بچے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بچے
پطرس بخاری
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بچوں کی کئی قسمیں ہیں مثلا بلی کے بچے، فاختے کے بچے وغیرہ مگر میری مراد صرف انسان کے بچوں سے ہے جن کی بظاہر توکئی قسمیں ہیں کوئی پیارا بچہ ہے اور کوئی ننھابچہ ہے کوئی پھول سابچہ ہے اورکوئی چاند سابچہ ہے لیکن یہ سب اس وقت تک کی باتیں ہیں جب تک برخوردارپنگھوڑے میں سویا پڑا ہے جہاں بیدارہونے پر بچے کے پانچوں حواس کام کرنے لگے بچے نے ان سب خطابات سے بے نیاز ہو کرایک الارم کلاک کی شکل اختیار کرلی ہے یہ جو میں نے اوپرلکھاہے کہ بیدارہونے پر بچے کے پانچوں حواس کام کرنے لگ جاتے ہیں میں نے حکماء کے تجربات کی بناء پر لکھاہے ورنہ حاشاوکلا میں اس بات کاقائل نہیں۔
کہتے ہیں بچہ سنتابھی ہے اور دیکھتابھی ہے لیکن مجھے آج تک سوائے اس کی قوت ناطقہ کے اور کسی قوت کاثبوت نہیں ملا۔کئی دفعہ ایسا اتفاق ہواہے کہ روتا ہوابچہ میرے حوالے کر دیا گیا ہے کہ ذرا اسے چپ کروانا، میں نے جناب اس بچے کے سامنے گانے گائے ہیں، شعر پڑھے ہیں، ناچ ناچے ہیں، تالیاں بجائی ہیں، گھٹنوں کے بل چل کرگھوڑے کی نقلیں اتاری ہیں، بھیڑ بکری کی سی آوازیں نکالی ہیں، سر کے بل کھڑے ہوکرہوا میں بائیسکل چلانے کے نمونے پیش کئے ہیں لیکن کیا مجال جو اس بچے کی یکسوئی میں ذرا بھی فرق آیا ہو یا جس سر پر اس نے شروع کیاتھا اس سے ذرا بھی نیچے اتراہو اور خدا جانے ایسا بچہ دیکھتاہے اور سنتا ہے توکسی وقت؟
بچے کی زندگی کا شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گزرتا ہوجب اس کے لیے کسی نہ کسی قسم کا شور ضروری نہ ہو۔اکثراوقات تووہ خود ہی سامعہ نوازی کرتے رہتے ہیں ورنہ یہ فرض ان کے لواحقین پر عائد ہوتا ہے۔ ان کوسلانا ہو تولوری دیجئے،ہنسانا ہو تو مہمل سے فقرے بے معنی سے بے معنی منہ بنا کر بلند سے بلند آواز میں ان کے سامنے دہرائے اور کچھ نہ ہو تو شغل بے کاری کے طور پر ان کے ہاتھ میں ایک جھنجھنا دے دیجئے یہ جھنجھنابھی کم بخت کسی بے کارکی ایسی ایجاد ہے کہ کیا عرض کرو ں یعنی ذرا ساآپ ہلادیجئے لڑھکا چلا جاتاہے اور جب تک دم میں دم ہے اس میں سے ایک ایسی بے سری کرخت آواز متواتر نکلتی رہتی ہے کہ دنیامیں شاید اس کی مثال محال ہے اور جو آپ نے مامتا یا باپتا کے جوش میں آکربرخوردار کو ایک عدد وہ بڑاکیک، گڑیامنگوا دی جس میں ایک بہت ہی تیز آواز کی سیٹی لگی ہوتی ہے تو بس پھر خداحافظ۔
اس سے بڑھ کرمیری صحت کے لیے مضر چیز دنیامیں اورکوئی نہیں سوائے شاید اس ربڑ کے تھیلے کے جس کے منہ پر ایک سیٹی دار نالی لگی ہوتی ہے اور جس میں منہ سے ہوابھری جاتی ہے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جووالدین کہلاتے ہیں بد قسمت ہیں تووہ بے چارے جوقدرت کی طرف سے اس ڈیوٹی پر مقررہوئے ہیں کہ جب کسی عزیز یا دوست کے بچے کو دیکھیں تو ایسے موقعوں پر ان کے ذاتی جذبات کچھ ہی کیوں نہ ہوں وہ یہ ضرورکہیں کہ کیاپیارابچہ ہے!!!
میرے ساتھ کے گھر ایک مرزا صاحب رہتے ہیں خداکے فضل سے چھ بچوں کے والد ہیں بڑے بچے کی عمر نوسال ہے بہت شریف آدمی ہیں ان کے بچے بھی بے چارے بہت ہی بے زبان ہیں جب ان میں سے ایک روتاہے توباقی کے سب چپکے بیٹھے سنتے رہتے ہیں جب وہ روتے روتے تھک جاتاہے توان کا دوسرا برخور دار شروع ہو جاتا ہے وہ ہار جاتاہے تو تیسرے کی باری آتی ہے رات کی ڈیوٹی والے بچے الگ ہیں ان کاسرذرا باریک آپ انگلیاں چٹخوا کر سر کی کھال میں تیل جھسواکرکانوں میں روئی دے کر،لحاف میں لپیٹ کرسوئیے ایک لمحے کے اندر آپ کو جگا کے اٹھاکے بٹھا نہ دیں تومیراذمہ۔
انہی مرزا صاحب کے گھر پہ جب میں جاتاہوں توایک ایک بچے کوبلا کرپیارکرتا ہوں اب آپ ہی بتائیے کہ میں کیاکروں کئی دفعہ دل میں آیامرزا صاحب سے کہوں حضرت آپ کی ان نغمہ سرائیوں نے میری زندگی حرام کردی نہ دن کو کام کر سکتاہوں نہ رات کو سو سکتاہوں لیکن یہ میں کہنے ہی کو ہوتاہوں کہ ان کا ایک بچہ کمرے میں آجاتاہے اور مرزا صاحب ایک دالدارانہ تبسم سے کہتے ہیں:’ ’اختر بیٹا! ان کو سلام کرو، سلام کرو بیٹا،اس کا نام اختر ہے صاحب، بڑا اچھا بیٹا ہے۔ کبھی ضد نہیں کرتا،کبھی نہیں روتا، کبھی ماں کو تنگ نہیں کرتا۔میں اچھی طرح جانتاہوں کہ یہ وہی لائق ہے جورات کے دوبجے گلا پھاڑ پھاڑ کے روتاہے مرزا صاحب قبلہ توشاید اپنے خراٹوں کے زور و شورمیں کچھ نہیں سنتے۔ بدبختی ہماری ہوتی ہے لیکن کہتایہی ہوں کہ یہاں آئو بیٹااور گھٹنے پر بٹھا کر اس کامنہ بھی چومتاہوں۔ خداجانے آج کل کے بچے کس قسم کے بچے ہیں ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم بقر عید کو تھوڑا سا رو لیاکرتے تھے اورکبھی کبھارکوئی مہمان آنکلاتونمونے کے طورپرتھوڑی سی ضد کرلی۔ کیونکہ ایسے موقع پر ضد کار آمد ہوا کرتی تھی لیکن یہ کہ چوبیس گھنٹے متواتر روتے رہیں ایسی مشق ہم نے کبھی بہم نہ پہنچائی تھی۔