ظہیر الدین محمدبابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بارہویں قسط
ظہیر الدین محمدبابر
امان اللہ کاظم،لیہ
جنونی سمر قندیوں کے جوش و خروش کو گھوڑوں کی وبا، پل کی شکستگی، دلدلی مصیبت اور دریائی تہ کی کیچڑ نے نگل لیاتھا اور دوسری طرف سلطان احمد مرزا اپنی اس ناگہانی تباہی کو ارواح خبیثہ سے منسوب کر رہا تھا۔ جو بھی وجہ ہو بہرحال سمرقندیوں کو منہ کی کھانا پڑی تھی اور وہ شکست خوردگی کے احساس جاں گسل میں غلطاں وپیچاں بے نیل ومرام واپس سمرقندلوٹ گئے تھے۔
ادھر اس معرکے میں حسن یعقوب اور سلاخ نے بڑی جانفروشی دکھائی تھی۔ بہرحال ! کسی بھی طرح فرغانہ کے نو عمر بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے سر سے یہ ناگہانی بلا ٹل گئی تھی اور فتح کے شادیانے بجاتا ہوا شاداں و فرحاں اندر جان میں داخل ہوا۔
اس غیر متوقع اور بلائے ناگہانی کے ٹل جانے کی خوشی میں اہل وادی فرغانہ نے اندر حال میں ایک بہت بڑے جشن کا اہتمام کر ڈالا۔ بابر نے اپنے سرد اروں اور فوجیوں کو ان کے حسب مراتب انعام واکرام سے اس قدر نواز اکہ وہ زیر بار احسان ہوگئے اور بابرکی داد و دہش کے گیت گانے لگے، بابر نے خاص طور پر حسن یعقوب سلاخ اور شیرم طغائی کو اپنی عنایتوں سے لاد دیا اس نے بے پناہ جانثاری اور جرات وبہادری کے عوض حسن یعقوب کو وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر بھی فائز کردیا۔ حسن یعقوب کو منصب حکومت کے علاوہ جو زرنقد بخشا گیا وہ دوسروں کے لیے بجاطور پر رشک وحسدکے سبب بن گیا۔
حسن یعقوب پر بابر کی اس غیرضروری داد وہش کو نانی اماں ناپسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھ ر ہی تھی۔اس نے بابرکے قریب جاکر اپنی ناپسندندگی کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہا
اس صغر سنی میں اتنے بڑے بڑے فیصلے کرنے لگا ہے تو نے ایک بار بھی اپنی نانی اماں سے پلٹ کرمشورہ کرنا ہی گوارا نہیں کیاجسے تو نے وزارت عظمیٰ جیسا منصب جلیلہ عطا کیاہے وہ تیرے تمام امراء مصاحبین اور سرداروں میں سب سے زیادہ ناقابل اعتماد ہے یہ شخص ایک ایسا خطرناک افعی ہے جو اپنے محسنوں کو پوری طرح اعتماد میں لے کر ڈس لیتاہے۔
بابر نے پوری دلجمعی سے نانی اماں کی کسیلی کٹیلی باتیں سنیں اور انہیں درخور اعتناء نہ سمجھتے ہوئے اپنے دل ہی دل میں کہنے گا:’’نانی اماں بھی بڑی بادشاہ ہیں ۔ جس کسی سے متعلق ان کے دل میں پھانس اٹک جاتی ہے تو پھر وہ نکالے نہیں نکلتی خدا جانے بے چارے حسن یعقوب کی کون سی بات اسے بری لگی ہے کہ اس کی وفاداری بھی اس کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہی۔ مجھے نانی اماں کے دل میں اٹکی ہوئی یہ پھانس نکالنا ہوگی مجھے کسی بھی طرح اس کے دل ودماغ سے حسن یعقوب کے خلاف بھرے ہوئے زہر کا اثر زائل کرنا ہو گا۔
ادھر شمال میں مغلستان کا خاقان اعظم محمود خان وادی فرغانہ پر حملہ آور ہونے کے لیے پر تول رہاتھا۔ اس نے فرغانہ میں ادھر ادھر اپنے مخیر پھیلا رکھے تھے تاکہ وہ اسے وہاں کی تازہ بہ تازہ خبریں بہم پہنچاتے رہیں ۔خاقان اعظم نے بزعم خویش فرغانہ کے سرحدی قلعے آخشی کا محاصرہ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا مگر اس کے مخبروں نے اسے ایک وحشت ناک خبر سنائی جو کچھ اس طرح تھی کہ:سلطان احمد مرزا پرجوش سمرقندیوں کے ٹڈی دل کے ساتھ وادی فرعانہ پر حملہ آور ہوا مگر اسے ایک شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا اس کی فوج کا بیشتر حصہ تباہ وبرباد ہوگیا، فوجی گھوڑوں میں ایک مہلک وبا پھوٹ پڑی جس نے آناً فاناً گھوڑوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو نگل لیا اندر جان کے محافظ دریاکا پل ٹوٹنے کی وجہ سے سمر قندیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو نگل لیا۔ اندر جان کے محافظ دریاکا پل ٹوٹنے کی وجہ سے سمرقندیوں کی ایک بہت بڑی تعداد دریا برد ہوگئی اس پر مستزاد یہ کہ دریائی تہ کی دلدلی کیچڑ نے پرجوش سمر قندیوں کو دریاکے دوسرے کنارے تک نہ پہنچنے دیا۔ کہایہ جاتاہے کہ دریاکے آس پاس رہنے والی بد روحوں نے بابرکاساتھ دیا ہے انہوں نے اس کے دشمنوں کو تباہ وبرباد کر ڈالاہے۔انہیں بدروحوں نے سلطان احمد مرزا کو بھی مہلک مرض میں مبتلا کر دیا ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس مرض خانقاہ سے عہدہ براء نہ ہوسکے گا۔
مخبروں کی اس وحشت ناک خبر نے خاقان اعظم کو وحشت زدہ کر دیا، اس وہم میں مبتلا ہو گیا کہ اگر اس نے آخشی کارخ کیا تو عین ممکن ہے کہ سلطان احمد مرزا کی طرح اسے بھی بد روحیں اپنے حصار میں نہ لے لیں اسے ایسا محسوس ہورہاتھا کہ جیسے کسی مہلک مرض نے اسے بھی جکڑ لیا ہو انہیں بے بنیاد خیالات کے پیش نظر اس نے آخشی کے قلعے کے محاصرے کا ارادہ ترک دیا۔ جن قدموں سے وہ آخشی کی طرف چل کر آیا تھا، انہی قدموں مغلستان کی طرف لوٹ گیا۔
سرائیکی زبان کی ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ دریا پر وقت پڑگیا(یعنی وہ مبتلائے مصیبت ہو گیا ) تو پھر کبڑا حجام بھی بہت بڑا تیراک بن گیا۔ اسی ضرب المثل کے مصداق دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی ایک چھوٹی سی ریاست کا شغر کا حکمران ابابکر دوغلت بھی فرغانہ کے نو عمر حکمران بابر کو کمزور سمجھ کر اس پر حملہ آورہوا چاہتاتھا۔ ابھی وہ فرغانہ کی سرحدمیں داخل نہ ہوپایا تھا کہ اسے سلطان احمد مرزا اور خاقان اعظم کی بابر کے مقابلے میں ناکامی کا علم ہوا تو وہ بدحواس سا ہو گیا اس کے مخبروں نے اسے بتایاکہ
’’ارواح خبیثہ بابر کی حمایت کررہی ہے جو طاقت بھی اسے نقصان پہنچانے کے لیے اپنی جگہ سے حرکت کرتی ہے وہ اس کے درپے ہو جاتی ہیں اور بالآخر اسے تباہی وبربادی سے ہمکنار کرکے ہی دم لیتی ہیں ۔ حملہ آور کے سالار کو مہلک مرض میں مبتلا کرکے ہلاک کردیتی ہیں درایں اثنا ابابکر دوغلت کو سلطان احمد مرزا کی ہلاکت کی خبر بھی مل گئی یہ خبر سن کر وہ اور بھی وحشت زدہ ہو گیا اور پھر اس نے کسی تاخیر کے بغیر واپسی کا سفر اختیار کیا، بابر کے تمام دشمن ایک ایک کرکے چھٹ چکے تھے بنابریں اسے یک گونہ سکون میسر ہوگیاتھا۔
بابر اگرچہ عمر کے لحاظ سے صرف بارہ سالہ لڑکاتھا مگر اس کے اندر مستقبل کا ایک عظیم حکمران چھپا بیٹھا تھا جو اس کی قدم قدم پر رہنمائی کر رہا تھا۔ اس لیے وہ ایک منجھے ہوئے حکمران کی طرح اپنے فیصلے آپ کر رہاتھا نانی اماں کی نصیحتیں اب اسے بہت کھلنے لگیں تھیں وہ اپنی عادات سے مجبور ہوکر اسے اپنی بے سرو پا نصیحتوں کا گھوٹا ہلاتی رہتی تھی اگرچہ بابراپنے تئیں یہ سمجھنے لگا تھا کہ اب وہ بچہ نہیں رہا تھا مگر نانی اماں کے لیے تو وہ ابھی تک ننھا سا با بر تھا جو چند سال پہلے تک ہمہ وقت اس کی گود میں منہ چھپائے رہتا تھا جس کے کانوں میں وہ اپنی مرضی کے مطابق نصیحتوں کا رس گھولتی رہتی تھی۔ اس وقت بھی وہ حسب عادت بابر کے پہلو میں براجمان تھی اور اس کے سامنے اپنی نصیحتوں کے انبار لگائے جا رہی تھی وہ کہہ رہی تھی کہ۔
اب تجھے اپنے دشمنوں کی طرف سے سکون میسر آچکاہے بنابرایں اب تجھے اپنی تمام تر توجہ امور سلطنت کی انجام دہی پر مرکوز کرنی چاہیے سب سے پہلے تجھے اپنے بھائیوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہے کیونکہ یہی بھائی بغل کے تیر ثابت ہوتے ہیں اور کسی وقت بھی چل سکتے ہیں اور تیر سینہ چھلنی کرسکتے ہیں ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ کچھ علاقے بطور جاگیر انہیں بخش دو تاکہ ان کی ریشہ دوانیاں تیرے امورسلطنت کی انجام دہی میں مزاحم نہ ہوں ۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ فارغ ذہن شیطان کی آماجگاہ ہوتے ہیں اور یہ بات سچ بھی ہے اور اسی کہاوت کے پیش نظر ان لوگوں کو کام پر لگادو۔
بابر؛ نانی اماں کی نصیحت سے بہت پہلے اس بات کافیصلہ کر چکا تھا کہ وہ کچھ علاقوں کا نظم و نسق اپنے بھائیوں کے سپرد کر دے گا نانی اماں کی نصیحت نے بابر کے اس فیصلے پر مہمیز کا کام کیا اس نے آخشی کانظم ونسق اپنے دس سالہ بھائی جہانگیر مرزا کے سپرد کر دیا۔ اندر جان کا انتظام و انصرام حسن یعقوب کو سونپ دیا جب کہ اپنے تئیں سمر قند کی تسخیر کے منصوبے بنانے لگا۔
بابر خود کو اپنے بڑے داداامیرتیمور کا جائز وارث سمجھتاتھا، وہ چاہتا تھاکہ وہ اپنے داداکی طرح ایک عالَم کو زیر نگیں کرے اس کام کی ابتداء وہ سمرقند سے کرنا چاہتا تھا۔
وہ بزعم خویش سمجھ رہاتھا کہ اہل سمرقند اس کے سامنے تاب مقاومت نہیں رکھتے اس لیے اسے اپنے اس نیک کام کی ابتداء سمرقند پر یلغار ہے اسے کرنا چاہیے مگر اس نے ا پنا یہ ارادہ کسی پر ظاہر نہ کیا کیونکہ وہ نہایت خاموشی سے سمرقندیوں کو دبوچنا چاہتا تھا وہ خوب جانتا تھا کہ اس کے درباریوں میں کتنے لوگ ہوں گے جو اس کے ارادے کو طشت از بام کردیں گے وہ محلاتی ریشہ دوانیوں کا خوب ادراک رکھتاتھا اس لیے وہ آخری حد تک اپنے منصوبے کو راز میں رکھنا چاہتاتھا۔
سمر قندکاحکمران اس کا سگا چچا سلطان احمد مرازا تھا جس نے اس کے باپ کو کبھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیاتھا اس کی نظر ہر وقت وادی فرغانہ کی تسخیر پر جمی رہتی تھی اس نے فرغانہ کی تسخیر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مغلستان کے خاقان اعظم کو بھی شریک سازش کرلیاتھا۔ فرغانہ پر متعدد بار حملوں کے باوجود وہ اپنے مقصد دیرینہ میں کامیاب نہ ہوسکا کیونکہ قدرت نے ہر بار اس کے والد کی دستگیری کی تھی اور ہر بار دونوں دشمنوں کی بہر طور منہ کی کھانا پڑی تھی۔ عمر شیخ مرزا کے انتقال پر ملال کے فوراً بعد سلطان احمد مرزا کوئی دقیقہ فروگزاشت کیے بغیر وادی جنت نظیر پر چڑھ دوڑا تھا۔
وہ بزعم خویش سمجھتاتھاکہ فرغانہ کابارہ سالہ سلطان اس کی طاقت کے سامنے ایک مکھی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا مگر قدرت کو توکچھ اور ہی منظورتھا بابر کو صفحہ ہستی سے مٹانے والا خود عالم بالا تک جا پہنچا اپنی فوج کی تباہی وبرادی کے بعد اسے زندہ سلامت سمرقند تک پہنچنا بھی نصیب نہ ہوا یعنی دوران سفر واپسی اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی راہی ملک عدم ہوا سمرقند یوں پر آخری ضرب لگانے کے لیے بابرکوقدرت نے ایک سنہری موقع فراہم کردیاتھا جسے وہ کسی طور پر ضائع نہیں کرنا چاہتا۔
[جاری ہے]