بیٹیاں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">بیٹیاں

مولانا محمد کلیم اللہ
12 ویں ذوالحجہ کی سہانی صبح تھی جب میرے آنگن میں چاندنی نے ڈیرے ڈال دیے۔ اللہ کریم نے اپنے فضل سے ہماری گود کو اپنی رحمت سے بھر دیا ایک پیاری سی ………اوں ……مم ………میٹھی سی گڑیا پیدا ہوئی۔
اولاد کیا ہوتی ہے ؟ آج احساس ہوا۔ خالق دو جہاں نے اس کو آزمائش کیوں کہا ؟ اب سمجھ آئی۔ وہ جو اللہ کریم سے دعائیں مانگیں تھیں
…رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ
اے اللہ ہماری ازواج اور اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنا …… سووہ قبول ہوگئیں۔
سورۃ الفرقان پارہ نمبر 19 آیت نمبر 74
نماز ظہر کے بعد مسجد کے نمازیوں میں مٹھائی بانٹی۔ مبارک باد دینے کے لیے گھر میں اعزہ واقارب کا تانتا بندھ گیا۔ پیاری گڑیا کی دادی ماں کا چہرہ خوشی سے تمتماتا ہوا نظر آرہا تھا۔ آنے والے مہمانوں کی مٹھائی اور کولڈ ڈرنک سے ضیافت کی جارہی تھی۔
ہائے نی ! آنکھیں دیکھو بالکل اپنی ماں پر گئی ہے۔ نہیں اپنے باپ پر گئی ہے،آنکھ کان کا پتہ نہیں لمبے لمبے ہاتھ پاؤں بالکل باپ جیسے ہیں ناک چھوٹا ہے نہیں ری اور کتنا بڑا ہوتا ؟؟ ماتھا ایسا ہے جیسے ………مختلف قسم کے تبصرے نومولود پر شروع ہوگئے۔ ادھر گڑیا نیا خوبصورت فراک زیب تن کیے لوگوں کی خیال آرائیوں سے کوسوں دور میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہی تھی۔ اللہ اس کو نیک بنائے اور علوم شریعت سے بہرہ ور فرمائے۔ آمین
آج قرآن کریم سورۃ شوریٰ کی تلاوت کی سعادت نصیب ہوئی
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَأَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا
سورۃ الشوریٰ پارہ نمبر 25 آیت نمبر 49 ،50
اللہ فرماتے ہیں کہ میں زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہوں پیدا کرتا ہوں جو چیز چاہتا ہوں جس کو چاہتاہوں بیٹیاں عطا کرتا ہوں اور جس کو چاہتا ہوں بیٹے۔ چاہوں تو جڑواں جڑواں بیٹے اور بیٹیاں دے دوں اور میں مالک ہوں چاہوں تو کچھ بھی نہ دوں۔
قرآنی اسلوب کو ایک بار پھر مد نظر رکھیے اولاد کے تذکرے میں رب تعالیٰ نے بیٹیوں کا ذکر پہلے فرمایا۔ کیوں ؟
اس لیے کہ اس وقت کے جہلاء عرب اور آج کے جہلاء عجم دونوں بیٹی کو منحوس گردانتے ہیں جہلاء عرب کی حالت کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کھینچا ہے
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ۔
جب ان کو بیٹی خوشخبری دی جاتی ہے تو ان کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور ان کا دل غم اور حزن سے بھر جاتا ہے۔
سورۃ النحل پارہ نمبر 14 آیت نمبر 58
دربار نبوت لگا ہے عرب کا ایک بدو دیہاتی زار وقطار آنسووں کی برسات میں بھیگ چکا ہے روتے روتے ہچکی بندھی ہوئی ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مااجد حلاوۃ الاسلام منذ اسلمت جب سے اسلام لایا ہوں اسلام کی چاشنی اور مٹھاس کو محسوس نہیں کرپارہا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ جاہلیت میں میرے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی میں گھر سے کہیں دور سفر پر تھا جب گھر واپس لوٹا تو وہاں وہ چھوٹے چھوٹے قدموں اور ننھے منے ہاتھوں کے بل چل رہی تھی اس کی توتلی زبان اور معصومانہ شرارتیں ………یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے گھر والی کو کہا کہ اس کو تیار کر!اس نے اسے خوبصورت لباس پہنایا میں اس کو ساتھ لے کر دور ایک جنگل میں چلاگیا۔
گرمی اور لو…… وادی عرب کے تپتے صحرا نے ہمارے قدموں تک کو جھلسا کر رکھ دیا جب میں پسینے میں شرابور ہوجاتا تو میری بیٹی ننھے منے ہاتھوں سے اپنے چھوٹے سے دوپٹے سے میرا پسینہ پونچھتی۔
یارسول اللہ! یا رسول اللہ !میں نے ایک جگہ گڑھا کھودا ،کھدائی کرتے وقت وہ بار بار اس گڑھے کی طرف دیکھتی اور میری طرف بھی۔ وہ مجھ سے سوال کرتی تھی : ابو یہ کس لیے گڑھا کھود رہے ہو؟
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میں نے اس کے لیے گڑھا کھود کر تیار کر لیا اور اس کو اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو وہ چلائی اس نے مجھے دہائی دی وہ ابو ابو کرتی رہی۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کہتی رہی کہ ابو مجھے مت دفن کرو ابو مجھے معاف کردو ابو مجھے چھوڑ دو ابو مجھے ڈر لگتا ہے ابو ابو میں آپ کے گھر نہیں آؤں گی ابو کبھی بھی واپس نہیں لوٹوں گی۔ ابو میں آپ پر بوجھ بن کرنہیں رہوں گی ابو میں اکیلی بالکل اکیلی رہ لوں گی ابو ابو ابو ……… یہاں تک کہ میں نے اس کے سر پر بھی مٹی ڈال دی۔ آخر وقت تک وہ معصوم چلاتی رہی اپنی زندگی کی بھیک مانگتی رہی لیکن یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا پتھر دل موم نہ ہوا اور میں اس کو وہیں جنگل میں پیوند خاک کر کے گھر لوٹ آیا۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے الفاظ میری کانوں کی سماعتوں سے ٹکرا رہے ہیں اس کی معصوم بھولی صورت اور دلربا ادائیں میرے دل پر نقش ہوگئی ہیں۔
یا رسول اللہ کلما ذکرت قولھا لم ینفعنی شئی۔
یا رسول اللہ میرا کیا بنے گا ؟
ادھر عرب کا دیہاتی رو رہا تھا اور ادھر فخر دو عالم رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مازاغ آنکھوں میں آنسو کے سمندر امڈ آئے موتیوں کی اس لڑی میں محبت وشفقت ومودت کے انمول خزینے چھلکنے لگے آپ نے فرمایا میرے صحابی ماکان فی الجاہلیۃ فقد ھدمہ الاسلام تم نے جو گناہ زمانہ جاہلیت میں کیے قبول اسلام نے ان کو ہمیشہ کے لیے مٹاڈالا۔
اللباب فی علوم الکتاب سورۃ النحل جز 12 ص 90
علاقے پر علاقے فتح ہورہے ہیں ، قیصر وکسری جیسی سپر پاور طاقتیں کہلانے والی ریاستیں اسلام کا نام سن کر لرزہ براندام ہوجاتی ہیں۔ ایک جنگ میں کچھ لوگوں کو قیدی بنا کر لایا گیا اسی اثنا ء میں ایک بیٹی …….دشمن کی بیٹی …… کے سر سے آنچل اتر گیا۔ مزمل ومدثر والے نبی نے اپنی کالی کملی اتاری اور کہا کہ جاؤ اور جا کر اس بیٹی کے سر پر میری یہ چادر اوڑھا دو …… ہاں ہاں ! وہی چادر جس کی عرش والا رب قسمیں کھاتا ہے …….کسی نے کہہ دیا کہ یارسول اللہ یہ کافر کی بیٹی ہے۔ نطق نبوت حرکت میں آئی اور رہتی دنیا تک اسلام کا وسیع النظر مشفقانہ اصول وضع ہو گیا کہ بیٹی؛ بیٹی ہوتی ہے خواہ کافر کی ہی کیوں نہ ہو۔
میری بہنو!بیٹی جیسی رحمت خدا ہر گھر کے مقدر میں نہیں کرتا ، بیٹی کو خدا کی انعام اور رحمت سمجھو۔ آج کے جہلاء بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے ہیں یہ تو ان جہلاء عرب سے بھی آگے نکل چکے ہیں کہ جب ان کو بیٹی کی خوشخبری دی جاتی
یتواریٰ من القوم من سوء مابشر بہ ایمسکہ علی ھون ام یدسہ فی التراب
شرم سے منہ چھپاتے پھرتے پھر بیٹی کی پیدائش پر اس کی ماں کو طلاق دے دیتے اور ایسے گھر میں چھوڑ دیتے جہاں کوئی آتا جاتا نہیں تھا۔
بیٹی پیدا ہوتی تو اس کو اون یا بالوں سے بنا ہوا جبہ پہنا دیتے اور وہ اونٹوں اور بکریوں کو چراتی رہتی ،بیٹیوں کے قتل کے نت نئے طریقے بنا رکھے تھے کبھی گڑھا کھود کر زندہ دفن کردیتے کبھی پہاڑ کی چوٹی سے گرا دیتے ، کبھی دریا کی بے رحم موجوں کے حوالے کر کے غرق کر دیتے کبھی ذبح کردیتے اور پھر ان سب کو غیرت وحمیت کا نام دیتے کبھی فقر وفاقہ کا عذرلنگ تراش کر معصوم کلیوں کو موت کی آغوش میں سلادیتے اور کبھی اس خوف سے کہ کہیں اور بیاہی جائے گئی تو اس کا مال ان کا ہوجائے گا۔
تفسیر سراج منیر سورۃ النحل جز 2 ص 188
اور آج کا جاہل ماں کے پیٹ میں ہی اس کو ختم کرادیتا ہے ، اسقاط حمل کے جرم میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے ، بچی کی ولادت پر اسے اور اس کی ماں کو زندہ جلا دیتا ہے ، بیٹی جیسے معصوم رشتے کی پیدائش پر اس کی ماں کو طلاق دے دیتا ہے کبھی یکے بعد دیگرے بیٹیوں کی پیدائش عورت کا جرم قرار دیتا ہے۔
معاف کرنا !ایسے مسلمان پر اسلام کے الف کا اثر بھی نہیں ہوا وہی جاہلیت زدہ خیالات اور فرسودہ عقائد دل ودماغ میں رچے بسے ہوئے ہیں۔
تفسیر شعراوی اور دیگر تفاسیر میں ایک واقعہ مرقوم ہے کہ ام حمزہ عرب کی ایک سمجھ دار اور شاعرانہ مزاج کے حامل عورت تھی۔ اس کو بھی یکے بعد دیگرے بیٹیاں پیدا ہوئیں تو اس کے خاوند ابو حمزہ نے اس وجہ سے گھر آنا چھوڑ دیا اس پر اس نے برجستہ اشعار کہے :
مَا لأبي حمزةَ لاَ يأتِينَا غَضْبانَ ألاَّ نَلِدَ البَنِينا
تَاللهِ مَا ذَلكَ فِي أَيْدينا فَنَحنُ كَالأَرْضِ لغارسينا
نُعطِي لَهُم مِثْل الذِي أُعْطِينَا
تفسیر شعراوی تحت آیت الا ساء ما یحکمون
ابو حمزہ کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہمارے پاس نہیں آتا وہ اس لیے ناراض ہے کہ ہم بیٹوں کو جنم نہیں دیتیں اللہ کی قسم یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہماری مثال توکاشت کار کے لیے زمین جیسی ہے سو جو بویا جائے گا وہی کاٹا جائے گا۔
بیٹی کے بارے ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو فرامین پڑھ لیجیے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ هَكَذَا وَضَمَّ إصْبَعَيْهِ.
جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں ……پھر ان کا اچھے گھرانےمیں نکاح کردیا ……تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ایسے ہوگا جیسے یہ انگلیاں۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھو ں کی انگلیوں کو آپس میں داخل کر دیا۔
مصنف ابن ابی شیبہ جز 8 ص 364
مسند احمد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثابت شدہ ہے کہ
مَنْ ابْتُلِيَ مِنْ الْبَنَاتِ بِشَيْءٍ فَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنْ النَّارِ
مسند احمد جز 41 ص 120
جس شخص کو بیٹی جیسی اولاد دے کر آزمایا گیا اور اس نے ان کی تعلیم وتربیت کے ساتھ اچھی پرورش کی تو وہ بیٹی اس کے لیے جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائے گی۔ اللہ تعالی ہم سب کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق بخشے۔
آمین بجاہ النبی الرحمۃ علی البنات والبنین۔
میرا جرم کیا ہے……؟؟
حافظ محسن شریف، شیخوپورہ
پاپا……پاپا……آپ آج پھر خالی ہاتھ آگئے، میرے لیے کھلونے نہیں لے کر آئے ننھی آمنہ نے اپنے پاپا کو گھر داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
ہاں بیٹی! آج اتنا کام نہیں مل سکا، ان شاء اللہ کل ضرور لے آؤں گا۔ خالد نے چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے پاپا میں کل انتظار کروں گی یہ کہ کر ننھی آمنہ اپنے کمرے میں چلی گئی اس دوران خالد کی ماں اپنے کانپتے ہاتھوں میں ڈنڈا پکڑے ہوئے خالد کے پاس آگئی اور پیار سے چمکارتے ہوئے بولی :” پتر! دل چھوٹا نہیں کرتے اور نہ ہی مایوس ہوتے ہیں ان شاء للہ جلد ہی نوکری مل جائے گی کوشش جاری رکھو اور یہ لو پانی پیو کھانا کھالو میں نے اپنے بیٹے کے لیے پسندیدہ سالن کدوگوشت بنا رکھا ہے۔“
اچھا ماں میں ہاتھ دھو کے آتا ہوں پھر وہ اگلے ہی لمحے کھانے کی میز پر بیٹھاتھا۔ ماں کیسے مجھے نوکری مل جائے گی؟ میرے سے اب ننھی آمنہ سے بار بار جھوٹ نہیں بولا جاتااس کی ماں ہوتی تو اس کو بہانے سے ٹال دیا کرتی۔ پر میں کب تک اس بیچاری کے سامنے جھوٹ بولتا رہوں جب وہ دوسرے بچوں کو دیکھتی ہوگی تو اس کے دل میں بھی کئی خیالات آتے ہوں گے ،دیگر بچوں کی طرح اس کی بھی خواہشیں ہیں جو میں پوری کرنے سے قاصر ہوں خالد نے کھانا کھاتے ہوئے ایک ہی سانس میں کئی باتیں کہہ ڈالیں۔
پتر! اللہ بہتر کرے گا تو اس وقت تک رکشہ چلالے جب تک نوکری نہیں مل جاتی۔ پر ماں رکشہ کے لیے بھی پیسے چاہییں جو میرے پاس نہیں ہیں خالد نے مایوسی سے اپنی ماں سے کہا۔
پتر! میں نے کچھ پیسے سنبھال کے رکھے ہیں جو تو مجھے خرچ دیا کرتا تھا وہ میں جوڑتی رہی تاکہ بوقت ضرورت کام آجائیں۔
سچ ماں ؟ ہاں۔ ہاں میرے لعل! بالکل سچ ابھی لے کر آتی ہوں یہ کہتے ہوئے خالد کی ماں اپنے کمرے میں چلی گئیں اور ایک پرانا بوسیدہ سا زنگ آلود صندوق اٹھا کر خالد کے پاس آگئی لے پتر کھول اسے۔
اچھا ماں!!!!!
پھر اگلے ہی لمحے خالد زنگ آلود صندوق کا تالا کھول رہا تھا صندوق کھلتے ہی اس کی آنکھوں میں چمک آگئی کیونکہ صندوق نوٹوں سے بھر ا ہوا تھا اس کو اب معلوم ہوا تھا کہ اس کی ماں اس کا کتنا خیال رکھتی ہے اور اس سے کتنی محبت کرتی ہے۔ پتر یہ سب تیرے پیسے ہیں جو تو مجھے دیا کر تا تھا نکال کرگن لے خالد کی ماں نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
ماں پورے ستر ہزار ہیں خالد نے گننے کے بعد خوش ہوکر کہا اور بے اختیار اپنی ماں کے گلے لگ گیا۔ ماں تو میری سب سے پیاری ماں ہے ماں میں تیرا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا ماں۔ خالد بار بار اپنی ماں کی پیشانی چومتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
میرے پتر میرا سب کچھ تیرا ہی تو ہے میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں اب جا اور جا کر رکشہ خرید لے اور کام شروع کر میں تیرے لے دعا گو ہوں کہ اللہ تمہیں ترقی دے۔
ہاں ماں میں ضرور رکشہ خریدوں گا جب تک نوکری نہیں مل جاتی رکشہ چلاؤں گا اور ننھی آمنہ کا اور تیر اپیٹ پالوں گا۔
خالد ایک پڑھا لکھا خوبصورت نوجوان تھا باپ بچپن میں ہی وفات پا گیا تھا خالد چونکہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اسی وجہ سے والد کے فوت ہونے کے بعد گھر کی ذمہ داری بچپن میں ہی اس کے کندھوں پر آپڑی تھی لیکن اس کی ماں نے ہمت نہ ہاری اور زمانے کی سختیوں کا مقابلہ کر کے خالد کو پڑھایا یہاں تک کہ خالد نےB.Aاچھے نمبروں سے پاس کر لیا لیکن بے چارے کو نوکری کہیں نہیں مل رہی تھی۔ حالات سے مجبور ہو کراس نے مزدوری کا کام شروع کر دیا اور گھر کا کچھ خرچ چلنے لگا۔ اسی دوران خالد کی ماں نے خالد کی شادی کر دی خالد کی بیوی ایک سال میں آمنہ کو جنم دینے کے بعد دنیا فانی سے کوچ کر گئی۔ جس کا خالد کو بہت صدمہ تھا لیکن اس نے اپنی بیٹی کا ہر طرح خیال رکھا اس کو ماں کے پیار کی کبھی کمی محسوس نہ ہونے دی۔
آمنہ چار سال کی ہوچکی تھی خالد اپنی بیٹی سے بےا نتہاء پیار کرتا تھا اور ننھی آمنہ بھی اپنے ابا پر جان چھڑکتی تھی۔ ماں ماں !دیکھ میں کیا لایا ہوں خالد نے گھر داخل ہوتے ہی اپنے ماں کو آوازیں دیتے ہوئے کہا
کیا لایا ہے پتر؟ میں بھی تو دیکھوں خالد کی ماں نے کچن سے نکلتے ہوئے خفیف سی آواز میں ماں دیکھو میں تیرے کہنے کے مطابق رکشہ لے آیا ہوں اور ہاں دیکھ میں کتنی محنت سے اس کو سجایا ہوا بالکل دلہن کی طرح خالد خوش ہوتے ہوئے فخر سے بولا۔
اللہ نظر بد سے بچائے خالد کی ماں نے خوبصورت رکشے کو دیکھتے ہوئے کہا اسی دوران ننھی آمنہ بھی بھاگی ہوئی آئی۔ پاپا۔۔۔ پاپا۔۔۔ مجھے جھولا لینا ہے ننھی آمنہ معصومیت سے بولی۔
ہاں۔ ہاں بیٹی ضرور کیوں نہیں آؤ تمہیں جھولا دلواؤں پھر خالد اپنی ماں سےا جازت لینے بعد ننھی آمنہ کو رکشتہ میں بٹھا کر ایک بڑا چکر لگا کر گھر آ گیا ننھی آمنہ بہت خوش تھی اچھا بیٹا میں اب کام پر جا رہاہوں اپنا اور دادی اماں کا خیال رکھنا او کے پاپا پر میرے کھلونے ضرور لے آنا۔۔ ننھی آمنہ نے اپنی معصوم خواہش کا ایک دفعہ پھر اپنے ابا سے اظہار کیا۔
ہاں بیٹی ضرور!آج شام کو آتے ہوئے ضرور لے کر آؤں گا میرا تمہارے ساتھ وعدہ۔ پتر دھیان سے جانا اللہ تمہاری حفاظت کرے خالد کے ماں نے دعا دے کر خالد کورخصت کیا اور خالد ہاتھ ہلاتا ہوا رکشہ اسٹارٹ کر کے اپنی ماں اور بیٹی کی نظروں سے جلد ہی اوجھل ہوگیا۔
کراچی میں شدت کی گرمی پڑ رہی تھی سورج اپنی پوری آب وتاب سے کرنیں بکھیر رہا تھا۔
ہرکوئی پسنے میں شرابور تھا خالد سخت گرمی میں سواری کا انتظار کر رہا تھا لیکن سواری کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ پھر اسے دور سے ایک سایہ آتا ہوا دکھائی دیا۔ خالد کی امید بندھی اور دور سے آواز دیتے ہوئے بولا :
چاچا مسلم نگر جانا ہے؟
ہاں بیٹا وہیں جانا ہے خالد کا بلند آواز سے جو اب دیتے ہوئے وہ آدمی تیز تیز قدم بڑھاتا خالد کی طرف آیا اور رکشہ میں بیٹھ گیا۔
ابھی خالد تھوڑا ہی دور گیا تھا کہ اچانک کراچی شہر میں افراتفری مچ گئی ساری دکانوں کے شٹر اندھا دھند نیچے ہونے لگے دو منٹ بعد ہی پورا شہر سنسان نظر آرہا تھا ہر طرف ہو کا عالم تھا خالد کے رکشہ میں بیٹھا آدمی خالد کو دو سوروپے دے کر بھاگ کر ایک گلی کےمکان میں گھس گیا کیونکہ کچھ نقاب پوش مسلح افراد نے ہوائی فائرنگ کرکے افراتفری مچا دی۔ خالد بھی گھبرایا ہوا تھا اس نے بھی رکشہ تیزی سے اسٹارٹ کیا اور اپنے گھر کی طرف جانے لگا۔
اچانک دو مسلح نقاب پوشوں نے اسے روکا اور روک کر بلا وجہ بغیر کچھ کہے سنے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گولی مار دی اور فرار ہوگئے خالد کو بچانے والا اور طبی امداد دینے والا کوئی نہ تھا اس نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔
ادھر ننھی آمنہ اور اس کی بوڑھی ماں اس کا انتظار کررہی تھی ننھی آمنہ خوش تھی کہ اس کو آج کھلونے مل جائیں گے اسی دوران کچھ لوگ خالد کی لاش کو اٹھا کر اس کے گھر کی طرف آرہے تھے اور پھر جب اس کی بوڑھی ماں کو بیٹے کی ہلاکت کا علم ہوا تو وہ صدمے سے پاگل ہوگئی اور عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگی ادھر خالد کی ننھی معصوم بیٹی آمنہ اپنے ابا کی لاش سے لپٹ کر زار و قطار رو رہی تھی۔ پاپا اٹھو نا…… مجھے کھلونے نہیں چاہیں پاپا …… میں وعدہ کرتی ہوں آئندہ کبھی آپ سے کھلونے نہیں مانگوں گی…… پاپا اٹھو ناں …… پاپا پلیز…… اٹھو پاپا…… ننھی معصوم آمنہ دیوانہ وار اپنے پاپا کی لاش سے لپٹ کر کہہ رہی تھی وہاں موجود ہر انسان کی آنکھ اشکبار تھی پھر مجبورا آمنہ کی چیخوں میں اس کے ابا کی لاش کو اٹھا کر قبرستان کی طرف لے جایا گیا اور آہوں اور سسکیوں میں ہمیشہ کے لیےدفن کردیاگیا۔خالد کی لاش آج بھی قاتلوں سے سوال کر رہی ہے کہ ظالمو بتاؤ میرا جرم کیا تھا؟ کس وجہ سے مجھے مارا گیا؟ کس وجہ سے میری بیٹی کو بے سہارا کر دیا گیا؟ کس وجہ سے میر ی ماں کو پاگل کر دیا گیا آخر میرا جرم کیا ہے؟ ہاں بتاؤ میرا جرم کیا ہے۔؟