ٹیک اوور

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ٹیک اوور
…………ناصر بن جابر
والد صاحب کا پیغام ملا فوراً واپس پلٹو! ایمرجنسی ہے۔ جھٹ پٹ ٹکٹ لیا اور قطر سے دبئی اور پھر لندن کو واپسی ہوئی، سارے پروگرام دھرے کے دھرے رہ گئے،گھر میں داخل ہوتے ہی ماحول میں اداسی کا احساس ہوا، پتہ چلا والدہ صاحبہ کو جگر کا سرطان تشخیص ہوا ہے اور وہ بھی آخری اسٹیج پر، والدہ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی، میں جس طرح چھوڑ کر گیا تھا وزن اس سے آدھا ہو چکا تھا،رہ رہ کے خیال آتا شاید میرا اس طرح گھر سے چلے جانا ،اس داغِ جگر کا سبب نہ بنا ہو !
میرا دل چاہتا تھا کہ والدہ مسلمان ہو جائیں اور اسلام ہمارے خاندان کو ٹیک اوور کر لے،مگر والدہ کی تمنا ایک روایتی ماں والی تھی یعنی مرنے سے پہلے بیٹے کا سہرا دیکھنے کی، لڑکی ہمارے خاندان سے ہی تھی اور مذہب کے معاملے میں کسی حد تک میری ہم خیال بھی تھی کیونکہ ہم دونوں کلاس فیلو بھی تھے، مجھے امید تھی کہ وہ بھی مسلمان ہو جائے گی، مگر والدہ کے اسلام کی راہ میں میرے والد صاحب کا پہاڑ کھڑا تھا،وہ ایک روایتی گھریلو خاتون تھیں جنہوں نے اپنی ذات کو شوہر میں گم کر دیا تھا، میں نے جب ان سے اسلام کی بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ” میں مرتے مرتے تیرے باپ کی نافرمانی نہیں کرنا چاہتی۔“
آخرکار میں نے اللہ کا نام لے کر اس پہاڑ کو خود سر کرنے اور والد صاحب سے بات کرنے کا فیصلہ کیا، والدین ہماری نفسیات کی رگ رگ سے واقف ہوتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ اللہ کے بعد ہماری ذات کے سب سے زیادہ واقف ہمارے والدین ہوتے ہیں۔ ادھرہمیں کوئی خیال آیا نہیں کہ ان کی چھٹی حس نے ان کو بتایا نہیں، آپ کے دکھ درد اور بےچینی کو محسوس کرنے کے لئے انہیں آپ کے بتانے یا الفاط دینے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ ہماری ذات کی مین برانچ ہوتے ہیں، ہماری ساری ٹرانزیکشن انہیں کے ذریعےہوتی ہے۔
جونہی میں والد صاحب کے پاس جا کر بیٹھا، انہوں نے ایک گہری نظر مجھ پر ڈالی اور جان لیا کہ میں ان سے کوئی اہم بات کرنا چاھتا ھوں،وہ ایک منجھے ھوئے سفارت کار تھے اور انسانی کیمسٹری سے آگاہ ! فرمانے لگے کیاکچھ سیکھا ہے ؟ میں نے کہا وہ سب کچھ جس کے لئے آپ نے مجھے پاکستان تجویز کیا تھا ! البتہ میں آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں،میں چاہتا ہوں کہ امی جان مرنے سے پہلے مسلمان ہو جائیں،مگر وہ آپ کی رضامندی لیے بغیر یہ کام نہیں کر پائیں گی، وہ مرتے مرتے آپ کی نافرمانی نہیں کرنا چاہتیں، اگر آپ اجازت نہیں دیں گے تو اپنے ساتھ دوسری جان کا بوجھ بھی آپ کو اٹھانا پڑے گا، میں نے زندگی بھر آپ سے کبھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا،مگر اب میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ اسلام کو اسٹڈی کریں اور دو چار دن میں کوئی فیصلہ کر لیں، اس سلسلے میں جو بھی وضاحت طلب باتیں ہوں وہ آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں مگر مجھے امید ہے کہ یہ دو کتابیں پڑھ لینے کے بعد آپ کو اسلام کے بارے میں تو کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں ھو گی، البتہ یہودیت کے بارے میں شاید کچھ ڈسکس کرنا چاہیں تو میں اس پر بھی بات کر لوں گا۔
کتابیں میں نے ان کے حوالے کر دیں اور والد صاحب ان کتابوں کو لے کر اپنے کمرے میں مقید ہو گئے،یہ ان کی پرانی عادت تھی جب بھی کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتا تھا تو وہ کھانے پینے کا بندوبست کر کے اپنے کو اپنے کمرے میں قید کر لیتے اور جب تک کوئی فیصلہ نہ کر لیتے کمرے سے نہ نکلتے، دو دن گزر گئے ایک رات تو پوری رات ان کے کمرے کی لائٹ جلتی رہی گویا وہ مطالعہ کرتے رہے، اگلا دن گزرا وہ باہر نہیں آئے، ادھر والدہ شادی کی تفصیلات طے کرتی رہیں۔ اگلے دن شام کے بعد والد صاحب باھر نکلے اور باغیچے میں آ کر اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھ گئے، وہ تھکے تھکے لگ رھے تھے، آنکھیں اور چہرہ متورم تھا،، میں نے نوکر کے ہاتھ انہیں کافی بھیجی جو انہوں نے لے لی !
میں والدہ کے پاس بیٹھا ان کے پاؤں دبا رھا تھا جو یخ بستہ لگ رھے تھے کہ والد صاحب آکر میرے پیچھے کھڑے ہو گئے، میں سمجھ رھا تھا وہ کس قیامت سے گزر رہے ہیں،اپنی اولاد سے کچھ پوچھنا یہ والدین توہین سمجھتے ہیں،میں کھڑا ہو گیا اور انہیں تھام کر والدہ کے سرھانے پڑی کرسی پر بٹھایا،میں چاہتا تھا جو کچھ وہ پوچھنا چاہتے ہیں وہ والدہ کے سامنے ہی پوچھیں تا کہ بیک وقت دونوں میرے دلائل کو سن سکیں، والد صاحب نے کہا ہمارے جینیٹکل مذہب کا کیا بنے گا؟ کیا ہم سب سے کٹ جائیں گے؟
میں نے عرض کیا کہ ابا جان جہاں تک میں نے سوچا ہے اور نہ صرف راتوں کو جاگ کر سوچا ہے چلتے پھرتے اور سفر میں ہر جگہ سوچا ہے کہ اس جینٹیکل مذہب کے فلسفے کے پیچھے حقیقت کیا ہے ؟ میں تو اس نتیجے تک پہنچا ہوں کہ یہ ہمارے علماء کا اپنی علمی کمزوری کو چھپانے کا بہترین حربہ ہے اور بس ! اس کا تعلق دین سے نہیں نفسیاتی جنگ سے ہے، وہ نئے آنے والوں کو مطمئن نہیں کر سکتے اور جانے والوں کو دلیل سے روک نہیں سکتے لہٰذا انہوں نے یہ جینیاتی مذہب کا نظریہ گھڑ لیا ہے،وہ جانتے ہیں کہ جب انسان کسی چیز کو اپنی کہہ کر اپنا لیتاہے تو پھر اس کی حفاظت اور عزت کی خاطر کٹ مرتاہے یہ اس کی ایگو کا مسئلہ بن جاتا ہے،یہاں تک کہ وہ اپنی گائے بھینس کی توہین کو بھی اپنی ذات پر حملہ تصور کرتا ہے اور بدلے میں قتل کر دیتا ہے،ہمارے علماء جوان نسل کو چونکہ دلیل سے قائل نہیں کر سکتے لہٰذا انہوں نے اس کی راہ میں تعصب کی جینیاتی دیوار کھڑی کر دی ہے۔
ابا جان جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بستی کے لوگوں پر اسلام پیش کیا تھا تو کیا وہ پوری بستی اور نمرود ان کا جینیاتی رشتہ دار تھا؟ جب یوسف علیہ السلام نے جیل میں قیدیوں پر اسلام پیش کیا تھا تو کیا وہ بنی اسرائیل کے جینیاتی رشتے دار تھے؟پھر انہوں نے سارا مصر مسلمان کر لیا تو کیا مصری ان کے جینیاتی رشتے دار تھے؟
ابا جان جینز خاندان اور قوم بناتے ہیں ،نظریات اور دین کا جینز کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا،نہ اللہ کا انسانوں سے تعلق جینیاتی رشتے داری کا ہے –آپ ایک ذہین و فطین آدمی ہیں، میں نے زندگی بھر آپ کو اپنا آئیڈیل بنا کر رکھا ہے،ہر جگہ ہر معاملے میں سوچا ہے کہ میرے ابا اگر ہوتے تو وہ کیسے ری ایکٹ کرتے، اور بالکل ویسا ری ایکٹ کیا ہے،میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ میرے آئیڈیل کو ڈیمیج نہیں کرے گا، میں آج جس جگہ کھڑا ہوں یہ سب آپ کی تربیت کا نتیجہ ہے،حق کی پیروی اور سچ کو سچ کہنے اور پھر اس پر ڈٹ جانے کا سبق میں نے آپ سے سیکھا ہے اور آج اس سبق کا پریکٹیکل آپ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔
میں جانتا تھا والد صاحب دل سے قائل ہو چکے ہیں،بس اعلان کی ضرورت ہے ادھر والدہ ان کو” ٹک ٹک دیدم ،دم نہ کشیدم“ کی تصویر بنی دیکھ رہی تھیں، والد صاحب اٹھے میری کرسی کے پیچھے آئے تھوڑا سا جھکے اور اپنے دونوں ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ کر ہلکا سا تھپتھپایا اور بولے شام کو مسجد چلیں گے اور باھر نکل گئے۔
یہ بھی اچھا ہوا مرد؛ مرد کے سامنے روتا ہوا اچھا نہیں لگتا جونہی ابا جان باہر نکلے میں نے اپنی کرسی سے جھک کراپنے ہونٹ والدہ کے قدموں پر رکھ دیے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، اسلام ہمارے گھر میں داخل ہو گیا تھا ،میں نے کبھی اتنی بڑی نعمت کا سوچا تک نہ تھا، اب مجھے یقین تھا کہ میری بہن اور باقی بھائی بھی مسلمان ہو جائیں گے !
شام کو ہم محلے کی مسجد میں گئے اور والد صاحب نے اسلام قبول کیا،جبکہ امی جان نے میرے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ،یہ ان کا ہی مطالبہ تھا کہ میں بیٹے کے ہاتھ پر ایمان لاؤں گی، اگلے دس دن شادی کے بندوبست میں لگے شادی ہوئی اور شادی کے چھٹے دن میری والدہ اللہ کو پیاری ہو گئیں، میری دنیا گویا اجڑ کر رہ گئی مگر یہ تو ایک فطری پراسیس ہےہر ایک کو پیدا ہونے کی طرح مرنا بھی ضروری ہے، ایک ایک کر کے میرے دونوں بھائی پھر میری بہن میرا بہنوئی بھی مسلمان ہو گئے جبکہ یہ بتانا تو میں بھول گیا کہ میری بیوی نے بھی شادی سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا !
یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے 30 سے زیادہ عزیز مسلمان ہو چکے ہیں اور مزید کی امید رکھتا ہوں،اس دعا کے ساتھ کہ اللہ پاک اس سعی کو قبول و منظور فرمائے ،آپ سے اجازت چاہوں گا۔
اللہ حافظ