حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا
ام محمد رانا
نام و نسب:
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔ بعثت سے دس برس پہلے پیدا ہوئیں۔
نکاح:
ابوالعاص بن ربیع جو ان کے خالہ زاد تھے ان سے ان کا نکاح ہوا، یاد رہے کہ اس وقت تک مشرکین سے نکاح حرام نہیں ہوا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو اہل و عیال مکہ میں رہ گئے تھے۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا اسوقت اپنے سسرال میں تھیں غزوہ بدر میں ابوالعاص کفار کی طرف سے شریک ہوئے اور گرفتار ہوئے۔ رہائی اس شرط پر ملی کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو مدینہ کی طرف روانہ کریں گے۔
ہجرتِ مدینہ:
ابوالعاص نے مکہ جا کر حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنے چھوٹے بھائی کنانہ کے ساتھ مدینہ طیبہ کی طرف روانہ کیا۔ کفار سے لڑائی کا خوف تھا اس لئے کنانہ نے ہتھیار بھی ساتھ لے لیے، مقامِ ذی طویٰ پر پہنچے تو قریش کے چند آدمیوں نے تعاقب کیا، ہبار بن اسود نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو نیزہ مار کر نیچے گرا دیا۔ کنانہ نے یہ دیکھ کر ترکش سے تیر نکالے اور کہا اب کوئی اگر قریب آیا تو ان تیروں کا نشانے بنے گا۔ لوگ پیچھے ہٹ گئے ابوسفیان سردارانِ قریش کے ساتھ آیا اور کہا کہ تیر روک لو ہم لوگ کچھ گفتگو کر لیں۔
انہوں نے تیر ترکش میں ڈال لیے۔ ابو سفیان نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھوں سے جو تکلیفیں ہم کو پہنچی ہیں اسکے بعد اگر تم ان کی لڑکی کو اعلانیہ مکہ سے نکال کر مدینہ لے گئے تو لوگ ہمیں کمزور کہیں گے۔ہمیں زینب (رضی اللہ عنہا) کو روکنے کی ضرورت نہیں جب ہنگامہ کم ہو جائے تو اس وقت ان کو خفیہ طور پر لے جانا۔ چند روز کے بعد کنانہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو رات کے وقت لے کر روانہ ہوئے اور مقام بطن پر حضرت زید رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا جو ان کو لینے کیلئے پہلے سے وہاں موجود تھے۔حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا جب مدینہ منورہ پہنچیں تو اس وقت تک ان کے شوہر حالتِ شرک میں تھے۔
جمادی الاول سنہ 6 ہجری میں ابوالعاص قریش کے ایک قافلہ کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی کو 170 سواروں کے ساتھ قافلے کے تعاقب میں بھیجا مقام عصیص پر کچھ لوگ گرفتار ہوئے اور مال و اسباب بھی ہاتھ آیا ابوالعاص بھی قیدیوں میں شامل تھے۔ مدینہ پہنچے تو حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے ان کے فدیہ کے لیے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہار پیش کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہار دیکھا تو آبدیدہ ہوگئے اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے اجازت لے کر ان کو آزاد کردیا اور ہار بھی واپس کردیا۔حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی سفارش سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کا مال بھی واپس کر دیا۔
ابوالعاص نے مکہ جا کر لوگوں کی امانتیں انہیں واپس کیں اور اسلام قبول کرنے کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت زینب کا دوبارہ نکاح ان کے ساتھ کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ شریفانہ برتاؤ کی ہمیشہ تعریف کی۔
وفات:
نکاح جدید کے بعد صرف دو سال کے عرصے تک حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا زندہ رہیں اور سنہ 8 ہجری میں انہوں نے وفات پائی۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت امِ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت امِ عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انہیں غسل دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبر میں اتر کر اپنے نورِ دیدہ کو سپردِ خاک کیا اس وقت چہرہ مبارک پر غم کے آثار نمایاں تھے۔
اولاد:
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی اولاد میں ایک بیٹی حضرت امامہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ایک بیٹے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جو فتح مکہ میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھے، جنہوں نے یرموک کے معرکہ میں شہادت پائی۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اپنے شوہر ابوالعاص سے بہت محبت کرتی تھیں۔
اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوں اورہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
نوٹ:
بعض گمراہ لوگ اس طرح کی باتیں پھیلاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک بیٹی تھیں، یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں۔ مزید تفصیلات کے لیے مولانا محمد نافع صاحب دامت برکاتہم کی کتاب بنات اربعہ یامولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ کی کتاب سیرۃ المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ فرمائیں۔