسی سی ہے اور قدم ذرا آہستہ آہستہ اٹھتے ہیں اورزنانے کا ماتم تو دوردورسے موت کے گھر کاپتہ دیتاہے اورجب کوئی نئی فلاں بی بی ڈولی سے اترکراندرجاتی ہے توماتم کی بھنبھناہٹ میں از سر نولہر اٹھتی ہے جیسے یک لخت کوئی ہوائی جہاز پر سے گرپڑے۔مرد تودوسرے تیسرے دن کام میں مشغول ہوجاتے ہیں لیکن عورتوں کے ہاں مہینہ بھرکوایک کلب قائم ہوجاتی ہے۔ گلوریوں پر گلوریاں کھائی جاتی ہیں اورچیخوں پر چیخیں ماری جاتی ہیں۔
کہیں بیمارپرسی کوجاتی ہیں تو بیمار میں وہ دوبیماریاں نکال کے آتی ہیں جو ڈاکٹر کے وہم و گمان میں نہ تھیں۔ جتنی دیر سرہانے بیٹھی رہیں بیمارکی ہرکروٹ پرہاتھ ملتی ہیں۔ بے چارہ کہیں گلا صاف کرنے کوبھی کھانسے تویہ” سورہ یٰس“ تک پڑھ جاتی ہیں رنگ کی زردی، بدن کی کمزوری، سانس کی بے قاعدگی، ہونٹوں کی خشکی ہر بات کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ حتیٰ کہ بیمارکو بھی اپنی یہ خطرناک حالت دیکھ کر چار وناچارمنحنی آواز میں بولنا پڑتاہے۔ جوں جوں بیمار پرس عورتوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے موت قریب آتی جاتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ بعض عورتوں کو مریض کے بچ جانے پر صدمہ ہوتاہوگا کہ اتنی تو بیمار پرسی کی اورنتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔
عورتیں نہ صرف دوسروں کے غم میں مزے لے لے کر روتی ہیں بلکہ دوسروں کی اشک باری کے لیے خود بھی سامان مہیا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتیں۔ ایک پرانے زمانہ کے بزرگ اپنی اہلیہ کے متعلق فرمایا کرتے ہیں کہ ہماری گھر والی بھی اپنا جواب نہنرکھتیں کہ کوئی پڑوسن آکے کہہ دے کہ” اے بوا! ماشاءاللہ آج تو تمہارے چہرے پر رونق برس رہی ہے تو جھنجھلا کربول اٹھتی ہیں کہتی:” رے دیدوں میں خاک میں تو مری جاتی ہواورمیرابراچاہنے والوں کوابھی میں ہٹی کٹی نظر آتی ہوں اورکوئی آکے کہ دے کہ اے ہے بیٹی تجھے کیاہوگیاتوتودن بدن گھلتی جاتی ہے نہ جانے تجھے کیاغم کھاگیا؟ تو ایسی پڑوسن کو فوراً خالہ کالقب مل جاتاتھا۔ بڑی خاطر تواضع ہوتی تھی۔ گھر کاکام کاج چھوڑ کرشام تک ان کو اپنے دُکھڑے سنائے جاتے تھے اورچلتے وقت وہ پانچ روپے قرض بھی لے جایاکرتی تھیں جن کی ادائیگی کے لیے کبھی تقاضا نہ کیاجاتاتھا۔
اپنے اوپر رحم دلانے کامرض جس کسی میں پایاجائے۔ بہت ذلیل مرض ہے لیکن عورتوں میں یہ اس قدر عام ہے کہ خوش حال گھرانے کی بہو بیٹیاں بھی گفتگو میں چاشنی پیداکرنے کےلیے کوئی نہ کوئی دکھ وضع کرلیتی ہیں اورموقع بہ موقع سناکردادلیتی ہیں۔
اس تحریر سے میرامطلب ان بہنوں کامذاق اڑانا ہرگز نہیں جو جوفی الواقع غمگین یامصیبت زدہ ہیں۔ ان کی ہنسی اڑانا پرلے درجے کی شقاوت ہے جوخدا مجھے نصیب نہ کرے۔
کسی کاغم ایسی بات نہیں جو دوسرے کی خوش طبعی کا موضوع بنے صرف یہ بتانا مقصودہے کہ زندگی کابہت سادکھ ضبط وتحمل اورخندہ پیشانی سے دورہوسکتاہے کسی مصیبت زدہ شخص کے ساتھ سب سے بڑی ہمدردی یہ ہے کہ اس کاغم غلط کرایاجائے کسی بیمار کی سب سے بڑی تیمارداری یہ ہے کہ اس کی طبعیت کوشگفتہ کرنے کاسامان پیداکیاجائے۔ غم کوبرداشت کرنے کابہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو ضبط کرنے کی کوشش کی جائے۔ مہذب شخص کی یہی پہچان ہے اپنے دکھ کے قصے کو بار باردہر اکر دوسرے شخص کومتاثر کرنے کی کوشش کرنا گویااپنے آپ کوذلیل کرناہے خود بھی ہنسواوروں کوبھی ہنساﺅ۔دنیامیں غم کافی سے زیادہ ہے اس کوکم کرنے کی کوشش کرو۔ ہنسنااورخوش رہنا دماغ اور جسم کی صحت کی نشانی ہے۔ غم نگار مصنفین کومیں صرف اتنا کہنا چاہتاہوں کہ وہ شخص انمول ہے جواپنی تحریر سے ہزارہالوگوں کو خوش کردیتاہے اور وہ شخص خدا کے سامنے جواب دہ ہوگا جو اپنے زورقلم سے ہزارہا جوان، معصوم، خوش مزاج عورتوں اور مردوں کو رلاتاہے اوررلاتا بھی اس طرح ہے کہ نہ اس سے تزکیہ نفس ہوتاہے نہ کوئی دل میں اُمنگ پیداہوتی ہے اورہزارقابل افسوس ہے وہ شخص جو یہ سب کچھ کرکے بھی اپنی انشاپردازی پرناز کرتاہے۔