انہی پہ ناز کرتی ہے مسلمانی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
انہی پہ ناز کرتی ہے مسلمانی
مولانا منیراحمد جھنگوی
اس سال حج نہیں ہوگا:
امام عبداللہ بن مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کے ماہر تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج اور دین کی حقیقت کو خوب سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ صحیح دین داری کیا ہے ؟ایک بار آپ حج کو جارہے تھے سفر میں ایک مقام پر ایک لڑکی کو دیکھا کہ کوڑے پر سے کچھ اٹھا رہی ہے۔ ذرا اور قریب گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بے چاری ایک مری ہوئی چڑیا کو جلدی جلدی ایک چیتھڑے میں لپیٹ رہی ہے امام صاحب وہیں رک گئےاور حیرت و محبت کے ساتھ اس غریب بچی سے پوچھا”بیٹی تم اس مردار چڑیا کا کیا کرو گی ؟“ لڑکی اپنے پھٹے پرانے کپڑوں کو سنبھالتے ہوئی بہتے ہوئے آنسوؤں سے بولی”چچا ! ہمارے ابا کو ظالموں نے قتل کر دیا۔ ہمارا سب مال چھین لیا اور ساری جائیداد ہتھیالی۔ اب میں ہوں اور میرا ایک بھائی ہے۔ خدا کے سوا ہمارا کوئی سہارا نہیں۔ اب ہمارے پاس نہ کھانے کےلیے کچھ ہے اور نہ پہننے کےلیے۔ کئی کئی دن ہم پر ایسے ہی گذر جاتے ہیں۔ اس وقت بھی چھ دن کے فاقے سے ہیں۔ بھیا گھر میں بھوک سے نڈھال پڑاہے۔ میں باہر نکلی کہ شاید کچھ مل جائے۔ یہاں آئی تو یہ مردار چڑیا پڑی ملی۔ہمارے لیے یہ بھی بڑی نعمت ہے۔ “
یہ کہتے ہوئے فاقہ کی ماری بچی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ امام صاحب کا دل بھر آیا بچی کے دل سر پر ہاتھ رکھا اور خود بھی رونے لگے۔ اپنے خزانچی سے پوچھا ، اس وقت تمہارے پاس کتنی رقم ہے ؟ حضرت ایک ہزار اشرفیاں ہیں ،خزانچی نے جواب دیا۔ میرے خیال میں ”مرو“ تک پہنچنے کے لیے بیس اشرفیاں کافی ہوں گی حضرت نے پوچھا۔ جی ہاں بیس اشرفیاں گھر تک پہنچنے کے لیے بالکل کافی ہیں۔ خزانچی نے جواب دیا۔ تو پھر تم بیس اشرفیاں روک لو اور باقی ساری رقم اس لڑکی کے حوالے کر دو۔ہم اس سال حج کو نہیں جائیں گے۔ حضرت نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ خزانچی نے ساری رقم لڑکی کے حوالے کر دی۔غم اور فاقہ سے کملایا ہوا چہرہ ایک دم کھل اٹھا اور لڑکی کی آنکھوں میں خوشی کےآنسوتیرنے لگے اور تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی خوشی خوشی اپنے گھر کو لوٹ آئی۔ امام صاحب نے خدا کا شکر ادا کیا اور خزانچی سے فرمایا چلو اب یہیں سے گھر کو واپس چلیں خدا نے یہیں ہمارا حج قبول فرما لیا۔
عبادات
امام ذہبی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے حضرت عبداللہ میں کون سی خوبی نہیں ہے۔ خدا ترسی۔عبادت ،خلوص،جہاد،زبردست علم ، دین میں مضبوطی،حسنِ سلوک، بہادری ،خدا کی قسم مجھے ان سے محبت ہےاور ان کی محبت سے مجھے بھلائی کی امید ہے حج کے شوق کا یہ حال تھا کہ سال کو تین حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ چار مہینے حدیث پڑھنے پڑھانے میں گزارتے ،چار مہینے جہاد میں رہتے ،اور چار مہینے حج کے سفر میں رہتے۔حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کہا کرتے تھے ،،میں نے بہت کوشش کی کہ کم از کم ایک سال ہی حضرت عبداللہ کی طرح زندگی گزار لوں۔ لیکن کبھی کامیاب نہ ہوا۔
حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
حضرت عبد اللہ رحمہ اللہ کا حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں یہ تھا کہ گھر سے نکلتے ہی نہ تھے۔ہر وقت گھر میں تنہا بیٹھے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مشغول رہتے۔ لوگوں نے پوچھا حضرت ” تنہا گھر میں بیٹھے آپ کی طبیعت نہیں گھبراتی؟“ فرمایا خواب میں تو ہر وقت پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں ہوتا ہوں ،ان کے دیدار سے آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہوں اور ان سے بات چیت میں مشغول ہوتا ہوں ،پھر گھبرانا کیا ؟ حدیث کے علماء ان کو علم حدیث میں امیر المؤمنین اور امام المسلمین کہا کرتے تھے۔ حضرت فضالہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب کبھی کسی حدیث کے بارے میں علماء میں اختلاف ہوتا ،تو کہتے چلو حدیث کی نبض پہچاننے والے”طبیب حدیث“سے پوچھیں۔ یہ طبیب حدیث حضرت عبداللہ ہی تھے۔
مخلوق کے ساتھ حسن سلوک
حج کے لیے ہر سال جاتے ہی تھے۔ بہت سے لوگ آپ کے ساتھ ہولیتے سفر پر جاتے ہوئے آپ صرف اپنے ہی کھانے کا انتظام نہ کرتے ،بلکہ اپنے ساتھیوں کے لیے بھی کھانے پینے کا انتطام کر کے چلتے۔ ایک سال تو لوگوں نے یہ دیکھا کہ ان کے ساتھ دو اونٹوں پر صرف بھنی ہوئی مرغیاں لدی ہوئی تھیں حج کو روانہ ہونے سے پہلے اپنے تمام مسافروں سے کہتے کہ اپنی اپنی رقمیں میرے پاس جمع کراو۔
سب سے رقم لےکرالگ الگ تھیلیوں میں رکھ لیتے اور ہر تھیلی پر دینے والے کا نام اور رقم کی تعداد لکھتے۔ پھر راستے بھر اپنے پاس سے خرچ کرتے۔ اچھے سے اچھا کھلاتے لوگوں کے آرام کا خیال رکھتے اور ہر طرح کی سہولت پہنچانے کی کوشش کرتے حج سے فارغ ہو کرمدینہ پہنچتے تو ساتھیوں سے کہتے ،اپنے گھر والوں کی ضروریات کی چیزیں لینا چاہو تو لے لو۔ لوگ اطمینان کے ساتھ اپنی ضروریات کی چیزیں خریدلیتے حج سے واپس آکر اپنے ساتھیوں کی دعوت کرتے اور پھر ہر ایک کو اس کی تھیلی رقم سمیت واپس کر دیتے۔ کسی نے پوچھا کی حضرت بتاتے نہیں ہو کہ راستہ میں کس کے مال سے خرچ کر رہے ہیں تو فرمایا اگر بتا دیا جائے تو کون آسانی سے اس پر تیار ہو گا۔ اسی طرح دیگر کئی واقعات ہیں جن مقروضوں کے قرض کی ادائیگی ہو یا مہمان نوازی، قیدیوں کو چھڑانا ہو یا ان کے ساتھ تعاون کرنا سب میں امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ اپنے ہم زمانوں پر سبقت لے جاتے تھے۔
وفات
جہاد کے لیے تو ہر سال ہی جاتے تھے 181میں جہاد سے واپس آرہے تھے موصل کے قریب ہئیت نامی بستی میں پہنچے تو طبیعت بگڑ گئی آپ سمجھ گئے کہ اب آخری وقت ہے فرمایا۔ مجھے فرش پر لٹا دو نضر رحمہ اللہ نے ایسا ہی کر دیا لیکن مہربان آقا کی یہ حالت دیکھ کر بے اختیار رونے لگے حضرت نے پوچھا روتے کیوں ہو ؟نضر رحمہ اللہ نے کہا حضرت ایک وہ زمانہ تھا کہ دولت کی ریل پیل تھی ،شان شوکت تھی اور جاہ وجلال کی زندگی تھی اور ایک آج کا دن ہے غربت ہے مسافرت ہے یہ دیکھ کر رونا آ گیا۔