ہماری مائیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ہماری مائیں
ام محمد رانا
ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا
نام ونسب: اصلی نام زینب تھا لیکن چونکہ وہ جنگ خیبر میں خاص آنحضرتe کے حصہ میں آئی تھیں اور عرب میں غنیمت کے ایسے مال کوجو امام یابادشاہ کے لیے خاص ہو صفیہ کہاجاتاتھا اس لیے وہ بھی صفیہ کے نام سے مشہور ہوگئیں یہ زرقانی کی روایت ہے۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا وہ خوش نصیب ام المومنین ہیں جن کو باپ اور ماں دونوں کی طرف سے اعلی نسب کی سعادت حاصل ہے۔باپ کانام حیی بن اخطب تھاجو قبیلہ بنونضیر کاسردارتھا۔اور حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل میں شمارہوتاتھا۔ماں جس کا نام ضرد تھاسموال رئیس قریضہ کی بیٹی تھی۔اور یہ دونوں خاندان (قریظہ اور نضیر) بنی اسرائیل کے ان تمام قبائل سے ممتاز سمجھے جاتے تھے جنہوں نے زمانہ درازسے عرب کے شمالی حصوں میں سکونت اختیارکرلی تھی۔
نکاح اول:
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی پہلی شادی سلام بن مشکم القرظی سے ہوئی تھی۔سلام نے طلاق دی توکنانہ بن ابی تحقیق کے نکاح میں آئیں جوابورافع تاجرحجازاوررئیس خیبر کا بھتیجا تھا۔ کنانہ جنگ خیبر میں مقتول ہوا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے باپ اور بھائی بھی اس جنگ میں مارے گئے اورحضرت صفیہ رضی اللہ عنہاخود بھی گرفتارہوئیں ۔
حضورeکے نکاح میں :
جنگ خیبر کے تمام قیدی جمع کیے گئے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت e سے ایک لونڈی کی درخواست کی آپ eنے انتخاب کرنے کی اجازت دی انہوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاکو منتخب کیالیکن ایک صحابی نے آکرعرض کی کہ بنو نضیر وقریضہ کی سرداری کو دحیہ کو دے دیاتووہ تو صرف آپ کے لیے ہی مناسب ہے۔ مقصود یہ تھا کہ رئیسہ عورت کے ساتھ عام عورتوں والا سلوک مناسب نہیں اس کے لیے اسی کے مطابق شان وشوکت کا سلوک ہوناچاہیے۔ چنانچہ دحیہ رضی اللہ عنہ کو آپ e نے دوسری لونڈی دی اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کرکے خود نکاح کرلیا۔
فضل وکمال:
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ سے چند حدیثیں مروی ہیں جن کو حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ، اسحاق بن عبداللہ بن حارث،مسلم بن صفوان،کنانہ اور یزید بن معتب وغیرہ نے روایت کیاہے۔ دیگر ازواج کی طرح حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی اپنے زمانہ میں علم کا مرکز تھیں ۔ چنانچہ حضرت صہیرہ بنت جعفرحج کرکے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاکے پاس مدینہ آئیں تو کوفہ کی بہت سی عورتیں مسائل دریافت کرنے کی غرض سے بیٹھی ہوئی تھیں ۔ صہیرہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی مقصد تھا۔اس لیے انھوں نے کوفہ کی عورتوں کی زبانی کئی سوال کروائے۔ ایک فتوی نبیذ کے متعلق تھا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے سناتوبولیں اہل عراق اکثر اس مسئلہ کا پوچھتے ہیں ۔
اخلاق:
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہامیں بہت سے محاسن اخلاق جمع تھے وہ نہایت عاقلہ، فاضلہ اور حلیم الطبع تھیں ۔ حلم وتحمل ان کے باب فضائل کانہایت جلی عنوان ہے،غزوہ خیبر میں جب وہ اپنی بہن کے ساتھ گرفتار ہوکر آئیں تھیں تو ان کی بہن یہودیوں کی لاشوں کو دیکھ دیکھ کرچیخ اٹھتی تھیں ، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے محبوب شوہرکی لاش سے قریب ہوکر گذریں لیکن اب بھی اسی طرح پیکر متانت تھیں اور ان کی جبین تحمل پرکسی قسم کی شکن نہ آئی۔آنحضرت e کو بھی ان کے ساتھ نہایت محبت تھی اور ہرموقعہ ان کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی فرماتے رہتے تھے۔حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاسیر چشم اور فیاض الطبع تھیں چنانچہ جب وہ ام المومنین بن کر مدینہ میں آئیں تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ازواج مطہرات کواپنی سونے کی بجلیاں تقسیم کیں ۔ کھانا عمدہ پکاتی تھیں اور آپ e کے پاس تحفةً بھیجاکرتی تھیں ۔
وفات:
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہانے ماہ رمضان سنہ 50 ھ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔ اس وقت ان کی عمر60سال تھی اور ترکہ میں ایک لاکھ درہم ودیگر کچھ سامان چھوڑا اوراور ایک ثلث کے لیے اپنے بھانجے کے لیے وصیت کرگئیں ۔