ہائے میرے عیناء مرضیہ کے شوق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ہائے میرے عیناء مرضیہ کے شوق
ام عمارہ ،سرگودھا
عبدالوحید بن زید فرماتے ہیں کہ میں اپنی اسی مجلس میں بیٹھا تھا،جہاد پرجانے کی تیاریاں ہورہی تھیں میں نے اپنے سے کہہ رکھا تھا کہ پیر کی صبح کو چلنے کے لیے تیار رہیں ایک آدمی نے اس مجلس میں یہ آیت کریمہ پڑھی
ان اللہ اشتری من المومنین انفسہم وامو الہم بان لہم الجنۃ۔
بلاشبہ اللہ تعالی نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیاہے کہ ان کو جنت ملے گی۔
ایک پندرہ سال کی عمر کے لگ بھگ لڑکا اٹھ کے کھڑا ہوگیا جس کا والد فوت ہوچکا تھا اور بہت سامال ورثہ میں چھوڑ کر گیا تھا کہنے لگا عبدالواحد کیا واقعی اللہ تعالی نے مومنوں سے جنت کے عوض ان کے مال وجان کا سودا کرلیا ہے میں نے کہاہاں میرے پیارے۔ کہنے لگا عبدالواحد میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنا نفس اور مال جنت کے عوض بیچ دیا ہے میں نے کہا تلوار کی دھار بڑی سخت ہے تو ابھی بچہ ہے خطرہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔ کہنے لگا عبدالواحد یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اللہ تعالی کے ساتھ جنت کا سودا کروں اور پھر گھبرائوں ؟
میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اللہ تعالی سے سودا کرلیا ہے فرماتے ہیں کہ یہ باتیں سن کر ہمیں اپنے آپ پر شرم آنے لگی کہ ایک بچے کے یہ جذبات ہوں اور ہم اس سے پیچھے رہ جائیں۔ نوجوان نے ایک گھوڑا ، ہتھیار اور کچھ زادہ راہ چھوڑکر باقی سب مال صدقہ کر دیا کوچ کا دن آیا تو سب سے پہلے وہی پاس آیا اور آکر السلام علیک یا عبدالواحد کہا میں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تیری بیع نفع لائے گی۔
ہم نے کوچ کیا نوجوان دن بھر روزے رکھتا اور رات کو عبادت کرکے ہماری خدمت کرتا جانوروں کو چرانے کے لیے لے جاتا ہم سو رہتے تو وہ پہرہ دیتا اسی طرح سے ہم روم کے علاقہ میں پہنچ گئے۔ ایک دن بیٹھے تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ نوجوان چلا آرہا ہے اور بآواز بلند واشوقاہ الی العیناء المرضیۃ کا کلمہ پکار رہا ہے کہ "ہائے میرے عیناء مرضیہ کے شوق " میرے ساتھی یہ حال دیکھ کہ کہنے لگے کہ نوجوان کسی وسوسہ میں مبتلا ہو گیا ہے یا عقل کھو بیٹھا ہے۔ اتنے میں وہ قریب آگیا اور کہنے لگا اے عبدالواحد میرا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے عینا مرضیہ کا شوق غالب آچکا ہے۔
میں نے پوچھا میرے عزیز! یہ عیناء مرضیہ کیاہے؟ اس نے کہا میں نیند میں تھا کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آکر مجھے کہہ رہا ہے کہ چل تجھے عیناء مرضیہ کے پاس لے چلوں پلک جھپکنے میں وہ مجھے باغ میں لے گیا جہاں ایک نہر تھی جس کا پانی شفاف اور تازہ تازہ تھا نہر کے کنارے کچھ لڑکیاں تھیں جن کے لباس اور زیورات کی کیفیت میں بیان نہیں کر سکتا مجھے دیکھا تو بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں کہ یہ عینا مرضیہ کا خاوند آیا ہے میں ان سے سلام لیا اور پوچھا کیا تم میں عینا مرضہ ہے ؟کہنے لگیں نہیں ہم تو اس کی خدام اور باندیاں ہیں آگے چلے جائو آگے بڑھا تو ایک نہر دودھ کی جاری تھی جس کے ذائقے میں ذرا تبدیلی نہ آئی تھی ایسے باغ میں بہہ رہی تھی۔
جس میں زیب و زینت کا پوارا سامان موجود تھا وہاں پرایسی لڑکیاں تھیں جن کے حسن وجمال کو دیکھ کر میں فریفتہ ہوگیا وہ بھی مجھے دیکھ کر کہنے لگیں کہ یہ آنے والا شخص واللہ عینا مرضیہ کا خاوند ہے۔
میں نے سلام کے بعد ان سے پوچھا کیا تم میں عینا مرضیہ ہے؟ سلام کا جواب دینے کے بعد وہ بولیں اے اللہ کے ولی ہم تو اس کی باندیاں ہیں اور خدمت گزار ہیں۔ آپ آگے چلے جائیں میں آگے بڑھا شراب کی ایک نہر جاری تھا وہاں پرا یسی لڑکیاں دیکھنے میں آئیں کہ میں پہلی سب لڑکیاں کو بھول گیا میں نے انہیں سلام کیا اور پوچھا کیا تم میں عیناء مرضیہ ہے وہ بولیں ہم تو اس کی خدمت گزار ہیں آپ آگے چلے جائیں میں آگے بڑھا تو ایک شہد کی نہر جارہی تھی اور باغیچہ میں پیکر جن و جمال اور ایسی منور لڑکیاں تھیں کہ مجھے پچھلا سب بھول گیا انہیں بھی میں نے سلام کہا اور پوچھا کیا تم میں عینا مرضیہ ہے؟ کہنے لگیں اے اللہ کے ولی ہم تو اس کی باندیاں ہے آپ ذرا آگے جائیں میں آگے بڑھا تو ایک خول دار موتی کے خیمہ میں اپنے کو پایا۔
اس کے دروازے پر ایک لڑکی تھی جس کے لباس اور زیوارات کی جھلک حد بیان سے باہر ہے مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور پکار کر کہنے لگی اے عینا مرضہ یہ تیرا خاوند آگیا ہے میں آگے بڑھا اور خیمے میں داخل ہوگیا کیا دیکھتا ہوں کہ وہ اک سنہری تخت پر بیٹھی ہوئی ہے جو یاقوت اور موتیوں سے مرصع ہے میں دیکھتے ہی اس میں کھو گیا وہ بولی اے رحمان کے ولی مرحبا ہو ہمارے ہاں تشریف لانے کا تیرا وقت اب قریب آگیا ہے۔
میں نے اس سے معانقہ چاہا مگر وہ کہنے لگی ذرا ٹھہرو ابھی معانقہ کا وقت نہیں آیا ابھی تیری دنیوی زندگی کے کچھ سانس باقی ہیں بس آج رات تو ہمارے پاس آکر ہی ان شاء اللہ افطاری کرے گا اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی عبدالواحد میرے لیے صبر کی گنجائش نہیں ہے عبدالواحد کہتے ہیں کہ ہماری گفتگو ابھی جاری ہی تھی کہ دشمن کا لشکر سامنے آگیا ہم نے ان پر حملہ کیا نوجوان بھی ہمارے ساتھ تھا میں نے دشمن کے نو ساتھی شمار کیے جو اس نوجوان نے جہنم رسید کیے اس کے بعد اس نے خود بھی جام شہادت نوش کیا میں اس کے پاس سے گزرا تو وہ خون سے لت پت پڑا تھا منہ بھر کے قہقہہ لگایا اور دنیا سے رخصت ہوگیا۔