مظلوم مرد کی داستان

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مظلوم مرد کی داستان
فوزیہ چوہدری
سناتھاکہ مرد کی بادشاہت شادی سے پہلے ہی ہوتی ہے شادی کے بعد مرد ملازم بن جاتا ہے آپ نے مظلوم عورتوں کی کہانیاں ضرورسنی ہوں گی مگر مظلوم مرد کی داستان سے کاپہلی بار اتفاق ہوا ہو گا۔ آئیے مظلوم کی کہانی اس کی زبانی سنتے ہیں ۔
’’ ہائے !میرے ہاتھ تھک گئے اب بس بھی کرونا خداکا واسطہ اب کل دبائوں گا، یہ وہ الفاظ ہیں جو میں اپنی بیوی کے سر کی مالش کرتے کرتے تھک ہارکرکہتاہوں ۔‘‘
مگر وہ نیک بخت جوتوں سے پیٹنا شروع کردیتی ہے چار وناچار پھر مالش شروع کردیتا ہوں جب بھی میں صبح اٹھتا ہوں تو میر ے ہاتھ سن ہوتے ہیں بازئوں میں تھکان ہوتی ہے لاکھ پیٹتا ہوں کہ کوئی میرے ہاتھ کی مالش کردے مگرالٹا جوتے برس پڑتے ہیں دل گردے سے کام لیتے ہوئے بچوں کو سکول کے لیے تیارکرتاہوں ابھی انہیں تیار ہی کررہاہوتاہوں کہ کمرے سے بیگم صاحبہ کی آواز آتی ہے ’’ارے نامراد!جلدی کر ناشتہ تیرا ا باتیارکرے گا۔‘‘ پھر جوتے پڑنے کے ڈر سے بھاگم بھاگ کچن کی طرف جاتا ہوں جو میرے روزکا معمول ہے اکثر آفس جاتے وقت دیر ہو جاتی ہے وہاں آفیسر کی بکواس سنتاہوں ، دن کو بارہ بجے گھر فون کرکے لنچ مانگتا ہوں تو آواز آتی ہے رات کے ٹینڈے ہیں ، بھیج دوں گی اور دماغ میں بٹھا لو کہ واپسی پر مرغی بھی لانی ہے۔ ‘‘پھر سر پکڑ کر بیٹھ جاتاہوں کیونکہ ایک دن کی بات نہیں روز انہ میری بیوی رات کا سالن بھیج دیتی ہے اور اگر مجھ سے مرغی لانے میں بھول ہوجائے تو ڈنڈوں اور جوتوں کی برسات میں گھر سے باہر نکالا جاتا ہوں جب گھر سے لنچ آتا ہے تو بھوکوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑتا ہوں ۔
آفس سے واپسی پر گاڑی میں بھی نہیں جاسکتا کیونکہ بازار سے مرغی خریدنی ہوتی ہے مرغی لے کر گھر میں حاضر ہوتاہوں کپڑے بدلنے سے پہلے ہی حکم ہوتاہے کہ مرغی دھو کر چٹ پٹی تیارکر دینا اور ہاں نمک زیادہ نہ ڈالنا پھر مظلوم ہاتھوں سے مرغی تیارکرتاہوں دماغ اس قدر مائوف ہوتاہے کہ اکثر روٹی پکانا بھول جاتا ہوں ۔ دستر خوان لگا کر جب سالن رکھتا ہوں تو بچوں کے سامنے جوتوں کی بارش ہو جاتی ہے خیرجوتے تو مجھ پر اثر نہیں کرتے مگر جو بکواس سنتا ہوں وہ دنیا کا گھٹیا ترین شخص بھی نہیں سنتا ہو گا بچوں کے سامنے میری ذرا بھی قدرنہیں ہے انہیں کسی کام سے روک یا کسی کام کا کہہ بھی نہیں سکتا، بچوں پر کیاگلہ؟
ایک بار اپنی بیٹی سے پانی مانگا تو بیگم صاحبہ برس پڑیں :’’ تیرے پائوں ٹوٹے ہوئے ہیں ، لنگڑا ہے توں ، خود جاکر لا !‘‘وہ دن اور آج کا دن اب تک میں نے کسی سے کچھ نہیں مانگا جوکچھ کہا جائے اس کی تعمیل کرلیتاہوں ۔
کبھی کبھی تو اتنا مجبور ہوتا ہوں کہ آنکھوں سے آنسو آ جاتے ہیں بچوں کے سامنے مارے شرم کے وہ بھی جذب کر لیتاہوں جانے کیاخطا ہوگئی ہے جس کا انتقام مجھ سے دنیا میں ہی لیا جا رہا ہے میرے لیے زندگی جہنم سے کم نہیں ہے اب میں ذ ہنی مریض بن چکاہوں یقینا میں دنیا کا مظلوم ترین انسان ہوں جس کی کوئی مدد بھی نہیں کر سکتا۔ بیگم صاحبہ کے جوتے کھانے میں اب کوئی قباحت نہیں لگتی مگر جب اپنے سفید بال دیکھتاہوں تو مارے شرم کے عجیب سی کیفیت ہو جاتی ہے، ایسی زندگی سے تومر جانا بہتر ہے کبھی کبھی تو دوست بھی جورو کا غلام کہہ کر چھیٹرتے ہیں مگر کیا کروں ایک آفت میرے سرپڑگئی ہے اب پچھتانے کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہوں ؟؟ جو غلطی مجھ سے ہوئی ہے اس کی تلافی کسی صورت بھی ممکن نہیں کیونکہ اب میں سات بچوں کاباپ ہوں ۔
میری زندگی سے کئی سبق مجھے ملے ہیں مگر سب سے اہم یہ کہ سلجھی ہوئی لڑکی سے شادی کریں ورنہ میری بیوی کی طرح عورتیں وبال سر کے ساتھ ساتھ وبال جان بھی بن جاتی ہیں سچ بتائوں تو گھر کی دہلیز پر قدم رکھتاہوں تو ایسے لگتا ہے کہ دوزخ میں خود کودھکیل رہا ہوں واقعی بچوں کے نزدیک بھی میں قابل رحم ہوں میرے جینے کا کوئی مقصد ہے نہ کوئی فائدہ مگر کبھی کبھار سوچتاہوں کہ شاید میرے گناہوں کی سزا دنیا میں ہی مجھے مل جائے اورآخرت سکون کا باعث ہو۔