افسری

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
افسری
ظہیر احمد صدیقی
ایک روز مجلس جمی ہوئی تھی ایک افسر کے بیٹے شاہ جی کے پاس آئے اورکہنے لگے:”میں نے مقابلے کا امتحان پاس کرلیاہے ایک اچھا افسر بننے کے سلسلے میں آپ کے گرانقدر مشوروں سے فیض یاب ہونا چاہتاہوں۔” فرمایا:”ہاں ! یاں افسر بننا ہے تو پکے افسر بنو یعنی گردن اکڑی ہوئی ہو، آنکھوں میں قہر کے آثارہوں ، چہرے پررعب نمودار ہو اور دبدبہ ایساہوکہ جدھر سے گزرو تہلکہ مچ جائے۔ ایک نظر میں گویا کشتوں کے پشتے لگ جائیں۔
این را بتغافل کشی آن را بنگاھی
کی مکمل تصویر بن کر گزرو اورہاں ماتحتوں کو کبھی سلام مت کرنا، نہ ان کے سلام کا جواب نہ دیناکہ اس سے ان کی عادتیں بگڑ جاتی ہیں نکمے منہ لگ جاتے ہیں ، ماتحتوں کو کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہ دینا۔ ہاں اپنے افسروں کوجب بھی ملو تو جھک کر سلام کرو کہ افسر کی نظر میں سب سے پیاری چیز عاجزی اورانکساری یا خوشامد ہے اور پھر خوشامد یہی نہیں کہ افسر کی کرو بلکہ اس کے گھر والوں اوربچوں کی خوشامد اور تعریف زیادہ کرنی چاہیے کہ گھر والوں اور بچوں کی خوشامد اور تعریف کا اثر افسر پر جلد اور گہراہوتاہے۔ نہ جانے تمہیں معلوم ہے کہ نہیں ، افسران بالا باہر تو بڑے رعب ودبدبہ والے نظر آتے ہیں لیکن گھر کے اندر اکثر وبیشتر افسران ڈرے ہوئے اوردبکے ہوئے رہتے ہیں ایک بار اتفاق سے ایک بہت بڑے افسر کے گھرپر میرا جانا ہوا، میں جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ افسر صاحب بجلی والوں کی منتیں کر رہے ہیں کہ تم اس وقت چلے جاﺅ پھر کسی وقت بجلی ٹھیک کرنے آنا۔ بیگم صاحبہ سوئی ہوئی ہیں ، تمہاری ٹھک ٹھک سے اگر ان کی آنکھ کھل گئی توقیامت آجائے گی۔ دفتر میں ان کے جاہ وجلال کے مقابلے میں گھر میں ان کی یہ بیچارگی میرے لیے باعث حیرت بھی تھی اورباعث عبرت بھی۔
افسر کے بیٹے نے کہا کہ شاہ جی افسر کے گھر والوں کی تعریف اور خوشامد کرنا کیاذرا مشکل کام نہیں؟ فرمایا:” سرکار اور دربار میں کامیابی کےلیے خوشامد، جھوٹ اورمنافقت درکار ہیں اگرکسی کے پاس یہ چیزیں نہیں ہیں تو وہ گھر کا راستہ لے اور دوسروں کے لیے جوسرکار، دربار کے قابل ہیں ، راستہ چھوڑد ے۔ یادرکھو ! افسر غلط بات بھی کہے تو اسے درست ہی کہو، دن کو رات کہے تو تم بھی رات ہی کہو، ہر وقت اس کی ہاں میں ہاں ملاتے رہو، غلطی ہر چندافسر کی ہو لیکن یہ کہو کہ حضور فیض گنجورغلطی تو اس خانہ زاد غلام کی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بار سلطان محمود نے اپنے ملازمین کی وفاداری کوپرکھنے کی خاطر” ایاز“ اوردوسرے ملازمین ومصاحبین کوحکم دیا کہ دربارمیں رکھے ہوئے قیمتی ظروف توڑ دو۔ سب نے حکم کی تعمیل کی۔
سلطان نے دوسرے مصاحبین وملازمین سے پوچھا کہ تم نے اتنے نایاب ظروف کیوں توڑد یے، میں نے غصے میں حکم دیاتھا، تمہیں تو کچھ سوچنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا حضور ہی کا حکم دیا تھا، ہم نے تو حضور کے حکم کی تعمیل کی، ایاز سے بھی یہی پوچھا، اس نے دست بستہ عرض کی کہ” حضور غلام سے خطا ہوگئی معاف فرمادیجیے۔“سلطان محمود دوسرے ملازمین سے ناراض ہوا اور ایاز سے بہت خوش ہوااور اسے انعام واکرام سے نوازا۔
ایاز کا رویہ ماتحتوں کے لیے یہ سنہری اصول وضع کرتاہے کہ ہمیشہ خود کوخطا کا پتلا اور حاکم یا افسر کو معصوم عن الخطاءسمجھنا چاہیے۔ ایک بات یہ بھی یاد رکھو افسر کے سامنے اپنی کسی خوبی کا ذکر کبھی نہ کرنا کیونکہ افسر حضرات اس بات سے بڑے چڑتے ہیں اگر کبھی کبھار اتفاق سے یا کسی قرینے سے تمہاری کسی خوبی کا ذکر آبھی جائے تو اس سے کنی کاٹ جاﺅ، اس بات کا رخ پھیر دو۔ ہاں ! اگرکہوں تو یہ کہوں کہ خوبی نظرآتی ہے وہ تو صرف حضور کا حسن نظر ہے یا حسن ظن ہے ورنہ یہ بندہ حقیر تونالائق ترین انسان ہے۔ اس بندہ بے دام میں اگر کوئی خوبی ہے تو صرف وفاداری بشرط استواری ہے۔ میاں اگر ہماری نصیحت پر عمل نہیں کرو گے تو بھگتوگے۔ زمانے نے توابوریحان بیرون جیسے عالم کو بھی معاف نہیں کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک روز محمود غزنوی اپنے باغ”ہزار درخت“ میں محل کے ایک بالاخانے پر بیٹھے ہوئے تھے اس بالاخانے کے چاردروازے تھے جو چار راستوں پر کھلتے تھے۔
محمود غزنوی کے حضور میں وقت کے بہت بڑے عالم ابوریحان بیرونی بھی موجود تھے” بیرونی“ نے اتفاق سے علم نجوم میں اپنی مہارت کا ذکرکردیا۔ سلطان نے” بیرونی“ سے کہا کہ تم علم نجوم سے حساب لگا کر ایک کاغذ پر لکھو کہ میں اس بالاخانے کے چار دروازوں میں سے کس دروازے سے باہر جاﺅں گا اوراس کاغذ کومجھے دے دو، میں یہ کاغذ اپنی مسند کے نیچے رکھ لوں گا پھر میں باہر جاﺅں گا تاکہ میں دیکھوں کہ علم نجوم میں مہارت کے بارے میں تمہارے دعویٰ درست ہے یانہیں؟ چنانچہ” بیرونی“ نے حساب لگا کرکاغذ پرلکھ دیا، سلطان نے حکم دیاکہ بالاخانے کی مشرقی دیوار میں ایک نیا پانچواں دروازہ بنایا جائے حکم کی فوراً تعمیل کی گئی۔ سلطان پانچویں دروازے سے باہر گئے سلطان نے کاغذ منگوایا تو اس پرلکھا تھا کہ ان موجودہ چاردرازوں میں سے سلطان کسی ایک سے بھی باہر نہیں جائیں گے بلکہ مشرقی دیوار میں ایک نیا دروزاہ بنایا جائے گا جس سے سلطان باہر جائیں گے۔
سلطان محمود یہ پڑھ کر سخت ناراض ہوئے اس بات سے اس کی اَنا کوسخت ٹھیس پہنچی۔ حکم دیا بیرونی کوبالاخانے سے نیچے پھینک دیاجائے ایسا ہی کیا گیا اتفاق سے نیچے صحن میں جال بندھا ہواتھا۔ بیرونی جال پر گرے کوئی زخم تک نہیں آیا صحیح سلامت رہے۔ محمود نے حکم دیا کہ” بیرونی“کو ہمارے حضور میں پیش کیاجائے۔ بیرونی کوسلطان کے حضور میں پیش کیاگیا۔ پوچھا:” اے ابو ریحان !کیاتمہیں اس بات کا علم تھا کہ تمہیں آج بالاخانے سے زمین پر پھینک دیاجائے گا؟ کہا:” جی ہاں ! حضور مجھے علم تھا اپنے غلام سے اس روز روزنامچہ منگوایا اروکہا دیکھیے اس میں لکھا ہواہے کہ مجھے آج کسی بلند جگہ سے زمین پر پھینکا جائے گا لیکن مجھے کوئی چوٹ نہیں آئے گی، بالکل سلامت رہوں گا۔“
سلطان محمود کی اَنا اورزیادہ مجروح ہوئی، اس کاغصہ اس بات پر اوربھی بڑھ گیا، حکم دیا کہ” بیرونی کوقلعہ میں قید کردیا جائے۔“ اورفرمایا کہ” بیرونی سے کہہ دو! کہ ہمارے سامنے اپنی عالمانہ فضیلت کی بجائے ہماری حاکمانہ فوقیت کونظر میں رکھا کرے اورہمارے حضور میں اپنی مہارت علمی کے مطابق بات کرنے کے بجائے ہماری مرضی اورہمارے مزاج کے مطابق بات کیا کرے۔“
افسر بھی ایک چھوٹا سا سلطان یا بادشاہ ہی ہوتا ہے اس لیے اس کے سامنے بھی ان تجربات کی روشنی میں محتاج رہنا بہتر ہے اپنی کسی خوبی کاذکر نہیں کرنا چاہیے۔یہ بھی یاد رکھو !کہ افسرکوکم بولنا چاہیے۔ جو افسرزیادہ بولتاہے وہ کچھ اچھا نہیں کرتا۔ زیادہ بولنے سے رعب کم ہوجاتا ہے اوراپنی لیاقت کے پول کھلنے کا اندیشہ ہوتاہے، ایک آدھ بات مختصر اشارے سے کی اوربس ہم نے سعید کی گلستان میں پڑھا تھا۔
پادشاھی بہ کشتن اسیری اشارت کرد
یعنی ایک بادشاہ نے ایک قیدی کوقتل کرنے کا اشارہ کیا، ہم نے اپنے استاد محترم سے پوچھا،” میاں جی!کیا بادشاہ گونگا تھاکہ اس نے اشارے سے کہا“؟ میاں جی نے کہا: ”نہیں میاں ! یہ بادشاہوں کی شان ہوتی ہے کہ وہ اشاروں سے حکم دیتے ہیں۔ جلال وسطوت شاہی کا تقاضا یہ ہے کہ زبان سے کم سے کم بولا جائے اوراشاروں سے زیادہ ترحکم دیا جائے۔ایسے ہی تو نہیں کہتے کہ فلاں کے اشارے پر دنیاناچتی ہے۔
افسر بھی تو بادشاہ ہوتے ہیں ایک اچھے افسر کی بھی یہی شان ہے کہ صرف اس کے اشارے پر لوگوں کی زندگیاں بنیں اور بگڑیں بلکہ زندگی اورموت کے فیصلے ہوں۔ ایک بات یہ بھی یاد رکھو کہ ماتحتوں کی کبھی تعریف نہ کرنا کیونکہ تعریف سے یہ بدتمیز بگڑ جاتے ہیں۔ ہاں ایک بار اگر شاباش بھولے سے بھی دی تواگلی بار ضرور گھور لیاکرو بلکہ زیادہ گھورا ہی کرواورکبھی کبھی گرجا بھی کرو تاکہ تمہارا دبدبہ بھی،خوف بھی ماتحت کے دل میں گھر کرجائے۔ یادرکھو! ماتحت پر اگر تم حاوی نہ ہوئے تووہ تم پرحاوی ہوجائے گا۔جو افسر ماتحتوں کو مرعوب نہیں کرسکتا وہ خود ہی مرعوب ہوجاتاہے۔ لڑکے نے شاہ جی کی طرف تحسین آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہاکہ انکل ! واقعی آپ توبڑی گُرکی باتیں بتارہے ہیں۔ شاہ جی بولے ہاں ہم تمہیں ایسے ہی تو نہیں یہ گُربتا رہے ہم نے بڑے افسر دیکھے ہیں۔
اورہاں بیٹا! ماتحت جوکام کرکے لائے اس میں کیڑے ضرور نکالو ورنہ تمہاری افسرانہ برتری خطرے میں پڑ جائے گی،اگر کوئی ماتحت خواہ وہ کتنا ہی بڑا افسر ہواورکتنا ہی اچھا کام کرنے والاذمہ دار اعتماد اوردیانتدارہواورکتنے ہی اہم امور سرانجام دیتا ہو اسے اپنی اہمیت کا احساس نہ ہونے دو بلکہ اسے احساس کمتری میں مبتلا رکھو، اسے احساس دلاتے رہو کہ اس کا وجودحکومت، دفتر یا ادارے کےلیے بے حد غیر اہم اور غیر ضروری ہے اس کے ماتحت افسروں کو اہمیت دو۔ ان کی تعریف بھی کرو جس طرح چانکیہ نے کہا تھا کہ بادشاہ کو چاہیے کہ اپنے پڑوسی کے پڑوسی سے دوستی رکھے، تقریباً اسی اصول کے تحت اپنے ماتحت کے ماتحت افسروں کی ہمت افزائی کرنی چاہیے۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے دفتر میں ایک صاحب بہت کام کرنے والے، بڑے مستعد، نیک اورذمہ دار تھے اور اہم امور نہایت خوبی سے سرانجام دیتے تھے لیکن ہمارا بڑا افسر ہمیشہ ان صاحب سے بڑی بے اعتنائی سے ملتا تھا دفتری میٹنگوں میں اکثر ان کی بات کاٹ دی جاتی تھی اور ان کے ماتحتوں کی ہمت افزائی کی جاتی تھی ایک روز بڑے صاحب کچھ اچھے موڈ میں تھے دفتری امور کے رموز پر مجھ سے گفتگو فرمارہے تھے بلکہ گوہر بکھیر رہے تھے میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا کہ” جناب والا! فلاں صاحب کے ساتھ آپ کا سلوک کیوں اچھا نہیں؟ ویسے تو وہ بہت محنتی،دیانت دار اورذمہ دار افسر ہیں اورسارے اہم امور بطریق احسن انجام دیتے ہیں۔” فرمایا:” کہ اچھے ایڈمنسٹریشن کا یہ بھی ایک اصول ہے کہ ایسے اہم اوراچھے کارکنوں کو اپنی اہمیت اوراچھائی کا احساس نہ ہونے دیاجائے ورنہ یہ لوگ بگڑ جاتے ہیں ان کادماغ خراب ہوجاتاہے۔
اسی لیے کوئی ماتحت خواہ وہ ا فسر ہی کیوں نہ ہو کسی کام سے آئے چاہے وہ دفتر کاہی کام کیوں نہ ہو، اس کو ایک آدھ گھنٹہ بٹھائے رکھو، تغافل سے کام لو جیسے کوئی آیا ہی نہیں یعنی اس کاوجود کوئی وجود ہیں نہیں اس کی کوئی شخصیت ہی نہیں تم اپنے کام میں لگے رہو اور فائلوں کو الٹ پلٹ کرکے ادھر ادھر رکھتے رہو۔ خواہ مخواہ ٹیلی فون کرتے اورسنتے رہو، جب وہ بات کرے تو فوراً کاٹ دو دفتر کے کتنے ہی اہم مسئلہ پر بات کرے اسے اہمیت نہ دو تاکہ اس کے ذہن میں اپنے ماتحت اورتمہارے افسر ہونے کا ادراک اور احساس پوری طرح رچ بس چائے اور وہ اپنے وجود اورشخصیت کی کمتری بلکہ بے چارگی کو اچھی طرح دیکھ لے، پرکھ لے، چکھ لے بلکہ بھگت لے، یہ تلخ لمحے اور زہریلے تجربے جب وہ سہے گا تو اس کی عزت نفس اور حس خودداری بری طرح متاثر ہوگی بلکہ کُچلی جائے گی اور پھر اس کے اندر سے ایک فرمانبردار، برخورداراور وفادارقسم کا سچا پکا نکھرا نکھرایافدوی اُبھرے گا، جس کا دماغ گرجدارالفاظ کے دھماکوں سے دہلاہواورجس کادل تیر کی طرح چھبنے والی نگاہوں سے چھلنی ہوگا اورجس کی زبان صرف” جی حضوری“ کے ایسے الفاظ ہی بول سکے گی میں ایک بندہ ناچیز ہوں اورحضور سرکاروالا شان ہیں۔
میرے عزیز! جب وقت کی سختیوں کے پتھر سے دل کا آئینہ ٹوٹتا ہے تو اس شکستہ ساز سے دھڑکنوں کے نوحے ہی بلند نہیں ہوتے بلکہ گنوں کے سر بھی پھوٹتے ہیں اگر انسان کی روح میں خود داری کی آنچ ہو اور نظر میں حقائق بینی کی سانچ ہوتو یہ سر انجیل حقائق اورصحیفہ صداقت سے کم نہیں ہوتے.... یہ آخری ثقیل باتیں اس نوجوان کے پلے کچھ نہیں پڑیں وہ ہوں ہاں کرتا رہا اورپھر سلام دعا کے بعد چلا گیا۔
وہ لڑکا چلا گیا تو میر صاحب نے شاہ جی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کہنے لگے تم نے اس صاحبزادے کو الٹی پٹی پڑھائی بجائے اس کے کہ اسے بتاتے کہ ہمارے ملک کو افسروں سے زیادہ اچھے انسانوں کی ضرورت ہے اوراچھا افسر بھی وہی ہے جو ہیرا بھی ہواورجوہری بھی۔خود اچھا انسان ہو اپنے ماتحتوں کی قدر کرے ان کی ہمت افزائی کرے، ان سے شفقت سے ملے اپنے بڑوں کا احترام کرے، اپنے ساتھیوں سے محبت ومروت کاسلوک روا رکھے،
اسلام بھی ہمیں یہی سکھاتاہے کہ ہم اپنے قول وقدم کے سچے ہوں۔ خوشامد یا غرور کی بجائے متوازن رویہ اپنائیں ، نہ خوشامد کریں نہ خوشامد سُنیں نہ کسی کی حکم عدولی کریں نہ کسی پر حکم چلائیں ، نہ کسی کو مرعوب کریں نہ کسی سے مرعوب ہوں بلکہ اپنے فرائض کو نہایت دیانتداری سے عبادت سمجھ کر اداکریں۔ خدمت خلق اور اطاعت حق کاجذبہ دل میں موجزن ہو، نہ یہ کہ وہ افسر نہ ہوبلکہ گھڑا گھڑایا فرعون وقت، طاغوت عصر، نمرود عہد، رعونت، خشونت اور جبر وقہر کی مکمل تصویر ہو، شاہ جی! آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی باتوں نے اس نوجوان کے ذہن کو کس قدر زہر آلود کردیا ہوگا؟
خراب کرگئی شاہین بچے کو صحبتِ زاغ
شاہ جی سنتے رہے پھر یوں گویا ہوئے کہ” بھائی میر صاحب جو ہم نے کہا ہے وہ سوچ سمجھ کر کہا ہے جو ہمیں معلوم تھا وہ تمہیں معلوم نہیں ، یہ جس کا لڑکاہے وہ بھی افسرہے اسے ہم جانتے ہیں وہ رشوت خور اوربددماغ افسر ہے ماتحتوں کے لیے چنگیز وقت اور فرعون دوران ہے لیکن اپنے افسروں کے سامنے پر لے درجے کاخوشامدی انسان ہے اس برخوردار نیک اطوار سے گر ہم وہ باتیں کرتے جو آپ نے فرمائی ہیں وہ بس ہوامیں تحلیل ہوجاتیں کیونکہ ایک روز یہ صاحبزادے امتحانوں سے قبل ہمارے پاس آئے تھے میں نے پوچھا کیا کررہے ہو؟ بولے کہ مقابلے کے امتحان کی تیاری کررہاہوں دوران گفتگویہ راز کھلا کہ صاحبزادے یہ چاہتے ہیں کہ مقابلہ کے امتحان میں کامیاب ہوکر بڑا افسر بنیں دولت کمائیں اورلوگوں کو غلام بنائیں یعنی ان پر حکومت کریں ان حضرت کے اعلی خیالات سے میں واقف تھا سو میں نے بھی ویسے ہی اعلی خیالات کا اظہارکیا۔یہ وہ لوگ ہیں جن پر میری یا تمہاری نصیحتوں کاکوئی اثر نہیں ہوسکتا۔ایسی باتیں کہہ کر اپنی بات بھی کھونا بلکہ اپنی وقعت بھی گنوانا ہے آپ نے یہ مصرع مجھ پر کساکہ
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ
اوریوں مجھ پر لطیف بلکہ کثیف طنز کیااور مجھے زاغ یعنی” کوا“بنادیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم دونوں ہی کالے ہیں میرے چہرے کا رنگ کالاہے اور اس کادل کالا۔ اس ضمن میں دوشعر ارتجالا عرض ہیں۔
اے میر باکمال میری بات رکھو یاد
تم لاکھ لاﺅ کام میں دل کو دماغ کو
روح القدس کی روح سے بھی گرچہ لومدد
شاہین تم بنا نہیں سکتے ہوزاغ کو
میر صاحب بولے شاہ جی! آپ کی باتیں ایک طرف سے غلط بھی نہیں لیکن ہمیں انسانیت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ برے انسان کو اچھائی کی تلقین صرف اس گمان سے نہ کرنا کہ اس پرکوئی اثر نہیں ہوگایہ بدگمانی بھی ہے بد نینی بھی اور مایوسی کی علامت بھی۔ اسلام میں یہ چیزیں پسندیدہ نہیں ہیں ہمارافرض ہے کہ ہم بروں کو بھی اچھائی کی تلقین کریں ہر برے سے برے انسان کے دل میں بھی نیکی کے لیے ایک جگہ ضرور ہوتی ہے خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی سی کیوں نہ ہو۔ نہ جانے کس وقت آپ کی ایک نیک بات اس پر اثر کرجائے اور اس کے دل میں اتر جائے جو اس کی کایا پلٹ دے اوراگر آپ کی بات کا کچھ اثر بھی نہ ہوتوتب بھی آپ نے تو اپنا فرض اداکردیا برائی کی رغبت دلانا خواہ وہ کسی نقطہ نظر سے ہو کم از کم میری نظر میں ناپسند یدہ اورنامناسب ہے۔
شاہ جی بولے بس چپ رہو !چل ہم سے غلطی ہوگئی ہر وقت تمہیں نصیحت کرنے کی دھن ہی سواررہتی ہے، کبھی ہماری دلدہی اوردلداری کی بات بھی کرلیا کرو۔