جلے دل کے پھپھولے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
جلے دل کے پھپھولے
پطرس بخاری
ایک دن صبح کے وقت زور کی بارش ہورہی تھی میں بستر میں لیٹا ہوابیرونی آب وہوا کا اندازہ لگا رہا تھا۔ سردی اور کیچڑ کے متعلق توتوقعات یقین کے درجے تک پہنچ چکی تھیں ۔ کالج جانے نہ جانے کا سوال غور طلب تھا۔ ایک خیال آیاکہ دس بج چکے ہوں تو کلاس میں دیر سے پہنچااز حد بداخلاقی ہوگی ڈر کے مارے گھڑی کو نہ دیکھا کہ مبادا نصیب دشمناں سوئیاں ابھی اس منزل تک نہ پہنچی ہوں جومیرے لیے منزل مقصود ہے۔
پھر خیال آیا کہ ایسی تیزہوامیں انفلوئزا کابہت خطرہ ہے۔ بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ صحت کوتعلیم پرمقدم سمجھناچاہیے۔ پھر ماں باپ کا لاڈلا بیٹا خاکم بدہن اگر مجھے ایک چھینک بھی آگئی توگھر میں پھونچال آجائے گا۔ سر کے دوچاربال اور ایک کان لحاف سے باہر جھانکنے کی جسارت فرمارہے تھے۔ کچھ لحاف کی گوشمالی کی کچھ ان کی اور پھر اپنے ضمیر سمیت بستر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوکرسو گیا جس میں انسان سن تو سب کچھ لیتاہے بولنانہیں چاہتا۔
میں نے اس مراقبے میں دوچارمنٹ گنوائے ہوں گے کہ ایک صاحب نازل ہوئے دروازہ انہوں نے اس بے تکلفی سے کھولا جیسے خانہ واحد ہواورداخل اس شان سے ہوئے گویاراجہ اندرہیں کہ دربار میں تشریف لارہے ہیں ان کی ٹوپی کودیکھ کرشاخ بارودکامضمون سوجھتا تھا ایسا معلوم ہوتاتھا جیسے ان کی کنپٹی پر دست غیرکوئی پھوڑانکل آیاہو اورٹوپی کومحض اخفائی مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہوں ۔
میں نے اپنا خواب آلودہ چہرہ ان کی باصرہ خراشی کو مکمل طورپرلحاف سے باہر نکالا۔ انہوں نے طوعاًوکرہاً میری جانب سرکوایک دل فریب جنبش دے کرٹوپی کے پھندے میں ایک طوفان پیداکیا اورپہلوﺅں پر ہاتھ رکھ کربولے:” کیوں جناب مسٹر بخاری! اس کمرے میں رہتے ہیں ؟ “ میں نے کہا:” پیرومرشد درست۔“ کہنے لگے:” وہ اس وقت کہاں ہوں گے؟“ میں نے جواب میں عرض کیاکہ جناب! اس صحرانورد کاٹھکاناٹھیک توعالم الغیب ہی کومعلوم ہو سکتاہے لیکن جہاں تک اس خاکسارنے غور و غو ض کیاہے۔ بندہ اس نتیجے پرپہنچاہے کہ بخاری صاحب اس وقت اپنے بستر میں استراحت فرمارہے ہوں گے۔ واللہ اعلم بالصواب۔“
آپ سخن شناس واقع ہوئے تھے۔ مربیانہ انداز میں مسکرادیے۔ میں نے کرسی کی طرف اشارہ کیاجس کی پشت پر میری قمیض جسم مصلوب کی طرح رحم طلب پیرائے میں لٹک رہی تھی۔ آپ نے پہلے قمیض جسم مسلوب کی طرح سے بڑی استغناءسے فرش پر پھینک کربیٹھنے کے لیے اپنی ٹانگوں اورکمر میں خم پیداکیاپھراپنے کوٹ کوجوپتلون اورکرسی کے درمیان حائل ہونے کی دھمکیاں دے رہاتھا، اوردونوں ہاتھوں سے منع کیا۔
آخر کاربیٹھ گئے اورنگاہ کوچھت پر گاڑ کر بولے:” آپ راوی کے ایڈیٹر ہیں ؟ “آپ غضب کے قیافہ شناس ہیں ۔ جی ہاں ۔ مجھے اس جرم کا اعتراف ہے۔ تومیں آپ سے دوایک سوال پوچھناچاہتاہوں ۔ شوق سے پوچھئے میں جوتش و وتش تونہیں جانتاالبتہ بچپن میں پہیلیاں ۔ آپ کے راوی میں میں نے کبھی اردو مضامین نہیں دیکھئے میں آپ سے اس کی وجہ دریافت کرسکتاہوں ؟ کیوں نہیں ۔ بے شک! توصاحب وجہ یہ ہے کہ آپ کی قوت باصرہ نہایت راستباز ہے اگراردو وہاں چھپانہ ہو توآپ دیکھیں کیسے؟
آپ مجھے سمجھے نہیں ۔ مجھے آپ کے سوال کومختلف الفاظ میں دوہراناپڑے گا۔ دیکھئے نامیرامطلب یہ ہے کہ آپ اردو کے مضامین کیوں نہیں چھاپتے۔ سمجھے آپ؟ میں نے آہ بھرکرکہا: جناب! یہ ایک داستان ِدرد ہے اورحسب معمول بہت طویل نہیں آپ بے تکلف کہئے مجھے راوی سے بہت ہمدردی ہے۔ یہ آپ کی ذرہ پروری ہے۔ صاحب !کیاعرض کروں میں خوشی سے اردومضامین چھاپ دیاکروں ، اگر کوئی خداکابندہ لکھنے کی تکلیف فرمائے مجھے توخود....
میں سمجھ گیایعنی آپ کوکوئی ادیب نہیں ملتاتویوں کہئے نامیں مانتاہوں کہ آج کل کے زمانے میں سخن گوبہت کمیاب ہیں ۔ اب جناب اگرمیں آپ کوخود اپنی غزل راوی کے لیے دے دوں توپھر....پھرتوحضرت کیاکہنے !!میں سنہری حروف میں مرصع کاغذ پر چھپواکرغالب مرحوم کے مزارپرآویزاں کروا دوں ۔
خیرایک دوسراسوال ہے راوی کی مشکلات توقطعاًحل ہوجائیں بالکل مجھے یقین ہے اس کے بعد پرنسپل صاحب میری تصویر وینکلرلائبریری کی دیوارپر....
آپ کومعلوم ہے میں شاعر ہوں ، شاعری کوئی معمولی بات نہیں ، شاعری بکرجاں مغتن ہے، شاعری کوہ کندہ وکاہ برآوردن ہے، شاعری.... میں آپ سے کیاکہوں ، آپ خودشاعرنہیں آپ نہیں سمجھ سکتے، توجانے دیجئے....لیکن ان کی فصاحت وبلاغت کومیری کم فہمی بھی مانع نہ ہوئی یوں گھنٹے کے بعد غزل اوردرد سردے کرتخفیف تصدیع کرگئے۔
ان کے تشریف لے جانے کے بعد میں نے غزل کوشروع سے آخر تک پڑھا، پڑھا کیا؟ اس کا مطالعہ کیا، اس کاوظیفہ کیا، لیکن مجھے پھر بھی بحرکاپتہ نہ لگا۔ قافیہ نوازی میں آں جناب نے جوچلت فرمائی تھی میرے قدامت پسند دماغ فرسودہ سے بالاتر تھی۔ ترکیبوں میں جوآپ نے فارسیت بگھاری تھی، خلق میں خواہش پیداکرتی تھی۔ لغویت اور بے مطلبی کوجس خوبی سے انہوں نے نبھایاتھاانہی کاکام تھا۔
بحیثیت مجموعی کلام ایساتھا گویامرزا عبدالقادر بیدل ہذیان کی حالت میں کچھ فرماگئے ہیں ، میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کاغذکے پرزے کوپھاڑ ڈالااور چار دانگ وکٹوریہ ہوٹل میں ان پرزوں کوجس قدر وسعت میں ممکن ہوسکتاتھا۔ بکھیر دیاتاکہ اس دنیا میں ان کوپھریکجاہوجانامحال ہوجائے۔ حشر کے دن جب وہ کاغذ پھراصلی شکل اختیار کرے گا تو شاعر کے بائیں ہاتھ میں نظرآئے گا۔
مندرجہ بالاواقعہ مبالغہ سے بالکل مبراہے نہ صرف یہ بلکہ ایک ایسانسخہ ہے جوبالحاظ اپنی نوعیت کے ہردوسرے، تیسرے دن مجھ بانصیب کوپیش آتاہے۔ اردو کے قدردان اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ راوی کااردو حصہ بالکل ہی مفقودہوگیا۔ میں ان کوکیاجواب دوں یہ کہہ دیتاہوں کہ کالجوں میں اردو انشاپردازوں کی بہت قلت ہے۔ علی گڑھ میگزین میرے سامنے کردیتے ہیں اور اتنانہیں سوچتے کہ علی گڑھ کے مردم خیز خطے اورگورنمٹ کالج کے سنگلاخ میں کس قدر فرق ہے؟؟؟
ان کویہ کون کہے کہ وہاں کے اولڈ بوائز اور موجودہ طلباءکی فہرست میں آپ کے اکثر مشاہیر ادب کے نام نظر آئیں گے اور گورنمٹ کالج کایہ حال ہے کہ” آزاد“مرحوم جیسی شاندار ہستی کوایک دراز عرصے تک اس جگہ سے وابستگی تھی اورکالج ہال میں ان کی تصویرتک موجود نہیں
سخن ورشناسی کایہ عالم ہے توسخن شناسی کیاہوگی اور سخن گوئی توکسی شمارمیں ہے۔ اٹھتی جوانی کو غزل کہنے کابہت شوق ہے۔سو ہے لیکن ہمارے نوجوان مصورجب ایسی تصویریں کھینچتے ہیں توعجب قلم طرازیاں فرماتے ہیں ناک اقبال کی، کان اکبر کا، آنکھیں غالب کی، قافیے انگریزی بحر۔ اردو ہوتا ہے تو سرقہ نماسرقہ ہوتاہے اور بالکل ہے بے حجاب ہم سے اتنی ناز برداری نہیں ہوسکتی کہ اسے راوی میں چھاپ دیں ۔
نثر سے ان کونفرت ہے۔ انسان میں منجملہ اورکمزوریوں کے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کوطبعاًشاعر سمجھتاہے اس کمزوری کاخمیازہ ہم کواس شکل میں اٹھاناپڑتاہے کہ ایک تو نظم نما نظموں کاانبار ہماری ردی کوٹوکری میں جمع ہوجاتاہے۔ دوسرے نثر میں ہم کوخط تک کوئی نہیں لکھتا کہ اسی کو راوی میں چھاپ دیں ۔ خواہ ہمیں لفافے ہی چھاپناپڑے۔
لیکن جب دوستوں کے طعن تشنیع نے ہم کوبالکل ہی عاجز کردیاتوہم سید امتیاز علی تاج کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ بھائی !جو توجہ کہکشہاں مرحوم کودیاکرتے تھے۔ وہ اپنی راوی زندہ درگورکی طرف منتقل کردوکہ تم اور میں دونوں سعادت دارین حاصل کریں ۔
انہوں نے ہماری درخواست کوقبول کرلیا۔ ان کاقابل قدر مضمون خرافات اس بات کاشاہد ہے کہ ارادہ ہے کہ کسی دن اسی طرح ہاتھ جوڑ کرمنشی تصدق حسین صاحب خالد کی خدمت میں حاضر ہوں گااورعرض کروں گاکہ اے ہے کہ جس کے دم سے بزم سخن پر رونق ہے ان معنوں میں کہ مردہ نہیں زندہ ہے اوراے وہ کہ جوگورنمٹ کالج کے عنفوان پیشہ و دیرینہ کاوارث جائز وبرحق ہے۔ خدا کے لیے راوی کودیکھ کہ تیری طرف امید کی نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ نظم کے میدان کے لیے راوی کودیکھ کرتیری طرف امید کی نگاہوں سے دیکھ رہی ہے نظم کے میدان کوچھوڑکرشاہسواروں کے ہجوم میں تجھ مجھ جیسے پیادہ پاروندے جائیں گے۔
نثر کے ملک میں آ، جہاں قحط الرجال ہے اس لیے موقع ہے لہذا یقین ہے۔پروفیسر مرزا محمد سعید صاحب اور مولاناقاضی فضل حق صاحب سے شکایت کرنے کی جرات توہمیں بھلاکیسے ہوسکتی ہے ہر جمعہ کے بعدخشوع وخضوع سے دعاکردیتے ہیں کہ خدایا ان بزرگوں کو راوی سے جواعتنائی ہے اس کی وجہ ہمیں کشف کے ذریعے بتادے۔ بیشتر اس کے کہ راوی بالکل مایوس ہوکران کے متعلق یہ سوچاکرے کہ:(ہرچند کہیں کہ ہیں ....نہیں )