حصول علم اور مشکلات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حصول علم اور مشکلات
ام رومیثہ،لاہور
ارباب بصیرت کے ہاں یہ بات مسلم ہے کہ ہر پسندیدہ چیز کو حاصل کرنے کے لیے اس سے کم حیثیت چیز کو چھوڑنا پڑتا ہے۔
علم اعلی درجہ کا محبوب ہے اسے حاصل کرنے کے لیے مال، وقت ،احباب کی قربانی دیے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں۔امام یحیی بن کثیر نے فرمایا کہ جسم کی راحت کے ساتھ علم حاصل کرنے کی استطاعت نہیں ہوتی۔
امام محمد بن سحنون کی ایک لونڈی تھی امام صاحب ایک دن ان کے گھر تشریف لائے دیر تک کتاب کی تصنیف وتالیف میں مشغول رہے وہ کھانا لے کر آئیں کہ کھانا کھائیے انہوں نے جواب دیا کہ میں مشغول ہوں جب کافی دیر گزرگئی تو لونڈی نے ایک ایک لقمہ ان کے منہ میں دینا شروع کردیا یہاں تک کہ کھانا ختم ہوگیا جب صبح کی آذان ہوئی تو لونڈی سے کہا کہ کھانالے کرآ اس نے جواب دیا کھاناتو میں نے لقمہ لقمہ کرکے آپ کو کھلا چکی ہوں فرمایاکہ مجھے اس کا احساس بھی نہیں۔
حافظ یعقوب بن سفیان نے فرمایاکہ میں نے تیس سال تک سفر کیا میرے سفر کے دوران ہی میرا خرچ کم ہوگیا میں رات کو پابندی کے ساتھ کتابت کیاکرتا تھا اور دن کو پڑھا کرتا تھا ایک رات میں چراغ کی روشنی میں بیٹھا لکھ رہا تھا سردیوں کاموسم تھامیری آنکھوں میں پانی اتر آیا مجھے دکھائی نہیں دے رہا تھا میں علم کے فوت ہونے اور شہر کے دور ہونے کی وجہ سے رونا شروع ہوگیا اس حالت میں مجھے نیند آگئی۔
خواب میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے مجھے آواز دی یعقوب تم کیوں رو رہے ہو۔۔؟ میں نے عرض کیا کہ میری نگاہ ختم ہوگئی اس کی وجہ سےجو علم فوت ہوگیا اس پر میں رو رہا ہوں آپ نے فرمایا کہ میرے قریب آجاؤ۔میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب گیا آپ نے میری آنکھ پر ہاتھ مبارک پھیرا جیسے کچھ پڑھ رہے ہوں میں بیدار ہوگیا میری بینائی پہلے سے بھی زیادہ تیز ہوگئی تھی۔
ان لوگوں نے علم کو حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کی مشقت کو برداشت کیا جب تک کوئی بھی انسان تکالیف اور مصائب کو برداشت نہیں کرتا اس وقت تک انسان کوکامل علم نصیب نہیں ہوسکتا۔
کسی نے کہا۔
من طلب العلی من غیر جھد
اضاع العمر فی طلب المحال
ترجمہ؛ جوبغیر محنت و کوشش اور جدوجہد کے بلندی کا طلب گار ہوتا ہے وہ اپنی زندگی کو ایک محال چیز کی جستجو میں ضائع کرتا ہے
اس لیے طالب صادق کو چاہیے کہ علم کے حاصل کرنے میں جو بھی مشقت کرے اس کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے۔ورنہ کبھی بھی اپنی مراد کو نہیں پاسکے گا۔ اللہ تعالی کی عادت مبارکہ یہ ہے کہ وہ کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتے خواہ دنیادی ہو یا دینی۔
اس لیے حصول علم کے لیے کوشاں میری ہر بہن عزم کرے کہ وہ عارضی تکالیف اور مصائب کا مقابلہ کر کے اپنی دنیا اور عقبی دونوں کو سنواروں گی اور اپنی اولاد کو بھی زیور تعلیم سے مزین کروں گی۔